سوال (5199)
حضرت سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ عرفات میں تھا۔ وہ فرمانے لگے: کیا وجہ ہے کہ میں لوگوں کو لبیک پکارتے نہیں سنتا؟ میں نے کہا: وہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اپنے خیمے سے نکلے اور بلند آواز سے پکارا:لَبَّیْکَ اللّٰهُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ تعجب ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی سنت چھوڑ دی ہے۔ [سنن النسائی: 3009]
جواب
اہل علم نے اس روایت کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس میں خالد بن مخلد نامی راوی ضعیف ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ روایت منکر وغیر محفوظ ہے۔
سب سے پہلی بات ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ آیا اس طرح کے روات سے امام بخاری نے اصول میں روایت لی ہے کہ نہیں؟
جی ہاں خالد بن مخلد راوی کہ جو صدوق ہیں مگر اہل کوفہ سے جرح مفسر وخاص کے سبب ان کی روایت ضعیف ومنکر ہوتی ہے اور اہل مدینہ سے ان کی روایت مقبول وصحیح ہوتی ہے جیسا کہ شرح علل الترمذی میں غلابی کی تاریخ سے حافظ ابن رجب نے کلام نقل کیا ہے۔
تو عرض ہے کہ امام بخاری جیسے علل ورجال کے ماہر امام نے اپنے شیخ خالد بن مخلد سے جتنی روایات لی ہیں وہ سب مقرونا لی ہیں سوائے ایک روایت کے جو انہوں نے اپنے مدنی شیخ سلیمان بن بلال سے لی ہے اس سے آپ امام بخاری کی دقت نظری ،علمی بصیرت اور رجال وعلل پر گہری نظر رکھنے کی کمال صلاحیت دیکھ اور معلوم کر سکتے ہیں کہ امام صاحب نے صرف ایک منفرد روایت اس راوی سے لی ہے باقی سب مقرونا لی ہیں
اور جو اصول میں کی وہ احکام کی روایت سے نہیں ہے اور نہ ہی وہ شیخ کوفی ہیں سبحان الله
امام بخاری رحمة الله عليه نے اپنی الصحیح میں خوب تنقیح ودراسہ کے بعد ہی کسی راوی سے اصول میں روایت نقل کی ہے ۔ اس لئیے اگر کوئی راوی مختلف فیہ ہے بھی تو اس کی وہی روایت کی ہے جو نکارت وعلت سے محفوظ ہے اور اس میں کوئی خلاف شرع بات نہیں ہے۔
اور اس راوی کی جتنی بھی روایات امام ابن عدی الکامل میں لاے ہیں ان میں سے کوئی روایت بھی امام بخاری اپنی الصحیح میں نہیں لائے ہیں
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه نے کتنی خوبصورت وضاحت کی ہے ھدی الساری میں
آپ کہتے ہیں:
ﻗﻠﺖ ﺃﻣﺎ اﻟﺘﺸﻴﻊ ﻓﻘﺪ ﻗﺪﻣﻨﺎ ﺃﻧﻪ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺛﺒﺖ اﻷﺧﺬ ﻭاﻷﺩاء ﻻ ﻳﻀﺮﻩ ﻻ ﺳﻴﻤﺎ ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺩاﻋﻴﺔ ﺇﻟﻰ ﺭﺃﻳﻪ ﻭﺃﻣﺎ اﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻓﻘﺪ ﺗﺘﺒﻌﻬﺎ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺪﻱ ﻣﻦ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﺃﻭﺭﺩﻫﺎ ﻓﻲ ﻛﺎﻣﻠﻪ ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻴﻬﺎ ﺷﻲء ﻣﻤﺎ ﺃﺧﺮﺟﻪ ﻟﻪ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺑﻞ ﻟﻢ ﺃﺭ ﻟﻪ ﻋﻨﺪﻩ ﻣﻦ ﺃﻓﺮاﺩﻩ ﺳﻮﻯ ﺣﺪﻳﺚ ﻭاﺣﺪ ﻭﻫﻮ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻣﻦ ﻋﺎﺩﻯ ﻟﻲ ﻭﻟﻴﺎ، ھدی الساری:1/ 400
شیخ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻛﺎﻓﻲ کہتے ہیں:
ﻭﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﺨﻠﺪ ﻣﻦ ﺷﻴﻮﺥ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻬﺬا ﻳﻘﺘﻀﻲ ﻣﻌﺮﻓﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﺣﺎﻟﻪ ﻋﻨﺪﻩ.
ﻓﻠﻤﺎ ﻋﻠﻢ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺻﺪﻕ ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻣﺨﻠﺪ، ﻭﺭﺃﻯ ﺃﻥ ﻫﺬا اﻟﻤﺘﻦ اﻟﺬﻱ اﻧﻔﺮﺩ ﺑﻪ ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻪ ﺷﻲء ﻳﺨﺎﻟﻒ اﻟﻘﺮﺁﻥ ﺃﻭ اﻟﺴﻨﺔ اﻟﻤﺸﻬﻮﺭﺓ ﺃﻭ ﺃﺻﻮﻝ اﻟﺸﺮﻳﻌﺔ ﻭﻭﺟﺪﺕ ﻟﻪ ﺷﻮاﻫﺪ (¬2) ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﺿﻌﻴﻔﺔ ﻭﻟﻜﻨﻬﺎ ﻛﺜﻴﺮﺓ ﻳﺼﻠﺢ ﻣﻨﻬﺎ ﻧﻮﻉ ﻗﻮﺓ ﻣﻤﺎ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻟﻠﺤﺪﻳﺚ ﺃﺻﻼ ﻟﻬﺬا ﻛﻠﻪ ﺻﺤﺤﻪ اﻹﻣﺎﻡ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ.
ﻭﻳﻤﻜﻦ اﻟﻘﻮﻝ ﺃﻳﻀﺎ: ﺇﻥ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﺗﺴﺎﻫﻞ ﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺔ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻷﻧﻪ ﻓﻲ اﻟﺮﻗﺎﻕ ﻭﻓﻀﺎﺋﻞ اﻷﻋﻤﺎﻝ ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺃﺻﻮﻝ اﻟﺘﺤﺮﻳﻢ ﻭاﻟﺘﺤﻠﻴﻞ، ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
ﻣﻨﻬﺞ اﻹﻣﺎﻡ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ ﻓﻲ ﺗﺼﺤﻴﺢ اﻷﺣﺎﺩﻳﺚ ﻭﺗﻌﻠﻴﻠﻬﺎ (ﻣﻦ ﺧﻼﻝ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﺼﺤﻴﺢ): ص:234
اور امام بخاری یہ جو منفرد روایت ذکر کی ہے یہ فضائل رقائق وغیرہ کے باب سے کی ہے اور جو منہج ائمہ محدثین وعلل کے مطابق ہے یعنی ائمہ محدثین نے احکام کی روایات کے علاوہ فضائل ورقائق وزھد وآداب کی روایات لینے میں رسول ونرمی سے کام لیا ہے اور احکام کی روایات کی طرح سختی نہیں کی ہے۔
اسی طرح امام مسلم نے بھی خالد بن مخلد سے اصول میں روایت نہیں لی ہے لہذا یہ کہنا کہ یہ صحیحین کا راوی ہے اور اس سے غلط تاثر دینے کی کوشش کرنا مذموم عمل ہے۔
ہمیں پہلے امام بخاری کے منہج واصول کو سمجھنا چاہیے ہے اسلوب کو جاننا چاہیے ہے اور اسے واضح کر کے بیان کرنا چاہیے ہے تا کہ کوئی ابہام پیدا نہیں ہو یا باقی نہیں رہے۔
اور خالد بن مخلد کی یہ صحیح البخاری میں موجود جو منفرد حدیث ہے من عادی لی ولیا۔۔۔
یہ امام بخاری،امام ابن حبان ( صحیح ابن حبان:347)، امام ابو القاسم ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﻔﻀﻞالعوالی الموافقات للأصبهاني:(46) ، امام بغوی( شرح السنة للبغوي 5/ 19 ،20 کے شیخ الإسلام ابن تیمیہ، الإيمان لابن تيمية:ص:344 کے نزدیک صحیح ہے۔
تو سنن نسائی(3006) صحیح ابن خزیمہ:(2830) مستدرک حاکم:(1706)، السنن الکبری للبیھقی: (9447) کی یہ روایت
ﻓﺨﺮﺝ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻣﻦ ﻓﺴﻄﺎﻃﻪ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻟﺒﻴﻚ اﻟﻠﻬﻢ ﻟﺒﻴﻚ، ﻟﺒﻴﻚ ﻓﺈﻧﻬﻢ ﻗﺪ ﺗﺮﻛﻮا اﻟﺴﻨﺔ ﻣﻦ ﺑﻐﺾ ﻋﻠﻲ
غیر محفوظ وضعیف ہے۔کہ خالد بن مخلد کی اس روایت پر کسی ثقہ و حافظ راوی نے موافقت نہیں کی ہے پھر یہ تشیع میں افراط کا شکار تھے یہ قرآن کریم کی نص قطعی کے خلاف ہے الله سبحانه وتعالی فرماتے ہیں:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ، الفتح:(29)
قرآن کریم کی اس واضح گواہی کے بعد یہ کہنا کہ وہ سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ سے بغض رکھتے تھے سراسر غلط ہے کیونکہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم دلی پیار،محبت سے پیش آتے تھے
ارشاد باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ،وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔
وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی۔
اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، اگر آپ زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کردیتے ان کے دلوں کے درمیان ( کبھی )الفت نہ ڈالتے اور لیکن الله نے ان کے درمیان الفت ڈال دی۔ بے شک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والے ہیں۔ الانفال:(62 ،63)
یہ آیت بھی نص قطعی ہے۔
جن کے دلوں میں رب تعالیٰ نے الفت ومحبت ڈال دی ہو وہ کیسے ایک دوسرے کے لئے بغض رکھ سکتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ تو سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں نہایت عمدہ سوچ رکھتے تھے۔
مثلا:سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا:
ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻠﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ متهما،
سیدنا معاویہ رضی الله عنہ رسول الله صلى الله عليه پر جھوٹ بولنے والے نہیں تھے۔
مسند أحمد بن حنبل:(16863،16938)،السنة للخلال:(674)،المعجم الكبير للطبراني:19/ 309،حديث أبي الفضل الزهرى:(366)،معجم الصحابة للبغوي:5/ 378
امام ابن أبي مليئة رحمة الله عليه کہتے ہیں:
قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ قَالَ أَصَابَ إِنَّهُ فَقِيهٌ۔
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ سے پوچھا گیا آپ امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ درحقیقت انہوں نے صرف ایک رکعت وتر ادا کیا یے تو سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا: آپ نے بہت درست کیا (جان لیں) بلاشبہ وہ بڑے فقیہ ہیں۔صحیح البخاری:(3765)
سنن دارقطنی کے الفاظ ہیں۔ ﺃﺣﺴﻦ ﺇﻧﻪ ﻓﻘﻴﻪ، سنن دارقطنی:(1674)
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ﺃﺻﺎﺏ، ﺃﻱ ﺑﻨﻲ، ﻟﻴﺲ ﺃﺣﺪ منا ﺃﻋﻠﻢ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ، مسند الشافعی:(394)
دوسری سند سے مروی یہ الفاظ کہے اس میں کوئی انہیں چھوڑ دو (کوئی حرج نہیں) بے شک انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت پائی ہے (اس لئیے نکتہ چینی درست نہیں وہ ضرور کوئی صحیح دلیل رکھتے ہیں)
صحیح البخاری:(3764)
سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ نے کتنی خوبصورت بات فرمائی:
فرمایا:
ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﺭﺟﻼ ﻛﺎﻥ ﺃﺧﻠﻖ ﻟﻠﻤﻠﻚ ﻣﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ،
میں نے معاویہ رضی الله عنہ سے بڑھ کر کسی شخص کو بادشاہت کے زیادہ لائق نہیں دیکھا۔
جامع معمر بن راشد:(20985)،الأمالي في آثار الصحابة لعبد الرزاق الصنعاني:(97)،السنة للخلال:(677) ،التاريخ الكبير للبخاري:7/ 326،الطبقات الكبرى،متمم الصحابة،الطبقة الرابعة:ص:121سنده صحيح
معلوم ہوا سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ کے نزدیک سیدنا معاویہ رضی الله عنہ ایک خاص مقام رکھتے تھے اور وہ ان سے بہت زیادہ محبت اور حسن ظن رکھتے تھے۔
الحاصل: سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ نے کبھی سیدنا معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں کچھ غلط نہیں کہا نہ ہی سیدنا معاویہ رضی الله عنہ نے کبھی عمدا سنت کی مخالفت کی ہے لہزا سنن نسائی کی روایت کے آخری الفاظ قرآن کریم کی صریح نصوص اور ان روایات کے مخالف ہیں اس لئیے اس ضعیف ومنکر روایت کو پیش کرنا درست نہیں ہے نہ ہی اصول شرعیہ اور شرف صحابیت ہمیں ان عظیم ہستیوں پر منفی بات کرنے کی آجازت دیتے ہیں اور جو ایسا کرتا ہے وہ کھلا منافق وسرکش ہے اور آخرت اس کی برباد ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ