سوال (3552)

کیا کوئی ایسی روایت ہے کہ سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کروں گا؟

جواب

یہ واقعہ ابن سعد نے اپنی کتاب “الطبقات الکبریٰ” میں نقل کیا ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
“اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو جائے تو میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کروں گا۔”
یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے مسجد میں کھڑے ہو کر فرمایا کہ اللہ کے رسول کی بیویاں مؤمنین کی مائیں ہیں اور ان سے نکاح حرام ہے۔
اسناد اور تحقیق
یہ روایت ابن سعد کی “الطبقات” ج 8، ص 153 میں آئی ہے، لیکن اس کی سند پر کئی اعتراضات کیے گئے ہیں۔ روایت کی سند کچھ یوں ہے :

“قال أخبرنا محمد بن عمر، حدثنا محمد بن عبد الله، عن الزهري…”

1: محمد بن عمر الواقدی
محمد بن عمر الواقدی اس سند کا اہم راوی ہے، جو کہ ضعیف اور متروک راوی ہے۔
امام شافعی، امام احمد، امام بخاری اور دیگر محدثین نے ان پر کذب اور وضع حدیث کا الزام لگایا ہے۔
حافظ ابن حجر نے الواقدی کو “متروك” قرار دیا ہے۔ [تقریب التہذیب، رقم : 5766]
2: الزہری
اگرچہ امام الزہری ثقہ راوی ہیں، لیکن ان سے منسوب روایت الواقدی کے ذریعہ آئی ہے، جو اس کی سند کو کمزور کر دیتی ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

سیدنا طلحہ رضی الله عنہ یا بعض کا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے نکاح کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے کی حقیقت۔ پوچھے گئے سوال کا محقق جواب ملاحظہ فرمائیں:

وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا ۚ إِنَّ ذَٰلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا،

اور تمھارا کبھی بھی حق نہیں کہ تم الله کے رسول کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیویوں سے نکاح کرو۔ بے شک یہ بات ہمیشہ سے الله کے نزدیک بہت بڑی ہے۔ [الاحزاب : 53]
خبیث النفس لوگ کبھی خباثت کرنے سے باز نہیں آتے ان کی ایک خباثت سیدنا طلحہ رضی الله عنہ کے بارے میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ایسا کہنا ان سے ثابت نہیں ہے ، مگر ہم پھر بھی کچھ اصل شرعیہ اور ادلہ کی روشنی میں قدرے تفصیل سے بات کریں گے تا کہ منافقین کا منہ بند کیا جا سکے ، خوب سمجھ لیں اگر یہ ثابت بھی ہو تو ان کی اس خواہش کے بعد اس کی ممانعت وحرمت نازل ہوئی تھی جس پر کوئی مواخذہ نزول وحی کے زمانہ میں بھی نہیں کیا گیا تھا اور اگر پہلے سے کوئی مستقل حکم ازواج مطہرات کے بارے میں نازل ہوا ہوتا تو وہ کبھی ایسی خواہش کا اظہار نہ کرتے اور قرآن کریم کی اس آیت کے بعد کسی بھی صحابی نے کسی ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ وہ جان چکے تھے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں اور ان سے کسی کا نکاح کرنا جائز نہیں ہے بلکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
اس مسئلہ کو اس طرح سمجھیں!
(1) اتمام حجت اور دلائل و براہین واضح ہو چکنے کے بعد ہی کسی کو گنہگار اور مجرم قرار دے سکتے ہیں جیسا کہ اس پر لائل قرآن وحدیث میں موجود ہیں۔
مثلا: ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

اور جو کوئی رسول کی مخالفت کرے، اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ [النساء: 115]
الله تعالی کے اس ارشاد سے معلوم ہوا ہدایت وحق اور براہین وحرمت واضح ہونے سے پہلے کسی پر کوئی گناہ مواخذہ نہیں ہے۔
(2) حرمت شراب سے پہلے جو مسلمان شراب پیتے تھے ان پر کوئی مواخذہ وگناہ نہیں ہے اس پر اجماع واتفاق ہے ادلہ وقرائن اس پر گواہ ہیں گناہ اور حد تب لگے گی جب حرمت کے نازل ہونے کے بعد اسے پییے گا۔
(3) مرثد بن ابی مرثد رضی الله عنہ نے ایک زانیہ عورت سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا مگر جب قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی تو ارادہ ترک کر دیا۔
میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: ’یا رسول الله! میں عناق سے نکاح کر لوں؟‘‘ میں نے دو مرتبہ یہ بات کہی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:

﴿اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ [النور : ۳ ]

تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مرثد! زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور جو زانیہ یا مشرکہ ہے اس سے نکاح نہیں کرتا مگر جو زانی ہے یا مشرک ہے، اس لیے تو اس (عناق) سے نکاح مت کر۔‘‘ [ سنن ترمذى، أبواب تفسیر القرآن، باب و من سورۃ النور: (3177) سنن نسائى: (3230) السنن الکبری للنسائی: (5319) ،سنن أبوداود: (2051)،شرح مشکل الآثار للطحاوی :(4552) ،مستدرک حاکم :(2701)سنده حسن لذاته
(4) مکی زندگی میں نماز پنج گانہ فرض نہیں تھی لہزا کوئی شخص اگر نماز فرض ہونے سے پہلے نہ پڑھنے والے پر اعتراض کرے گا تو اسے احمق ہی کہا جائے گا اور اس کا علاج کروایا جائے گا۔ ایسے ہی فرضیت صیام وجہاد وغیرہ ہیں۔
(5) فرض نماز میں پہلے بول کر سلام کا جواب دیا جاتا تھا اس لئے اس سے نہ نماز میں نقص پیدا ہوتا تھا نہ ہی جواب دینے والا گنہگار کہلاتا تھا اور جب اس پر ممانعت نازل ہوئی تو پھر کبھی کسی صحابی نے بول کر سلام کا جواب نہیں دیا۔
(6) پہلے روزہ کے بارے نرمی تھی بعد میں حکم نازل ہوتا ہے ہر ماہ رمضان کو پانے والا روزہ رکھے گا تو جیسے ہم نرمی والے سالوں میں نہ رکھنے والے پر اعتراض نہیں کر سکتے ایسے ہی سیدنا طلحہ پر بھی اعتراض نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا اظہار ممانعت وحکم شرعی نازل ہونے سے پہلے تھا بعد میں ان سے ایسا اظہار خیال ہرگز ثابت نہیں ہے سو ان پر نقد وتبصرہ سواے نفاق کے کچھ نہیں ہے۔
تو معلوم ہوا اس فرمان رب العالمین ﻭﻻ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻮا ﺃﺯﻭاﺟﻪ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ ﺃﺑﺪا ﺇﻥ ﺫﻟﻜﻢ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻈﻴﻤﺎ کے بعد کبھی کسی نے ایسا ارادہ ظاہر نہیں کیا تو جو ارادہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے تھا اس پر ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ بات اور تبصرہ کرنے کا کیونکہ اصولا وشرعا وہ ارادہ الله تعالى کے نزدیک گناہ اور جرم شمار ہی نہیں ہوتا ہے جیسا کہ بعض مثالیں آپ کے سامنے پیش کر دی ہیں تا کہ مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔
اب استنادی اعتبار سے بطور فائدہ جو آثار باسند ملے ان کا حکم واضح کر دیتا ہوں۔

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ. ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﻋﻦ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻮﻥ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﺑﻦ ﺣﺰﻡ ﻓﻲ ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻢ ﺃﻥ ﺗﺆﺫﻭا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻭﻻ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻮا ﺃﺯﻭاﺟﻪ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ ﺃﺑﺪا اﻷﺣﺰاﺏ: ﻗﺎﻝ: ﻧﺰﻟﺖ ﻓﻲ ﻃﻠﺤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻷﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺇﺫا ﺗﻮﻓﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﺰﻭﺟﺖ ﻋﺎﺋﺸﺔ،
(الطبقات الکبری لابن سعد :8/ 162سندہ ضعیف جدا لأجل الواقدي وهو متروك الحديث )
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ اﺑﻦ ﻭﻫﺐ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﻲ اﻟﻠﻴﺚ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﺃﻥ ﻃﻠﺤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ: ﻟﺌﻦ ﻗﺒﺾ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﺗﺰﻭﺟﺖ ﻋﺎﺋﺸﺔ؛ ﻗﺎﻝ: ﻓﻨﺰﻝ اﻟﻘﺮﺁﻥ: {ﻭﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻢ ﺃﻥ ﺗﺆﺫﻭا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻭﻻ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻮا ﺃﺯﻭاﺟﻪ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ ﺃﺑﺪا ﺇﻥ ﺫﻟﻜﻢ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻈﻴﻤﺎ،
تفسير القرآن من الجامع لابن وهب:(348)سندہ منقطع
لیث بن سعد کی روایت عموما تبع تابعین اور تابعین سے ہے اس لئے یہ اثر سندا منقطع ہے۔
ناعبد الرزاق ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ ﺃﻥ ﺭﺟﻼ ﻗﺎﻝ: ﻟﻮ ﻗﺒﺾ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﺘﺰﻭﺟﺖ ﻓﻼﻧﺔ ﻳﻌﻨﻲ ﻋﺎﺋﺸﺔ: فأنزﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ: {ﻭﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻢ ﺃﻥ ﺗﺆﺫﻭا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻭﻻ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻮا ﺃﺯﻭاﺟﻪ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ ﺃﺑﺪا} [ اﻷﺣﺰاﺏ: 53]
ﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻗﺎﻝ ﻣﻌﻤﺮ: ﺳﻤﻌﺖ ﺃﻥ ﻫﺬا اﻟﺮﺟﻞ ﻃﻠﺤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ،

تفسير عبد الرزاق: (2372 ،2373) 3/ 49سندہ منقطع قتادہ کی چند صحابہ کے علاوہ سے ملاقات نہیں ہے اور اس سند میں رجل مبھم ہے کوئی مضبوط اور صحیح دلیل نہیں کہ وہ طلحہ رضی الله عنہ ہی تھے۔
امام معمر نے کس سے سنا یہ مبھم ہے۔

ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪاﻥ، ﺃﻥﺑﺄ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ اﻟﻠﺨﻤﻲ، ﺛﻨﺎ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ اﻟﻌﺒﺎﺱ اﻟﺮاﺯﻱ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ، ﺛﻨﺎ ﻣﻬﺮاﻥ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺮ، ﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﺩاﻭﺩ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﻨﺪ، ﻋﻦ ﻋﻜﺮﻣﺔ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻮ ﻗﺪ ﻣﺎﺕ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﺘﺰﻭﺟﺖ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺃﻭ ﺃﻡ ﺳﻠﻤﺔ، فأنزل اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ: {ﻭﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﻟﻜﻢ ﺃﻥ ﺗﺆﺫﻭا ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ، ﻭﻻ ﺃﻥ ﺗﻨﻜﺤﻮا ﺃﺯﻭاﺟﻪ ﻣﻦ ﺑﻌﺪﻩ ﺃﺑﺪا ﺇﻥ ﺫﻟﻜﻢ ﻛﺎﻥ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻈﻴﻤﺎ} [ اﻷﺣﺰاﺏ: 53]
[{السنن الكبرى للبيهقى: 13418 سنده ضعيف منكر}]
محمد بن حمید الرازی ضعیف الحدیث ہے۔
ﻣﻬﺮاﻥ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺮ کے بارے میں امام بخاری نے کہا: ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ اﺿﻄﺮاﺏ التاریخ الکبیر للبخاری :7/ 429
اور سفیان ثوری سے اس کی روایت خطا پر مبنی ہے۔
امام ابن شاہین نے کہا:

ﺻﺪﻭﻕ ﺇﻻ ﺃﻥ ﺃﻛﺜﺮ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﻋﻦ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﺧﻄﺄ ﻗﺎﻟﻪ ﻋﺜﻤﺎﻥ، تاريخ أسماء الثقات :(1432)

امام عقیلی نے کہا:
ﺭﻭﻯ ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻬﺎ، الضعفاء الکبیر للعقیلی: 4/ 229
تو یہ راوی سیئ الحفظ مضطرب الحدیث ہے اس کی خاص امام ثوری سے روایت خطاء پر مبنی ہے۔
تو ہمارے علم کے مطابق اس بارے کوئی روایت ثابت نہیں ہے اور ہمارا دعویٰ ہےکہ کبھی کسی صحابی نے ایسا اظہار سورۃ الاحزاب کی آیت نازل ہونے سے پہلے بھی نہیں کیا تھا۔
رب العالمين ہمارے دلوں کو صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی محبت سے بھر دیں اور انہی جیسا عقیدہ وایمان وتقوی واخلاص نصیب فرمائیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ