سوال (2786)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر ایسے ستر ہزار فرشتے نازل ہوئے جو اس سے پہلے زمین پر نہیں آئے تھے۔ اور جب وہ دفن کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ! اگر قبر کا دباؤ کسی کو چھوڑتا تو وہ سعد رضی اللہ عنہ ہوتے “اسے بھی ایک مرتبہ دبایا، پھر کشادہ ہو گئی”
[سلسلة الاحاديث الصحيحة : 3548]
اس حدیث کی وضاحت فرما دیں اور مزید یہ بھی بتا دیں کہ کیا اس طرح کا امام جعفر صادق سے کوئی واقعہ ملتا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ ان کی قبر کیوں دبائی گئی تو انہوں نے کہا یہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تھا۔

جواب

سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو قبر نے عذاب کے طور پر نہیں دبایا تھا نہ ہی ضغطة القبر، ضمة القبر کا معنی عذاب قبر ہے اور بعض جو اس جیسا تاثر پیش کیے جانے والی روائتیں ملتی ہیں وہ سندا ضعیف اور متنا منکر ہیں، صحیح یہی ہے کہ قبر نے سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو عذاب کے طور پر نہیں دبایا تھا، کیونکہ وہ شہید ہوئے تھے اور شہید کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔ دیکھیے سنن ابن ماجہ وغیرہ سنده حسن لذاته
اسی طرح مؤمنین کو موت سے قبل ہی رب العالمین کی رضوان اور بخشش کی بشارت دے دی جاتی ہے اور جس کے پاس نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قرآن، صلہ رحمی، نفلی عبادات واعمال ہوں گے، وہ بھی عذاب قبر سے محفوظ رہے گا، جیسا کہ مسند أحمد بن حنبل، مصنف ابن أبی شیبہ وغیرہ میں حدیث صحیح موجود ہے اور صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کو تو دنیا میں ہی رضوان الله تعالی اور بخشش مل چکی ہے اور ان کا خاتمہ بھی خیر پر ہوا اور وہ کبائر سے بھی محفوظ رہے، دین وشریعت کی ہر بات اور حکم کی انہوں نے تعمیل کی تو انہیں کیونکر عذاب قبر ہو گا۔۔۔۔؟؟
اب رہا مسئلہ سیدنا سعد بن معاذ رضی الله عنہ کو قبر کا دبانا تو وہ عذاب کے طور پر ہرگز نہیں تھا نہ ہی اس کا یہ معنی ومفہوم لینا درست ہے۔
ائیے حافظ ذہبی رحمه الله تعالى اس بارے میں کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:

ﻗﻠﺖ: ﻫﺬﻩ اﻟﻀﻤﺔ ﻟﻴﺴﺖ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ ﻓﻲ ﺷﻲء، ﺑﻞ ﻫﻮ ﺃﻣﺮ ﻳﺠﺪﻩ اﻟﻤﺆﻣﻦ، ﻛﻤﺎ ﻳﺠﺪ ﺃﻟﻢ ﻓﻘﺪ ﻭﻟﺪﻩ ﻭﺣﻤﻴﻤﻪ ﻓﻲ اﻟﺪﻧﻴﺎ، ﻭﻛﻤﺎ ﻳﺠﺪ ﻣﻦ ﺃﻟﻢ ﻣﺮﺿﻪ، ﻭﺃﻟﻢ ﺧﺮﻭﺝ ﻧﻔﺴﻪ، ﻭﺃﻟﻢ ﺳﺆاﻟﻪ ﻓﻲ ﻗﺒﺮﻩ ﻭاﻣﺘﺤﺎﻧﻪ، ﻭﺃﻟﻢ ﺗﺄﺛﺮﻩ ﺑﺒﻜﺎء ﺃﻫﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﺃﻟﻢ ﻗﻴﺎﻣﻪ ﻣﻦ ﻗﺒﺮﻩ، ﻭﺃﻟﻢ اﻟﻤﻮﻗﻒ ﻭﻫﻮﻟﻪ، ﻭﺃﻟﻢ اﻟﻮﺭﻭﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺎﺭ، ﻭﻧﺤﻮ ﺫﻟﻚ، ﻓﻫﺬﻩ اﻷﺭاﺟﻴﻒ ﻛﻠﻬﺎ ﻗﺪ ﺗﻨﺎﻝ اﻟﻌﺒﺪ، ﻭﻣﺎ ﻫﻲ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ، ﻭﻻ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ ﺟﻬﻨﻢ ﻗﻂ، ﻭﻟﻜﻦ اﻟﻌﺒﺪ اﻟﺘﻘﻲ ﻳﺮﻓﻖ اﻟﻠﻪ ﺑﻪ ﻓﻲ ﺑﻌﺾ ﺫﻟﻚ ﺃﻭ ﻛﻠﻪ، ﻭﻻ ﺭاﺣﺔ ﻟﻠﻤﺆﻣﻦ ﺩﻭﻥ ﻟﻘﺎء ﺭﺑﻪ.
ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ -ﺗﻌﺎﻟﻰ-: {ﻭﺃﻧﺬﺭﻫﻢ ﻳﻮﻡ اﻟﺤﺴﺮﺓ}، ﻭﻗﺎﻝ: {ﻭﺃﻧﺬﺭﻫﻢ ﻳﻮﻡ اﻵﺯﻓﺔ، ﺇﺫ اﻟﻘﻠﻮﺏ ﻟﺪﻯ اﻟﺤﻨﺎﺟﺮ}
.ﻓﻨﺴﺄﻝ اﻟﻠﻪ -ﺗﻌﺎﻟﻰ- اﻟﻌﻔﻮ ﻭاﻟﻠﻄﻒ اﻟﺨﻔﻲ، ﻭﻣﻊ ﻫﺬﻩ اﻟﻬﺰاﺕ، ﻓﺴﻌﺪ ﻣﻤﻦ ﻧﻌﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﺠﻨﺔ، ﻭﺃﻧﻪ
ﻣﻦ ﺃﺭﻓﻊ اﻟﺸﻬﺪاء -ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ-.
ﻛﺄﻧﻚ ﻳﺎ ﻫﺬا ﺗﻈﻦ ﺃﻥ اﻟﻔﺎﺋﺰ ﻻ ﻳﻨﺎﻟﻪ ﻫﻮﻝ ﻓﻲ اﻟﺪاﺭﻳﻦ، ﻭﻻ ﺭﻭﻉ، ﻭﻻ ﺃﻟﻢ، ﻭﻻ ﺧﻮﻑ، ﺳﻞ ﺭﺑﻚ اﻟﻌﺎﻓﻴﺔ، ﻭﺃﻥ ﻳﺤﺸﺮﻧﺎ ﻓﻲ ﺯﻣﺮﺓ ﺳﻌﺪ
[سير أعلام النبلاء :1/ 290 ،291 ،ترجمہ سعد بن معاذ]

اور کہا ہے کہ:

ﻭ ﻟﻴﺲ ﻫﺬا اﻟﻀﻐﻂ ﻣﻦ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ ﻓﻲ ﺷﻲء، ﺑﻞ ﻫﻮ ﻣﻦ ﺭﻭﻋﺎﺕ اﻟﻤﺆﻣﻦ ﻛﻨﺰﻉ ﺭﻭﺣﻪ، ﻭﻛﺄﻟﻤﻪ ﻣﻦ ﺑﻜﺎء ﺣﻤﻴﻤﻪ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﻛﺮﻭﻋﺘﻪ ﻣﻦ ﻫﺠﻮﻡ ﻣﻠﻜﻲ اﻻﻣﺘﺤﺎﻥ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﻛﺮﻭﻋﺘﻪ ﻳﻮﻡ اﻟﻤﻮﻗﻒ ﻭﺳﺎﻋﺔ ﻭﺭﻭﺩ ﺟﻬﻨﻢ، ﻭﻧﺤﻮ ﺫﻟﻚ ﻧﺴﺄﻝ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﺆﻣﻦ ﺭﻭﻋﺎﺗﻨﺎ
[سير أعلام النبلاء : 1/523 ، غزوة بني قريظة]
ﻗﺎﻝ اﻟﻨﺴﻔﻲ ﻳﻘﺎﻝ ﺇﻥ ﺿﻤﺔ اﻟﻘﺒﺮ ﺇﻧﻤﺎ ﺃﺻﻠﻬﺎ ﺃﻧﻬﺎ ﺃﻣﻬﻢ ﻭﻣﻨﻬﺎ ﺧﻠﻘﻮا ﻓﻐﺎﺑﻮا ﻋﻨﻬﺎ اﻟﻐﻴﺒﺔ اﻟﻄﻮﻳﻠﺔ ﻓﻠﻤﺎ ﺭﺩﻭا ﺇﻟﻴﻬﺎ ﺿﻤﺘﻬﻢ ﺿﻤﺔ اﻟﻮاﻟﺪﺓ ﻏﺎﺏ ﻋﻨﻬﺎ ﻭﻟﺪﻫﺎ ﺛﻢ ﻗﺪﻡ ﻋﻠﻴﻬﺎ ﻓﻤﻦ ﻛﺎﻥ ﻟﻠﻪ ﻣﻄﻴﻌﺎ ﺿﻤﺘﻪ ﺑﺮﺃﻓﺔ ﻭﺭﻓﻖ ﻭﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻋﺎﺻﻴﺎ ﺿﻤﺘﻪ ﺑﻌﻨﻒ ﺳﺨﻄﺎ ﻣﻨﻬﺎ ﻋﻠﻴﻪ ﻟﺮﺑﻬﺎ
[حاشية السندى على النسائي : 4/ 100،حاشية السيوطي على النسائي : 4/ 103اور دیکھیےأهوال القبور وأحوال أهلها إلى النشور:ص : 104]

اور جو یہ روایت ہے کہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتے تھے وہ ضعیف ہے، اس معنی کی ایک روایت دلائل النبوۃ للبیھقی : 4/ 30 پر لیکن اس سند میں ﺑﻌﺾ ﺃﻫﻞ ﺳﻌﺪ نامعلوم ہیں لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔
اور دوسری روایت جو الطبقات الکبری لابن سعد: 3/ 329 من أثر البول وہ سعید المقبری پر مرسل ہے یعنی وہ صحابی کے واسطہ کے بغیر بیان کر رہے ہیں اور جس روایت میں ہے۔

ﺿﻢ ﺳﻌﺪ ﻓﻲ اﻟﻘﺒﺮ ﺿﻤﺔ ﻓﺪﻋﻮﺕ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﻜﺸﻒ ﻋﻨﻪ

الطبقات الکبری لابن سعد : 3/ 331 ، مصنف ابن أبي شيبة : 34491 ،صحیح ابن حبان : 7034 مستدرک حاکم: 4924 وہ عطاء بن سائب کے اختلاط کے سبب ضعیف ہے، تو صحیح بات یہ ہے کہ قبر ہر ایک کو دباتی ہے چاہے وہ بچہ ہو یا بڑا،کافر ہو یا مومن فرق صرف یہ ہے کہ مومن اور بچے کو نرمی، خوشی اور پیار سے دباتی ہے اور کافر کو سختی اور ناراضگی سے دباتی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ