سوال (2270)

اہل حدیث جماعت نے ایک یونیورسٹی قائم کی ہے ، جس کے اشتہارات میں عورتوں کی تصاویر ہیں، کیا اس طرح داخلوں کے لیے اپنی جانب متوجہ کرنا کسی شرعی مصلحت کے ساتھ جائز ہے یا اس میں کوئی شرعی قباحتیں موجود ہیں؟

جواب

یونیورسٹی یا کوئی بھی تعلیمی ادارہ قائم کرنا ایک اچھی بات ہے، لیکن اس طرح کے اچھے اور اعلی کام کرتے ہوئے بھی ناجائز کام جائز نہیں ہو جاتے۔ بے پردگی، میوزک، مرد و زن کا اختلاط جیسے کام حرام ہی ہیں، چاہے وہ کسی سیاسی جلسے میں ہوں، مذہبی اجتماع میں ہوں یا کسی اسلامی یونیورسٹی کے لیے سب کچھ کیا جائے، یہ ہر حال میں مکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
اس میں حیرانی والی بات یہ ہے کہ اسلام پسند لوگ اسلام کی خدمت اور اس کی نشر و اشاعت کے لیے چینلز، اسٹوڈیوز، اسکولز، کالجز، یونیورسٹیاں بناتے ہیں، لیکن سب سے پہلے اسلامی تعلیمات کی مخالفت بھی خود ہی کرتے ہیں.
حالانکہ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے کہ اگر اسلامی کا سابقہ لاحقہ لگایا ہے تو اس میں اسلام احکامات کی پابندی کرنا بھی ضروری ہے۔ ورنہ ’اسلامی’ ہونے کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟
نیتوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن اس قسم کے “اسلامی اقدامات” محض ایک مارکیٹنگ ٹول اور ’ٹچ‘ محسوس ہوتے ہیں جن کا مقصد اسلام کی نشر و اشاعت کی بجائے لوگوں کو اس نام پر اپنی طرف متوجہ کرنا ہے، جیسا کہ عام بینکوں نے ’اسلامک’ کا سابقہ لاحقہ لگا کر لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کی ہے۔ واللہ اعلم

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

اس فعل کو درست کہنا تو درست نہیں ہے، تاہم جز پر حکم کل کے حکم کے مترادف نہیں ہے، اس کے فوائد دیکھنے ہوں گے، اس کے بانی کی نیت اور کاوش کو دیکھنا ہوگا، اگر مقصد اس بے راہ روی سے بچانا ہے جو یونیورسٹی کے مخلوط تعلیم کے بہاؤ میں بڑے بڑے دینداروں کو لے بیٹھی ہے تو محض اس کام کی وجہ سے ان کی کاوش پر حکم لگانا مناسب نہ ہو گا۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ