سوال (5067)
سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے ان کی وصیت کے مطابق دوسری شادی کی۔
حسن حسین زینب ابھی چھوٹے تھے۔ آپ نے سیدنا عقیل کو رشتہ دیکھنے کے لئیے کہا تو کلبسی بنو قلاب کے قبیلے کا انتخاب ہوا۔
حضرت علیؓ کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو شجاعت سخاوت اور ایثار کی خصوصیات سے مالا مال ہو۔ بنو قلاب کی خاتون فاطمہ بنت حزم کے گھر رشتہ بھیجا تو سردار حزم اپنی بیوی کے پاس گئے اور پوچھا کہ سیدنا علیؓ کا بیٹی فاطمہ کے لئیے رشتہ آیا ہے کیا آپ نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی ہے جو نبی کے خاندان میں بیاہی جا سکے۔
رشتہ قبول ہوتا ہے تو فاطمہ بنت حزم( سیدہ ام البنین) حضرت علیؓ کے گھر جاتی ہیں تو سیدنا حسن حسین اور فاطمہ کو گلے لگا لیتی ہیں۔
حضرت علیؓ سے درخواست کرتی ہیں کہ ان بچوں کے سامنے آپ مجھے کچھی فاطمہ مت کہئیے گا انہیں اس سے ان کی ماں یاد آ جائے گی۔
میں اس گھر میں ان کی ماں بن کر نہیں آئی بلکہ کنیز بن کر آئی ہوں۔
میرا یہ مقام نہیں کہ ان کی ماں کی جگہ لے سکوں۔
اس کے بعد آپ نے انہیں بیٹا نہیں کہا بلکہ ہمیشہ مولا کہتی رہیں۔
ان کے چار بیٹے ہوئے اس لئیے انہیں ام البنین بھی کہتے مطلب بیٹوں کی ماں۔
اپنے بیٹوں کو ہمیشہ حسنؓ حسینؓ علیؓ کی صرف اطاعت کا حکم دیا۔
ادب سکھایا اور کہا جو وہ کہیں بس حکم بجا لانا ہے بحث نہیں کرنی
یہ اہل بیت ہیں ہم ان کے نوکر ہیں۔
چار بیٹوں میں عباس ابن علی ، عبداللہ ابن علی ، جعفر ابن علی اور عثمان ابن علی تھے۔
سیدنا عباس علیہ السلام لشکر حسین کے سپہ سالار بھی رہے شجاعت میں یہ ایک مقام رکھتے تھے دونوں ہاتھ سے تلوار چلاتے تھے۔
جنگ صفین میں سیدنا علیؓ نے ان کو بھیجا تو محمد بن حنفیہ کہتے کہ مولا آپ صرف عباس کو کیوں آگے بھیجتے ہیں تو سیدنا عباس کہنے لگے حسن حسین میرے ابا کی آنکھیں ہیں اور میں ان کا بازو اور بازو ہمیشہ آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں (حالانکہ عمر میں حسن و حسین سے چھوٹے تھے)
مطلب کہ یہ سوال بھی نہیں بنتا، ماں کی تربیت ہر مقام پر جھلکتی تھی۔
واقعہ کربلا میں جب ایک ایک کر کے لشکر حسین کے سپاہی شہید ہوتے گئے تو سیدنا عباس نے حسینؓ سے درخواست کی کہ مجھے جانے دیں۔
سیدنا حسینؓ ان سے تلواریں لے لیتے ہیں کہ بس عباس تم پانی لے آو۔ آپ پانی لینے جاتے ہیں تو یزیدی لشکر ان پر حملہ کر دیتا ہے دونوں بازو کاٹ دئیے جاتے ہیں وہی جنہوں نے حسین کی حفاظت کرنی تھی۔
گھٹنے میں تیر لگتا ہے حسینؓ عالی مقام کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ سیدنا عباس مولا حسینؓ سے درخواست کرتے ہیں کہ میرے گھٹنے سے تیر نکال دیں اور کہتے ہیں کہ مولا میری والدہ سے کہہ دیجئیے گا کہ عباس کے دونوں بازو نہیں تھے آپ کو صرف اس لئیے تیر نکالنے کی زحمت دی۔
یہ وہ ادب تھا وہ اطاعت تھی جو سیدہ ام البنین کی تربیت تھی جنہوں نے ساری زندگی نبی کے اس گھرانے کی کنیز بن کر گزار دی۔
آپ کے چاروں بیٹے اس جنگ میں شہید ہو گئے۔
حضرت علیؓ کے پانچ بیٹوں نے اس میں جام شہادت نوش کیا جس میں 4 سیدہ ام البین کے فرزندان تھے۔
جو لشکر حسین کا نہ صرف حصہ بنے بلکہ امام عالی مقام پر اپنی جان تک قربان کر دی اور ساری عمر کبھی زبان پر کوئی سوال نہ لائے۔
سیدہ ام البنین کو جب بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو کہا عباس شہد ہوا جعفر شہید ہوا عثمان شہید ہوا عبداللہ بھی شہید ہو گیا فرمانے لگی سب چھوڑیں میرے مولا حسینؓ کا بتائیں تو بتایا کہ وہ بھی شہید ہو گئے تو کہنے لگی کیا میرے بیٹے بعد میں شہید ہوئے مولا حسین سے؟
تو بتایا کہ نہیں وہ پہلے شہید ہوئے اور مولا کی حفاظت کے لئیے خوب لڑے تو شکر ادا کیا کہ انہوں نے بیشک حق ادا کر دیا۔
یہ وہ ماں تھی جو اہل بیت کے مقام کو سمجھتی تھی جس نے اپنے سارے بیٹوں کو ساری عمر صرف اطاعت سکھائی ادب سکھایا خود کو اس گھر کی کنیز بنایا اور حسنؓ و حسینؓ کو بیٹا نہیں ہمیشہ مولا کہا۔
اللّه رب العزت ہم سب کو اہل بیت کا مقام سمجھنے اور اس ادب و اطاعت کی ہدایت فرمائے جو سیدہ ام البینین نے اپنی اولاد کو سکھایا۔
اس تحریر کی تصدیق یا تکذیب میں علماء اپنی آراء سے مستفید فرمائیں شکریہ!
جواب
سیدہ فاطمہ ام البنین رضی اللہ عنھا کی وفات کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تھی، ام البنین اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ چار بیٹوں کی والدہ ہیں، یکے بعد دیگرے کو جنم دیا تھا، جو کہ کربلا میں شہید ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے قاتلین سے انتقام لے، تحریر صحیح ہے، بعض کچھ جگہوں پر مبالغہ آرائی دیکھائی دے رہی ہے، کیونکہ اہل تشیع اس کو ہائے لائیٹ کرتے ہیں، باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ان کی شادی ایک حقیقت ہے، چار بیٹوں کو جنم دیا تھا، جو کہ کربلا میں شہید ہوئے ہیں، باقی تحریر صحیح ہے، باقی کہیں کہیں مبالغہ آرائی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس تحریر کی بہت ساری باتیں صحیح ہیں، اکثر باتیں واقعاتی اعتبار سے لکھی گئی ہیں، ان کی تصدیق و تائید مصادر و مراجع میں نہیں ہوتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ