سوال (2649)
میں بہت سارے سکولز میں قرآن کلاس لینے جاتا ہوں، ان کا پہلا سوال ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ کس فرقے یا مسلک کے لیے کام کرتے ہیں، اب ہم اہل حدیث ہیں، لیکن خطرہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم ان کو اہل حدیث بتائیں گے تو یہ قرآن کلاس شروع نہیں کرنے دیں گے، کئی بار ایسا ہو چکا ہے، تو کیا وہاں یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ میں قرآن و حدیث کی طرف دعوت دیتا ہوں یہی میرا مسلک ہے۔
جواب
بالکل درست ہے، کھل کر اہل حدیث کی صراحت کرنا ضروری نہیں ہے، البتہ میں کالج میں رہا ہوں۔ میں تو کھل کر کہتا تھا کہ میں اہل حدیث بلکہ وہابی ہوں۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
“قرآن و حدیث کی طرف دعوت دیتا ہوں یہی میرا مسلک ہے” یہ کہہ دینا کافی ہے، لیکن جب بات تقابل کی آجائے تو آپ کو سر اٹھا کر اپنے مسلک کا نام لینا چاہیے، ان شاءاللہ ہمارےمقدر میں جو دین کا کام ہے، وہ ہم کریں گے، اگر ساتھ چلنے والا کوئی بھی نہ ہو تو کوئی غرض نہیں ہے، کیونکہ روز قیامت ایسے انبیاء بھی ہونگے، جن کے ساتھ کوئی نہیں ہوگا، یہ یاد رکھیں کہ جس طرح انبیاء کامیاب ہیں تو انبیاء کے ماننے والے بھی کامیاب ہونگے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہی بات کہنی چاہیے، میں مسجد نبوی میں درس دیتا تھا، بہت بڑا مجمع ہوتا تھا، مجھ سے جب یہ سوال ہوتا تھا کہ آپ اہلحدیث ہیں، تو میں یہ جواب دیتا تھا کہ اگر اہل حدیث مراد وہ لوگ ہیں جو خالصتاً قرآن و حدیث کو مانتے ہیں، ان کو سپریم اتھارٹی سمجھتے ہیں، تو پھر ہر مسلمان کو اہل حدیث ہونا چاہیے، اگر اہل حدیث سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے امام کی فقہ کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں تو ایسے اہل حدیثوں سے ہمارا کوئی بھی واسطہ نہیں ہے، لہذا یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ آپ ہر جگہ یہ کہتے پھریں کہ میں اہلحدیث ہوں۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
قرآن و حدیث کی طرف دعوت دینا بتانے پر ہی سائل سمجھ جاتا ہے کہ یہ وہابی ہی کہتا ہے، باقی کھلے الفاظ میں اظہار فرما دیں۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل:
شیخ محترم اگر یہ کہا جائے کہ اہل سنت سے میرا تعلق ہے، تو اس سے مراد بھی وہی ہے، کیا یہ درست ہوگا؟
جواب:
جی ہاں، اصل اہل سنت اہل حدیث ہی ہیں، قرآن و سنت اور منھج مستقیم پرقائم ہیں، بس لوگوں نے یہ نام چرا لیا ہے، اس لیے اس کی وضاحت ہونی چاہیے، کیونکہ یہاں پر ہر دوسرا شخص سنی بنا پھرتا ہے، ویسے بھی عموماً او رخصوصا شیعہ کے مقابلے میں اہل حدیث، دیوبند اور بریلوی تینوں کو اہل سنۃ میں شمار کیا گیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کیا ہمارے سلف اپنے تعارف میں یہ کہا کرتے تھے کہ “أنا من أهل الحديث” يا پهر “أنتمى إلى جماعة الحديث” وغیرہ؟
یہ سوال ہے۔
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
اگر ابتداءً دیکھیں گے تو ایسے الفاظ دستیاب نہیں ہوئے ہیں، کیونکہ ضرورت نہیں تھی، لیکن جب کتاب و سنت کی موجودگی میں خود ساختہ آراء کا عمل دخل ہوا ہے، خود ساختہ نظریات کشید کیے جانے لگے تھے، پھر ایک اہل بدعت کی اصطلاح سامنے آئی، اب اہل بدعت کے مقابلے میں جو لوگ تھے وہ بذات خود اہل سنت کہلائے گئے ہیں یا ان کو کہا گیا ہے، یہ بات صحیح مسلم کے مقدمے میں ملتی ہے کہ رجال کی بحث پہلے نہیں ہوتی تھی، جب فتنے پھوٹنے لگے تو پھر پوچھا جانے لگا کہ
“سموا لنا رجالكم” [مقدمة صحيح مسلم]
اگر وہ اہل سنت میں سے ہوتا تھا تو مان لیتے تھے، اگر اہل بدعت میں سے ہوتا تھا تو نہیں مانتے تھے، بالکل اسی طرح پھر اہل سنت کے اندر اہل الرائے پیدا ہونے لگے، تقلید شخصی نمایاں ہونے لگی، پھر اہل الاثر اور اہل حدیث یہ اصطلاحات سامنے آنے لگی، سلف سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جب لوگوں نے شخصیات کی طرف نسبتیں کیں تو اس وقت “انا محمدي المذهبي” ، اس طرح فرق کرنے والے الفاظ کا ایک رواج پڑگیا، بس اہل الحدیث کا ایک ہی نام اہل الاثر، اہل السنہ اور اصحاب الحدیث ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
تو پھر اس بھائی کو اپنے تعارف میں کہہ دینا چاہیے اور کھلے الفاظ میں اظہار کر لینا چاہیے۔
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
جی ہاں، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جہاں ضرورت ہو، وہاں اظہار کرنا چاہیے، تاکہ جو زندہ ہو، وہ دلیل کے ساتھ ہو، جو مرے وہ بھی دلیل کے ساتھ مرے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
بدعت مکفرہ کے علاہ اہل بدعت سے روایت تو شیخین ائمہ صحاح و محدثین نے لی ہے،
اصل عادل و ضابط ہونا ہے اور یہی راجح ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
جی ہاں مگر اہل بدعت سے روایات لینے کی کچھ اور بھی شرائط ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
داعی اور غیر داعی والی تقسیم درست نہیں ہے، راجح وہی ہے جو بیان کر دیا ہے، جب راوی عادل و ثقہ ہے تو اس کی روایت قبول ہے صحیحین میں ہی کتنے راوت ہیں مزید الكفاية للخطيب، تحرير علوم الحديث للجديع دیکھیے گا، شیخ آپ جو فرما رہے ہیں، اس کی وضاحت کریں تا کہ آپ کا موقف واضح ہو۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
ہمارا موقف یہی ہے، ہم نے یہی پڑھا ہے، سنا ہے، اور الحمد للّٰہ پڑھایا بھی ہے، ثقہ عادل اور ضابط ہو، اس کی روایت بدعت کو ترویج دیتی ہے، اس کی روایت قبول نہیں کی جائے گی، ہمارا دین بدعتی روایتوں سے بے نیاز ہے، اس لیے کہ ہمارا دین و مکمل ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخ صاحب کوئی ایک مثال دیں کہ راوی ثقہ، عادل اور ضابط ہو اور اس کی روایت بدعت کی ترویج و اشاعت کا درس دیتی ہو، ہم نے بدعت مکفرہ کی قید اسی لیے لگائی تھی، عام طور پر راجح موقف جو جمہور ائمہ محدثین کا ہے، وہ یہی ہے کہ بدعتی راوی کی روایت قبول کی جائے گی جب وہ عادل و ضابط ہو، اہل بدعت کی روایت پر مختلف آراء ہیں، ائمہ محدثین و متقدمین میں اس میں راجح وہ ہے جسے امام بخاری، امام مسلم ائمہ صحاح و محدثین کی جماعت نے اختیار کیا ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
جن کتابوں میں یہ مباحث ہیں، وہاں مثال نہیں دی گئی ہے، اگر مثال مل گئی ہے تو بحث کی جائے گی، باقی اگر آپ کا شیخ دعویٰ ہے کہ امام بخاری اور امام مسلم نے یہ شرط ہٹادی ہے تو یہ دعویٰ آپ کے ذمے ہے۔ میں نے الکفایہ اور مقدمہ ابن صلاح دیکھ لیا ہے، میرے خیال میں نیا کوئی باب کھولنے کی ضرورت نہیں ہے، بس جو چیزیں ہیں، ان کو فالو کریں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شيخ میرا سوال آپ کے موقف کے مطابق یہ تھا کہ راوی عادل و ضابط کی کوئی ایک ایسی روایت پیش کریں، جس سے اس کی بدعت کی ترویج و اشاعت ہوتی ہو۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
بارک اللہ فیک، بہرحال آپ کی بات صحیح ہے، بات ہمارے اور آپ کے موقف کی نہیں ہو رہی ہے، بلکہ چیزیں طے ہوگئی ہیں، رموز اور اصول سب بن گئے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ اس کو حرف آخر نہیں کہیں گے، کیونکہ من جانب اللہ تو نہیں ہے، لیکن نیا دروازہ کھولنا بھی ایک مسئلہ ہے، بس یہ بات ہے، باقی اگر مثال مل گئی تو آپ کو پہنچا دیں گے، آپ الحمد لله صاحب علم و فضل ہیں، اس کا ہمیں اعتراف ہے، آپ بھی مثال تلاش کریں، اگر اس کی حیثیت ہی نہیں ہے تو اصول وضع کرنے والوں کے ہاں یہ بات لغو ہوگئی، یعنی راوی عادل اور ضابط ہو اور اس کی روایت بدعت ترویج نہیں کرتی ہے، اگر ایسا ممکن نہیں تھا تو یہ بات لانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
و لك بمثله وجزاكم ربي خيرا و بارك فيكم
شیخ صاحب ائمہ محدثین کے ہاں اس مسئلہ میں اختلاف رہا ہے، یہ میں اچھے سے جانتا ہوں اور اس میں راجح بات جو تھی وہ میں نے بیان کر دی اور جو میں نے بیان کیا اسی پر جم غفیر محدثین کا موجود ہے اور عملا موقف رکھتا ہے، عادل وضابط کی شرط کا مطلب بالکل واضح ہے، قدریہ شیعی وغیرہ سے روایات تو خود شیخین نے صحیحین میں اور ائمہ صحاح ونقاد نے لی ہیں، بس ثقہ، عادل پر غور کر لینے کی ضرورت ہے، نیا باب بالکل نہیں کھول رہا بلکہ جسے اصولا محدثین نے اختیار کیا ہے اسے ذکر کیا تھا بس۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
شیخ جی، یہاں ایک بات کی وضاحت کردیں کہ محدثین کے ہاں شیعہ سے کیا مراد تھا، کیا آج کل شیعہ مراد ہیں جو صحابہ کرام پر تبرا کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
جزاكم الله خيرا و بارك فيكم
یہ لفظ اس لیے لکھ دیا کہ اس مسئلہ میں یہ کئی روات کے ساتھ استعمال ہوا ہے، باقی یہاں تشیع سے مراد عام طور پر تفضیلی شیعہ ہیں، تقریب میں دیکھیں تو ثقہ کے ساتھ قدری، مرجئ وغیرہ لکھا ہوا ملے گا، یعنی ایسے روات سے روایت لی ہے، ائمہ محدثین نے کیونکہ روایت حدیث میں وہ ثقہ و عادل تھے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
ماشاءاللہ شیخ آپ نے ایک لفظ استعمال کرکے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہے، “تفضیلی شیعہ” ان شاءاللہ اس لفظ سے ہم سب کو فائدہ ہوگا، وہ شیعہ جو خلفائے ثلاثہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتے تھے، اگر اس راوی پر کوئی اور جرح نہ ہو تو صرف اس بنیاد پر اس کی روایت رد نہیں کی جائے گی۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
ولك بمثله وجزاكم ربي خيرا
بدعت مکفرہ، غیر مکفرہ کا فرق سمجھ لیا جائے اور ثقہ وعادل في الحديث تو مسئلہ میں کبھی الجھاؤ، اشکال واقع نہیں ہو گا۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
عادل و ضابط کے علاوہ “بدعت کی ترویج و اشاعت نا کرتا ہو” كی شرط محل نظر ہے؟
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
اگر ہم اس مسئلہ کو اچھی طرح سے پڑھیں اور ائمہ محدثین کے موقف و منہج کو خوب دقت نظری سے جانیں تو یہ مسئلہ سمجھ آ سکتا ہے۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ