سوال (1967)
حَدَّثَنَا عَفَّانُ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ دِينَارٍ قَالَ: «كَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، اذَا صَلَّى يُرْسِلُ يَدَيْهِ»
اس روایت کیا حکم ہے؟
جواب
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ارسال الیدین اور ہاتھ باندھنا دونوں ثابت ہے، شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس کی تطبیق یوں دی تھی، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے ہاتھ باندھتے تھے، اور رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑتے تھے، اس بنیاد پر شیخ رحمہ اللہ نے رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ روایت صحیح ہے، لیکن یہ صحابی رسول کا ذاتی عمل ہے، لہذا قابل عمل و حجت نہیں ہے، دوسری بات بعض اہل علم نے اسے بعد از رکوع پر محمول کیا ہے، لیکن اس تاویل کی کوئی قطعی دلیل نہیں ہے، باقی نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے اور دلائل اسی طرف ہیں، نماز میں ہاتھ باندھنا واجب یا تاکیدی سنت ہے ، جس کا ترک جائز نہیں ہے، دلیل یہ ہے کہ:
نماز میں ہاتھ باندھنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔
صحیح بخاری [حدیث نمبر: 740] اور مؤطا امام مالک اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ:
عن مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: “كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة”، قال ابو حازم: لا، اعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال إسماعيل: ينمى ذلك ولم يقل ينمي”
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔
نماز میں ہاتھ باندھنے کا یہ حکم اتفاقی ہے، اس میں مخالف کے پاس کوئی صحیح منقول دلیل نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:
“قال ابن عبد البر لم يأت عن النبي صلى الله عليه وسلم فيه خلاف وهو قول الجمهور من الصحابة والتابعين وهو الذي ذكره مالك في الموطأ ولم يحك بن المنذر وغيره عن مالك غيره”
یعنی نماز میں ہاتھ باندھنے کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت منقول نہیں ہے، اور جمہور صحابہ و تابعین کا بھی یہی کہنا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھناسنت ہیں، اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی مؤطا میں یہی بیان کیا ہے، اور “مذاھب علماء نقل کرنے والے” امام ابن المنذر رحمہ اللہ وغیرہ بھی امام مالک اور دیگر ائمہ فقہ کا اس کے علاوہ کوئی قول نقل نہیں کیا ”
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ