سوال (5570)

حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفُرُشِ ثُمَّ أُتِينَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلْنَا ثُمَّ أُتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةُ ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي ثُمَّ قَالَ مَا شَرِبْتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مُعَاوِيَةُ كُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيْشٍ وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا وَمَا شَيْءٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَابٌّ غَيْرُ اللَّبَنِ أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي

عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انہوں نے ہمیں بستر پر بٹھایا، پھر کھانا پیش کیا جو ہم نے کھایا، پھر پینے کے لئے ( نبیذ ) لائی گئی جسے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نوش فرمایا، پھر میرے والد کو اس کا برتن پکڑا دیا تو وہ کہنے لگے کہ جب سے نبی ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا، پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قریش کا خوبصورت ترین نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمدہ دانتوں والا تھا، مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسانوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔
[مسند احمد: 23329]
حضرت عائشہ کی عمر حضرت اسماءؓ کی عمر سے استدلال یہ سب سے مضبوط اور مستند دلیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے:
یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ، حضرت عائشہؓ کی بہن تھیں اور ان سے 10 سال بڑی تھیں۔
حضرت اسماءؓ کی وفات 73 ہجری میں ہوئی، اور اس وقت ان کی عمر 100 سال تھی۔
اس حساب سے، حضرت اسماءؓ کی پیدائش ہجرت سے تقریباً 27 سال پہلے ہوئی۔ (100 – 73 = 27)
چونکہ حضرت عائشہؓ ان سے 10 سال چھوٹی تھیں، تو ان کی پیدائش ہجرت سے تقریباً 17 سال پہلے ہوئی۔ (27 – 10 = 17)
نکاح ہجرت کے بعد دوسرے یا تیسرے سال میں ہوا تھا۔ اگر ہم اوسطاً 3 ہجری کا سال لیں تو اس وقت حضرت عائشہؓ کی عمر تقریباً 19 یا 20 سال بنتی ہے۔ (17 + 3 = 20)
یہ حساب کتاب ان تمام تاریخی اور روایتی معلومات سے مطابقت رکھتا ہے جو مختلف ذرائع سے دستیاب ہیں۔
2. غزوات میں شرکت کا استدلال
متعدد احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت عائشہؓ غزوات جیسے بدر اور احد میں شریک تھیں۔
غزوہ بدر 2 ہجری میں اور غزوہ احد 3 ہجری میں ہوا۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ ان کا نکاح 1 ہجری میں ہوا تھا تو اس وقت وہ تقریباً 18 سال کی تھیں اور ان غزوات میں ان کی عمر 19 سے 20 سال کے درمیان ہو گی۔
ایک 19-20 سال کی خاتون کے لیے جنگی میدان میں زخمیوں کو پانی پلانا اور ان کی دیکھ بھال کرنا منطقی ہے، جبکہ 6 یا 9 سال کی بچی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔
3. جاہلیت میں نکاح کا استدلال
مستند روایات کے مطابق، حضرت عائشہؓ کا نکاح رسول اللہ ﷺ سے پہلے جاہلیت کے دور میں جبیر بن مطعم سے طے پا چکا تھا۔
ایک چھ سال کی بچی کی شادی کی بات ہونا قدیم عرب معاشرے میں بھی بہت کم تھا۔ عام طور پر شادیاں بلوغت کے بعد ہی طے پاتی تھیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت عائشہؓ اس وقت ایک کم سن بچی نہیں بلکہ ایک جوان لڑکی تھیں۔
ان دلائل کے ذریعے آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نکاح کے وقت کافی زیادہ تھی۔
اس بات کی روایات کم کتب میں ہیں۔
پچھلے جواب میں جو دلائل دیے گئے ہیں، ان کی روایات مختلف تاریخی اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، لیکن ان کو اس طرح سے منظم کر کے استدلال کرنا جدید محققین کا کام ہے۔
یہ روایات درج ذیل کتابوں میں مل سکتی ہیں:
صحیح بخاری: اس کتاب میں حضرت عائشہؓ کی شادی کی عمر کے بارے میں روایات موجود ہیں، لیکن یہ محققین کا کام ہے کہ وہ دوسری روایات اور تاریخی حقائق کو ملا کر ایک مکمل تصویر پیش کریں۔
تاریخ طبری: یہ ایک جامع تاریخی کتاب ہے جس میں حضرت ابوبکرؓ کے خاندان اور ان کی بیٹیوں کی عمروں کے حوالے سے روایات موجود ہیں۔ اسی کتاب میں حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہؓ کی عمروں میں فرق کا ذکر ملتا ہے۔
سیرت ابن ہشام : یہ سیرت کی قدیم ترین اور اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے، جس میں حضرت عائشہ۔۔
ان دو احادیث کی وضاحت فرمائیں؟

جواب

اس روایت میں بالشرب فشرب کی توضیح وتوجیح شیخ محب الله شاه راشدی کے فتاوی کی پہلی جلد میں موجود ہے۔
مگر راجح یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ومنکر ہے۔
حسین بن واقد کی عبدالله بن بریدہ سے روایت منکر ہوتی ہے۔
امام أحمد بن حنبل رحمة الله نے کہا:

ﻣﺎ ﺃﻧﻜﺮ ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻭاﻗﺪ ﻭﺃﺑﻲ اﻟﻤﻨﻴﺐ ﻋﻦ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ
العلل ومعرفة الرجال برواية عبدالله بن أحمد: (497) 1/ 301
اور کہا: ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ اﻟﺬﻱ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺣﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻭاﻗﺪ ﻣﺎ ﺃﻧﻜﺮها
العلل ومعرفة الرجال برواية ابنه عبد الله: 2/ 22،الضعفاء الكبير للعقيلى:2/ 238

دوسری روایت کے الفاظ

ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ اﻟﺬﻱ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺣﺴﻴﻦ ﺑﻦ ﻭاﻗﺪ ﻣﺎ ﺃﻧﻜﺮﻫﺎ ﻳﻌﻨﻲ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺘﻲ ﺭﻭاﻫﺎ ﺣﺴﻴﻦ ﻋﻨﻪ، الجرح والتعديل: 5/ 13

تو یہ روایت تفرد وغرابت اور جرح مفسر کے سبب ضعیف ہے۔
مگر یاد رہے جہاں ائمہ کبار حسین عن ابن بریدہ روایت کی تصحیح وتحسین کریں اور قرائن اس کی تائید کرتے ہوں وہاں وہ روایت قبول کی جائے گی۔

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ