سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، امام اہلِ السنہ، احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی نظر میں
عبد الملک بن عبد الحمید میمونی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١هـ) سے پوچھا: کیا نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان نہیں ہے کہ:
كُلُّ صِهْرٍ وَنَسَبٍ يَنْقَطِعُ إِلَّا صْهِرِي وَنَسَبِي.
’’قیامت کے دن ہر نسبی (خونی) اور سسرالی رشتہ داری ختم ہو جائے گی، سوائے میری خونی اور سسرالی رشتہ داری کے؟‘‘ فرمایا: ’’جی ہاں، بالکل ہے۔‘‘
میں نے پوچھا: کیا یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ہے؟ فرمایا: ’’جی ہاں! وہ آپ ﷺ کے نسب سے بھی رشتہ دار ہیں اور سسرال سے بھی۔‘‘
نیز فرمایا: ’’ان لوگوں کو معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا تکلیف ہے؟ ہم اللہ تعالی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٥٤، وسنده صحیح)
ہارون بن عبد اللہ بن مروان بغدادی بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس رقہ سے خط آیا کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے، ہم معاویہ کو مومنوں کا ماموں نہیں کہتے۔ تو آپ رحمہ اللہ غضبناک ہو گئے اور فرمایا:
مَا اعْتِرَاضُهُمْ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ، يُجْفَوْنَ حَتَّى يَتُوبُوا.
’’اِس بات پر ان کا بھلا کیا اعتراض بنتا ہے۔ ان سے قطع تعلقی کرنی چاہیے، یہاں تک کہ توبہ کر لیں۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٥٨)
ابو الحارث احمد بن محمد بن عبد ربہ مروزی بیان کرتے ہیں، ہم نے امام احمد رحمہ اللہ کی طرف رُقعہ بھیجا کہ آپ کا اس شخص کے بارے کیا خیال ہے جو کہتا ہے کہ میں معاویہ کو نہ تو کاتبِ وحی مانتا ہوں اور نہ ہی مومنوں کا ماموں کہتا ہوں، انہوں نے تلوار کے زور پر خلافت چھینی ہے۔ تو انہوں نے فرمایا:
هَذَا قَوْلُ سَوْءٍ رَدِيءٌ، يُجَانَبُونَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، وَلَا يُجَالَسُونَ، وَنُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ لِلنَّاسِ.
’’یہ نہایت گندی اور فضول ترین بات ہے، ان لوگوں سے دور رہا جائے گا، ان کی مجلس میں نہیں بیٹھا جائے گا اور لوگوں پر ان کی حقیقت واضح کی جائے گی۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٥٩ وسنده صحیح)
ابو بکر بن مروزی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا: معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبد العزیز؟ فرمایا: معاویہ رضی اللہ عنہ اَفضل ہیں۔ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ.
’’لوگوں میں بہترین زمانہ وہ ہے جن میں میں مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٦٠ وسنده صحیح)
فضل بن زیاد بیان کرتے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے بارے پوچھا گیا جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی تنقیص کرتا ہے، کیا ایسے بندے کو رافضی کہا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’وہ ان دونوں صحابہ کے بارے میں جراءت اسی لیے کر رہا ہے کہ اس نے اپنے دل میں کوئی گند چھپا رکھا ہے۔ جو بندہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے کسی ایک کی بھی تنقیص کرتا ہے، درحقیقت اُس کے پیچھے کوئی گندا مقصد ہوتا ہے۔‘‘ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي.
’’لوگوں میں سب سے بہترین میرے زمانے کے لوگ ہیں۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٩٠ وسنده لا بأس به)
حنبل رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: معاویہ رضی اللہ عنہ اَفضل ہیں یا عمر بن عبد العزيز؟ فرمایا: ’’جس نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے۔ اور آپ ﷺ کا فرمان ہے: خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي. ’’لوگوں میں سب سے بہترین میرا زمانہ ہے۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٦١ وسنده صحیح)
یوسف بن موسی بن راشد بیان کرتے ہیں، امام احمد رحمہ اللہ سے ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا ہے، کیا بادشاہ کو اس کی شکایت کرنی چاہیے؟ فرمایا:
أَخْلَقُ أَنْ يُتَعَدَّى عَلَيْهِ.
’’وہ اس لائق ہے کہ اس کی درگت بنائی جائے۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٩٢ وسنده صحیح)
ابوبکر حبیش بن سندی بیان کرتے ہیں، کسی نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ میرا ماموں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی توہین کرتا ہے اور میں کبھی اس کے ساتھ کھا پی لیتا ہوں۔ تو انہوں نے فورا جواب دیا:
لَا تَأْكُلْ مَعَهُ.
’’اس کے ساتھ ہرگز نہ کھاؤ۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٩٣ وسنده صحیح)
ابو طالب احمد بن محمد مشکانی بیان کرتے ہیں، کہ انہوں نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ معاویہ مومنوں کے ماموں اور ابن عمر مومنوں کے ماموں؟ فرمایا: ’’جی ہاں! معاویہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم ﷺ کی بیوی ام حبیبہ کے بھائی ہیں اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، آپ ﷺ کی بیوی حفصہ کے بھائی ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا: یعنی میں کہہ سکتا ہوں کہ معاویہ مومنوں کے ماموں ہیں؟ فرمایا: ’’جی بالکل۔‘‘
▪(السنة للخلال: ٦٥٧ وسنده صحیح)
🖋 حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ