شریعت اور اس کے اصول و ضوابط میں لبرلز جہاں بہت زیادہ اعتراضات کرتے ہیں وہاں ایک ایہ اعتراض بھی ہے کہ فرد واحد کی بات یا خبر واحد پر یقین کر کے حتمی فیصلہ  دے دیا جاتا ہے۔  جبکہ سائنس میں تھیوری تو ایک طرف پریکٹیکل کے تنائج  بھی پیئر ریویو کے بعد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح جرنلزم میں بھی ایک سورس کی خبر کی دوسرے سورس سے تصدیق کی جاتی ہے۔ معروف دیسی لبرل دین بیزار مبشر زیدی نتیجہ نکالتا ہے کہ یہ صرف دین ہے کہ جہاں فرد واحد کے بیان کو حتمی سچ قرار دے دیا جاتا ہے چاہے اس نے خواب ہی دیکھا ہو۔

پیئر ریویو (یعنی کسی کولیگ کے کام کا پروفیشنل طریقے سے نقد) بہت ضروری چیز ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں۔ سائنس، جرنلزم اور بہت سے دیگر شعبوں میں یہ بڑا اہم ہے۔ جیسے کہ مصنف نے بتایا۔
لیکن یہ بات سچ نہیں کہ صرف مذہب میں فرد واحد کے بیان کو حتمی سچ قرار دیا جاتا ہے اور پیئر ریویو سے منہ موڑا جاتا ہے۔
مثال سے بات واضح کرتا ہوں: مصنف کی والدہ صاحبہ نے بچپن میں انہیں بتایا ہو گا کہ بڑے زیدی صاحب ان کے ابا ہیں۔ شاید اس وقت موصوف مان گئے ہوں۔ بڑے ہو کر سائنس میں پیئر ریویو کی اہمیت سے روشناس ہونے کے بعد بھی یقیناً والدہ کے دعوے کو “دیگر پروفیشنل کولیگز کی جانب سے نقد” کی کسوٹی سے نہیں گزارا ہو گا۔ یعنی مذہب کے علاوہ بھی چند “حقائق” ایسے ہیں جن کو فرد واحد کی خبر ہی کی بنیاد پر تسلیم کیا ہے بغیر پیئر ریویو کے۔ اگر والدہ کے دعوے کو پیئر ریویو کی کسوٹی سے گزارا ہے تو سرخ سلام قبول کریں (ڈی این اے کے رزلٹ شیئر کرتے رہے ہیں تو شاید اماں کے دعوے پے “تشکیک” ہی سے یہ تحرک پیدا ہوا ہو، کیا پتا چلتا ہے ماڈرن آدمی کا)۔۔۔
خیر، بس پیغام یہ ہے کہ بندے کو احتیاط کرنی چاہیے۔ دنیا میں ایک بہت بڑا طبقہ پیئر ریویو، سائنس، مذہب اور سب کچھ بارے ان سے زیادہ جانکاری رکھتا ہے اور پھر بھی سائنس اور مذہب دونوں کو ساتھ لے کر چل رہا ہے۔ دعوے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں۔ انسان اپنی زندگی کے کئی اہم ترین مذہبی و غیر مذہبی حقائق خبر واحد کے ذریعے معلوم کر کے یقین کرتا ہے، کرتا آ رہا ہے اور آگے بھی کرتا رہے گا۔

ڈاکٹر عزیر سرویا