سوال (1964)

“سائنس کو قرآن کے تابع کرو نہ قرآن کو سائنس کے تابع کرو” کیا یہ جملہ صحیح ہے؟

جواب

جی بات بالکل درست ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی نظریات وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں، میرا تھوڑا بہت تعلق طب کے ساتھ بھی ہے، اس لیے میں آپ کو مثال دوں گا کہ یہی سائنس کچھ عرصہ پہلے یہ چیخ وپکار کرتی رہتی تھی کہ خالی پیٹ پانی پینا چاہیے، اب دیکھا کہ لوگ خالی پیٹ پانی پینے کی وجہ سے کئی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں تو سائنس نے اپنا نظریہ بدل دیا ہے، ایسے بیسیوں نظریات ہیں، جو سائنس نے تبدیل کیے ہیں، اللہ تعالیٰ کا قرآن تو بے بدل ہے، قرآن تو بدل نہیں سکتا ہے۔ اور اسکے اندر موجود تمام احکام و مسائل اور اخبار سب حقیقت پر مبنی ہیں۔

فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ

قرآن مجید اللہ کی لا ریب کتاب ہے، جس میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے، نہ ہوگی ان شاءاللہ
جبکہ سائنس کے نظریات ہمیشہ سے بدلتے رہے ہیں اور آئندہ بھی بوقت ضرورت بدلتے رہیں گے، سائنس کی بنیاد جن دعووں پہ تھی وہ بھی اب بدل چکے ہیں، جس کی مثال بنگ بینگ کا نظریہ ہے، سورج کے بارے میں سابقہ نظریہ اب بدل چکا ہے، اس لیے قرآن مجید کو سائنس کے مطابق نہیں کیا جا سکتا ہے، جبکہ سائنس کو قرآن کےتابع کرنا ہوگا، اور یہ جملہ بالکل درست ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

قرآن و سنت کے وہ احکام جو قطعی ہیں اور سائنس کے بھی قطعی ہیں (سائنس والوں کے بقول نہیں بلکہ عقلی طور پر۔ کیونکہ سائنس خود قطعیت پر نہیں ٹکتی) تو یہ صورت کہ دو قطعی ہوں اور ان کا تصادم ہو محال صورت ہے۔
مثال کے طور پر دو ایک سے بڑا ہے، عقلی طور پر قطعی ہے تو قرآن میں ایسی کوئی صورت نہیں ملے گی جو اس صورت سے ٹکراتی ہو، اگر نقلی قطعی ہے اور عقلی ظنی ہے تو اس صورت میں نقل کو ترجیح ہو گی۔
مثال کے طور پر سائنس ایک آسمان کو مانتی ہے اور دوسرے آسمان کی قائل نہیں ہے، لیکن قرآن مجید اس کا قرار کرتا ہے تو قرآن کی بات کو ترجیح ہو گی، اگرچہ سائنس اپنے طور پر اسے قطعی سمجھے یہ ظن ہی ہے اور سائنس کے اکثر احکام اسی نوعیت کے ہیں کہ جہاں ان کا مشاہدہ نہیں، انہوں نے اس بارے اپنا گمان قائم کیا ہوا بلکہ اصل سائنس تو اس معاملے میں تعرض ہی نہیں کرتی کہ جہاں اس کی مجال نہیں جو کہ درست ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ قرآن مجید اور سنت کی وہ خبر جو ظنی ہو یعنی اس کے معنی میں احتمال ہو اور عقل یا سائنس اس معاملے میں قطعی ہو تو اس صورت میں نقلی خبر کی مناسب تاویل کی جائے گی، لیکن اس کے اصل معنی کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
مثلا ذو القرنین کے بارے ہے کہ اس نے سورج کو کیچڑ میں ڈوبتے دیکھا تو یہاں عقل کہتی ہے کہ سورج زمین سے بڑا ہے تو یہ نا ممکن ہے کہ سورج زمین میں سما سکے تو اس معنی کی تاویل کی جائے گی کہ یہاں مراد مغرب میں ڈوبنا ہے نہ کہ زمین میں اور اصل معنی کا بھی معنی برقرار رکھا جائے گا کہ وہ زمین کیچڑ والی زمین تھا جہاں سورج غروب ہوا۔
آخری صورت یہ ہے کہ دونوں ظنی ہوں تو اس میں بھی نقل کو عقل پر ترجیح ہو گی۔
تفصیل کے لیے “انتباہات مفیدہ” مولانا اشرف علی تھانوی دیکھ لیں!

فضیلۃ العالم زبیر غازی حفظہ اللہ