“سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم: دعوتِ دین کا جامع نمونہ”
جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھی ہوگی، وہ کبھی میدان دعوت میں دل برداشتہ اور حوصلہ شکن نہیں ہوگا، یہ راستہ پرعزم لوگوں کا ہے، جن کے دل اور کلیجہ وسیع ہوتے ہیں، اس راستے میں چلتے ہوئے سب سے پہلے مخالفین اپنے ہوتے ہیں، جیسا کہ صفا پہاڑی پر ابو لہب ظاہر ہوا تھا، لوگ توحید کی باتیں سننا پسند نہیں کرتے ہیں، خواہ وہ اپنے ہوں یا بیگانے ہوں، لوگوں کو بس ان کے آباء و اجداد کے قصے و کہانیاں سنائی جائیں تو وہ پھول جاتے ہیں، غلط رسم و رواج ان کے دلوں میں رچ بس گئے ہیں، جن کے خلاف ایک حرف سننا بھی پسند نہیں کرتے ہیں، اس لیے جان سے ہاتھ دھو کر اس راستے پر چلنا پڑتا ہے، یہاں تشہیر اور پروٹوکول کے بھوکے زیادہ دیر ٹھر نہیں سکتے ہیں، یہاں ٹھرنے کے لیے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی ایام کو ذہن میں رکھنا ہوگا، کبھی طائف کے میدان میں پتھروں کی بارش، کبھی ظالموں کا حالت نماز میں اوجھڑی پھینکنا، کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکمل بائیکاٹ، کبھی ابو طالب سے محمد کو قتل کرنے پر مذاکرت۔ آگے چل کر یہ مذاکرت جنگوں میں تبدیل ہوگئے تھے، تیر و تلوار کا سامنا تھا، یہ راستہ اس قدر کٹھن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی سورتوں میں جگہ جگہ سابقہ انبیاء و اقوام کے حوالے دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیاں دی ہیں کہ آپ دل برداشتہ نہ ہوں، لیکن جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دین اسلام کے بارے میں عزم تھا، اس عزم نے ان کے تمام مکر و فریب کو ختم کردیا تھا۔ جو مکہ عالم کفر تھا، تمام برائیوں کا مرکز تھا، وہ عالم اسلام بن گیا، دنیا و جہاں کی تمام نیکیوں کا مرکز بن گیا، یہ میدان دعوت مال، جان اور اولاد کی قربانیاں مانگتا ہے، اپنے گھر و علاقے کو الوداع کرنا پڑتا ہے، لیکن یہاں استقامت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، معاشرے سے برائیوں کو ختم کرنے کے لیے ہمہ وقت کام کرنا پڑتا ہے، یہاں ایک داعی ناز و نخرے نہیں کرتا ہے، بلکہ اپنی زندگی کی تمام تر کاوشیں دین اسلام کی سربلندی کے لیے صرف کرتا ہے، ایک داعی اپنی ذاتیات کا دفاع نہیں کرتا ہے، کیونکہ دنیا کا کونسا غم تھا، کونسا دکھ تھا، کونسی باتیں تھی، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے نہ کہی تھی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کی خاطر بدلہ نہیں لیا تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں کو نفرت و انا کا رنگ نہیں دینا ہے، بلکہ یہاں ایک داعی کا کام ہے کہ لوگوں کے مابین رنجشیں و نفرتیں ختم کر کے محبت و الفت کا ماحول بنائے، یہاں لوگوں کی طعن و تشنیع سے نہیں ڈرنا ہے، بلکہ دل کھول کر ہر کسی کی بات برداشت کرنی ہے، یہاں آپ کو لوگوں کی طرف سے مختلف نام و برے القابات بھی دیے جائیں گے، لیکن یہ یاد کر کے ہمت نہ ہاریں کہ اس میدان میں میرے رہبر و رہنما محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام محمد کو بگاڑ کر مذمم بنایا گیا تھا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے نہیں ہٹے تھے، اس لیے لوگوں کی طرف سے ملا و مولوی کے طعنوں سے نہیں ڈرنا ہے، میدان دعوت میں اخلاق و کردار کو مثالی بنانا ہے، یہاں لوگوں کو اپنا بنا کر دین اسلام میں لانا ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی مخالفت کے باوجود جو قتل کرنے پر آمادہ تھے، جنہوں نے قتل کی کوششیں کی تھی، وہ دوست بن گئے، وہ اپنی جانوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا کرنے لگے، انھوں نے اپنے سینے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور ڈھال استعمال کیے، اخلاق و کردار کا عالم یہ تھا کہ دور دور سے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اسلام قبول کرنے لگے، کوئی فارس سے آیا تو کوئی کہاں سے آیا تو کوئی کہاں سے آیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو دیکھ کر مصعب جیسے شھزادوں نے اپنی بادشاہت چھوڑ کر ایک کفن کی ایک چادر پر مدفون ہوئے، مال و دولت اور اولاد کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے، ایک داعی کو ایسا کردار و اخلاق اپنانا چاہیے، نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ اس کے پاس خود چل کر آئیں گے۔ ایک داعی کو ہمیشہ اپنے ماتحت لوگوں کے بارے میں فکر کرنی چاہیے کہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے میں کیا کیا کوششیں کر سکتا ہوں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر فکر تھی کہ قرآن نے کہا ہے کہ کہیں آپ ان کی سوچ و فکر کی وجہ سے اپنے آپ کو ختم نہ کردیں، یہاں کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا ہوگا، بعد میں اللہ تعالٰی ایسے ثمرات دیں گے، جو ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام کی بدر، احد اور احزاب کی محنت کے بعد اللہ تعالٰی نے خیبر اور حنین میں اتنا نوازا تھا کہ تمام کے تمام مالا مال ہوگئے تھے، مورخین کے نزدیک یہ امر متفق علیہ ہے کہ تاریخِ انسانی میں کسی بھی فرد کو صرف 23 برس کے قلیل عرصے میں اپنے مشن میں ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جہت کامیابی نصیب نہ ہوئی، جیسی محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی، وہ مبارک تحریک جو ایک گمنام و سادہ سے گھر “دارِ ارقم” سے شروع ہوئی، وہی کاروانِ حق حجۃ الوداع کے روح پرور موقع پر ایک لاکھ سے زائد پروانوں کے جمِ غفیر تک پہنچا، ایک داعی کو دعوت کے میدان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دیکھ کر کام کرنا چاہیے، دکھ و درد، تکلیف و پریشانیوں کے وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو یاد کر کے کام کرے تو اللہ تعالیٰ بلندیاں دے گا۔ ان شاء اللہ
والسلام
(افضل ظہیر جمالی)