سوال (3448)

سیدنا سعد بن معاذ رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں جو بات ذکر کی جاتی ہے کہ ان کی قبر نے ان کو اس لیا دبوچا تھا کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتے تھے کیا یہ بات درست ہے۔

جواب

عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:” هذا الذي تحرك له العرش، وفتحت له ابواب السماء، وشهده سبعون الفا من الملائكة، لقد ضم ضمة، ثم فرج عنه”

ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی ہوتی ہے (علاوہ انبیاء علیہم السلام کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں۔) اس بھینچنے سے وہ اس کمی کے اثر سے نجات پا لیتا ہے بشرطیکہ وہ مومن ہو۔
مومن کو صرف ایک دفعہ بھینچا جاتا ہے، پھر چھوڑ دیا جاتا ہے مگر کچھ عجب نہیں کہ کافر پر یہ عذاب بار بار ہوتا ہو۔
حدیث میں آتا ہے کہ قبر ہر ایک کو بھینچتی ہے، اگر اس سے کوئی محفوظ رہتا تو یقیناً حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ محفوظ رہتے۔
[الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 327/40، رقم : 24283 ، والصحیحة : 268/4، رقم: 1695]
اس کی توجیہ میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ ”قبر“ انسان کے لیے ماں کی طرح ہے کیونکہ وہ اسی مٹی سے بنایا گیا تھا۔ عرصۂ دراز کے بعد ملنے والے بیٹے کو ماں خوب زور سے اپنے جسم کے ساتھ بھینچتی ہے، چاہے اسے اس سے تکلیف ہی ہو۔ قبر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، البتہ نیک شخص کو وہ محبت سے بھینچتی ہے اور برے شخص کو غصے اور ناراضی سے۔ نیک کے لیے اس میں سرور ہے اور برے کے لیے عذاب۔
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:

«هٰذا الضمة ليست من عذاب القبر فى شي بل هو أمر يجده المؤمن كما يجد ألم فقد ولده وحميمه فى الدنيا وكما يجد ألم مرضه وألم خروج روحه . . .»

”یہ جھٹکا (مومن کے لئے) عذاب قبر میں سے نہیں بلکہ یہ ایسے ہی ہے جس طرح مومن کو اپنی اولاد یا محبوب چیز کے گم ہونے کا دکھ ہوتا ہے اور جس طرح بیماری کی تکلیف اور روح نکلنے کا درد ہوتا ہے۔۔۔“
[سیر اعلام النبلاء 1؍290]
پھر حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
”ہم جانتے ہیں کہ سعد (رضی اللہ عنہ) جنتی ہیں اور آپ عالی شان شہداء میں سے ہیں۔“
[ایضاً ص 290]
نوٹ: ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پیشاب کے قطروں سے بچنے میں احتیاط نہیں کرتے تھے۔
یہ روایت مجہول راوی اور منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ