⁦سیرتِ سیدنا عثمانؓ (قسط:1)

اسلام کے تیسرے خلیفہ، دامادِ رسول، جامع القرآن، امامِ مظلوم، شہیدِ مدینہ، سیدنا عثمانؓ
🔸 نام: عثمانؓ بن عفان
🔸لقب: ذوالنورین، غنی، ذوالہجرتین
🔸ولادت: 47قبل ہجرت 576ء
🔸 شہادت:18 ذوالحجۃ سنہ35ہجری656ء
🔸سلسلۂ نسب:سیدنا عثمانؓ بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف
🔸والدہ کی طرف سے: ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف ۔
یعنی والد اور والدہ دونوں کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبد مناف پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے۔
🔻رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داریاں۔

پہلا رشتہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبدمناف بن قصی پر ایک ہو جاتا ہے.

دوسرا رشتہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ام الحکیم بیضاء حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی صاحبہ ہیں.
(ام الحکیم البیضاء اور حضرت عبداللہ جڑواں پیدا ہوئے تھے)

تیسرا رشتہ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد ہیں.
اور یہ وہ شرف ہے ۔ جو پوری انسانی تاریخ میں کسی شخص کو حاصل نہیں ہوا ۔ گویا یہ آپ کی ایک خاص خصوصیت ہے ۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
” علمائے اسلام کا قول ہے کہ سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ پوری تاریخ انسانیت میں کوئی شخص ایسا نہیں گزرا ۔ جس نے کسی نبی کی دو صاجزادیوں سے نکاح کیا پھر اس وجہ سے آپ کو ذوالنورین کہا جاتا ہے ۔ “
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح بنت رسول سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا۔
🔺 اور طبرانی کی روایت کے مطابق:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
️ “اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی بیٹی رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کردوں”
۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نکاح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی کردی (المعجم الاوسط للطبرانی 17/4)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس رشتے سے بےحد خوش تھے اور اس نئے جوڑے کے لیے دعائیں فرماتے تھے
یہ خوبصورت جوڑا بڑا مثالی تھا۔ حسنِ معاشرت اور باہمی محبت کے باعث مکہ مکرمہ میں یہ جوڑا ضرب المثل بن گیا تھا لوگوں کا کہنا تھا:
“احسن زوجین رآھما انسان، رقیۃ وزوجھا عثمان”
انسانی آنکھ نے میاں بیوی کا ہر لحاظ سے جو سب سے اچھا جوڑا دیکھا ہے وہ سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور ان کے خاوند سیدنا عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا جوڑا ہے”
(أنساب الاشراف ص:89)
🔸 جنگ بدر کے موقع پر سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا انتقال ہو گیا.
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ربیع الاول سنہ 3 ھ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کرا دیا اور رخصتی جمادی الثانی میں ہوئی. سنہ 9ھ میں سیدہ ام کلثوم بھی وفات پا گئیں تو رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” کہ اگر میری تیسری لڑکی بھی ہوتی تو اس کا نکاح بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیتا”۔ بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) یکے بعد دیگرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں دے دیتا”
(البدایہ والنہایہ) 5 ص309، الاستیعاب لابن عبدالبر، اصابہ)
نیز اسد الغابہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:
(لوكان لى اربعون بنتا زوجت عثمان واحدة بعد واحدة)
“اگر میری چالیس لڑکیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیتا”۔

سیرتِ سیدنا عثمانؓ (قسط:2)

* حلیہ مبارک:
ابن عساکر عبد اللہ بن حزم مازنی سے روایت کرتے ہیں: میں نے حضرت عثمان بن عفانؓ سے زیادہ خوبصورت، کسی مَرد یا عورت کو نہیں دیکھا۔
ابن عساکر نے ہی چند طُرق سے آپؓ کا حلیہ اس طرح بیان کیا ہے:حضرت عثمانؓ میانہ قد، خوبصورت شخص تھے۔ رنگت میں سفیدی کے ساتھ سرخی مائل تھی۔ چہرے پر چیچک کے نشان تھے۔ ڈاڑھی بہت گھنی تھی۔ چوڑی ہڈی کے ساتھ شانوں میں فاصلہ دراز تھا اور پنڈلیاں بھری بھری تھیں۔ دستِ مبارک لمبے تھے، جن پر (قدرے) بال تھے۔ سر کے بال گھنگریالے تھے مگر چندیا کھلی ہوئی تھی اور بال کانوں سے نیچے تک اتر آئے تھے۔ دندان مبارک خوب صورت تھے، جنھیں آپؓ نے سونے کے تار سے باندھ رکھا تھا۔
* عادات واطوار:
سیدنا عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں نہ کبھی زنا کیا ، نہ شراب پی، نہ کسی کو قتل کیا، نہ کبھی چوری کی ، نہ کبھی مسلمان ہونے بعد دین سے پھرا، نہ دین بدلنے کی تمنا کی ، نہ ہی گانا وغیرہ سنا۔
💎 قبولِ اسلام:
طبقات ابن سعد کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی کی دعوت پر آپؓ نے اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے میں آپ کا چوتھا نمبر ہے۔
قال ابن اسحاق:ھو اول الناس اسلاما بعد ابی بکر وعلی وزید بن حارثۃ۔
ترجمہ : علامہ ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اسلام قبول کیا۔(نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختارصلی اللہ علیہ والہ وسلم،ص79)
♦️امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے البدایہ والنہایہ 7ویں جلد میں ابن عساکر کے حوالے سے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لانے کے ضمن میں ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے
کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خالہ سعدٰی بنت کریز جو عرب کی مشہور کاہنہ تھیں انھوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا اے عثمان تجھے خوش ہونا چاہیے تین خوشیاں تیرے مقدر ہو چکی ہیں، اس کے بعد پھر تین اور ہوں گی اور پھر تین اور ہوں گی اور پھر ایک اور خوشی سے تو بہرہ ور ہوگا یعنی تجھے یہ دس 10 خوشیاں عنقریب میسر آئیں گی
بھلائی سے نوازا جائے گا اور برائی سے بچایا جائے گا
خدا کی قسم تیرے نکاح میں ایک خوبصورت پاکباز عورت آئے گی اس وقت تو بھی کنوارہ ہوگا اور وہ عورت بھی کنواری ہی ہوگی۔ اس شخص کی لڑکی سے سے تیرا عقد ہوگا دنیا کا عظیم ترین انسان ہوگا۔ ایسے شخص سے تیرا رشتہ استوار ہوگا جس کے ساتھ تیرا تذکرہ بھی تیرے لیے باعث فخر ہو گا.
سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی خالہ کی باتوں سے بہت تعجب ہوا کہ مجھے جس لڑکی کے بارے میں یہ بشارت دے رہی ہے اس کا تو نکاح بھی دوسری جگہ ہو گیا ہے۔ ( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ رقیہ کا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہو چکا تھا اعلانِ نبوت کے بعد اس بدبخت نے طلاق دے دی ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی تھی) چنانچہ میں نے کہا کہ خالہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں اس پر آپ کی خالہ نے جواب دیا:
“یا عثمان: لک الجمال، ولک اللسان، هذا النبي معه البرهان ارسله بحق الديان، وجاءه التنزيل والفرقان، فاتبعه لا تغتالک الاوثان۔”
اے عثمان! تو ایک خوبرو جوان ہے اچھی گفتگو والا ہے اس نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر دلائل موجود ہیں اللہ تعالی نے انہیں سچا دین دے کر مبعوث فرمایا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان پر خدا تعالی کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالی نے انہیں حق و باطل میں فرق کرنے کا ملکہ عطا فرمایا ہے ہے لہذا اس کی پیروی کرنے پر اور بت پرستی میں مت الجھ”.

سیرتِ سیدنا عثمانؓ (قسط:3)

عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے سوال کیا کہ خالہ تو مجھے ایسے شخص کی پیروی کے لیے کہہ رہی ہے جو ہمارے شہر میں موجود ہی نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کا اعلان کیے دو چار دن ہی ہوئے تھے اس لیے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو علم ہی نہیں ہوا تھا تب آپ کی خالہ نے انہیں کہا
“محمد ابن عبد الله رسول من عند الله جاء بتنزيل الله يدعو به الى الله”
محمد بن عبداللہ وہ شخصیت ہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کیے گئے ہیں اللہ تعالی سے ہدایت حاصل کر کے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں
“مصباحہ مصباح، ودينه فلاح، وقرنه نطاح، ذلت له البطاح، ما ينفع الصياح، لو وقع الذباح، وسلت الصفاح، ومدت الرماح”
اس کا ستارہ مقدر درخشاں ہے اس کی ندائےحق میں عوام کے لیے سراسر نجات ہے اور بالآخر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگا وہ ایک زبردست قوت کا مالک ہوگا اس کے سامنے بڑی حکومتی سر نگوں ہونگی اس کے دشمنوں کو اس کے سامنے سوائے ناکامی کے کچھ حاصل نہ ہو گا اگرچہ وہ کتنی ہی قربانیاں دیں اور کتنے ہی اسلحہ سے لیس ہو کر آئیں”۔
* آنحضرت ﷺ کا کلمہ پڑھنے کے جرم میں آپؓ کو آپؓ کے چچا حکم بن ابوالعاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا۔کئی روز تک ایک الگ مکان میں بند رکھا گیا۔چچا نے کہا جب تک تم نئے مذہب کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا، یہ سن کر آپؓ نے فرمایا ؛چچا ! خدا کی قسم ! میں مذہبِ اسلام کبھی نہیں چھوڑوں گا اور اس دولت سے کبھی نہیں دستبردار ہوں گا چنانچہ حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو مجبور ہو کر آزاد کر دیا. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔⁦
✒️⁩ہجرت:
️جب کفارِ مکہ کے مظالم برداشت سے بڑھ گئے تو نبوت کے پانچویں سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ان کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں ۔ راہ خدا میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا
اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جوڑا خوبصورت ہے ۔
( البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ٦٦ )
* ایک عورت حبشہ سے مکہ پہنچی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہجرت کرنے والوں کے حال احوال دریافت فرمائے تو اس نے بتایا کہ
اے محمدﷺ میں نے آپ کے داماد اور آپ کی بیٹی کو دیکھا ہے آپ ﷺنے فرمایا کیسی حالت میں دیکھا تھا ؟
اس نے عرض کیا۔ عثمان اپنی بیوی کو سواری پر سوار کیے ہوئے جا رہے تھے اور خود سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے ۔
اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“انھما اول بیت ھاجر فی سبیل اللّٰہ بعد أِبراھیم ولوطٍ”

حضرت ابراھیم اور حضرت لوط علیھما السلام کے بعد یہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی ہے
(الاصابہ 139/8)
* حبشہ کے زمانہ قیام میں ان کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہؓ رکھا گیا جس کی وجہ سے حضرت عثمانؓ کی کنیت ابو عبد اللہ مشہور ہوئی ۔ عبداللہؓ کا 6 سال کی عمر میں جمادی الاولی 4ہجری کو مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ خود پڑھی حضرت عثمان نے قبر میں اتارا ۔
(الطبقات لابن سعد 37/8)

سیرتِ عثمانؓ  (قسط: 4)

حبشہ کی طرف ہجرت کو تین ماہ گزرے تھے کہ افواہ اڑی کہ مکہ مکرمہ کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں اس سے مسلمانوں کو خوشی ہوئی اور انہوں نے واپسی کی تیاری شروع کر دی مکہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ تو محض افواہ تھی سیدہ رقیہ اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنھما بھی ان میں شامل تھے (سیرت ابن ہشام 743)
انہوں نے دیکھا کہ مشرکین مکہ کا رویہ پہلے سے بھی برا ہوچکا ہے چنانچہ ان مہاجرین نے پھر حبشہ جانے کی تیاری کر لی سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے دوسری بار اپنے خاوند سیدنا عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی
( السیرۃ لابن کثیر743 بحوالہ سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہ کی زندگی کے سنہرے واقعات ص 137 از عبدالمالک مجاھد)
بعد میں جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت فرمانے والے ہیں تو حضرت عثمان چند صحابہ کرام کے ساتھ مکہ آئے اسی دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے ۔ ہجرت حبشہ کے بعد حضرت عثمانؓ ہجرت مدینہ کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی بیوی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سمیت مدینہ کی طرف تیسری ہجرت فرمائی ۔
( الاصابہ لابن حجر ج ٤ ص ۲۹۸ ۔)
* سخاوت اور فیاضی:
ضرورت جب پڑی دین متین کو مال کی
عثمان رض نے سخاوت کے دریا بہا دئیے
⁦♦️⁩ بئر رومه خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کرنا؛
جب رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ میں پانی کی قلت تھی۔ ایک ہی میٹھے پانی کا کنواں ، اور اس کا مالک بھی یہودی ، جو مہنگے داموں مسلمانوں کو پانی فروخت کرتا تھا ، رسول الله ﷺ کی ترغیب پہ سیدنا عثمان رضی الله عنه نے کم و بیش پینتیس ہزار(35000) درہم قیمت دے کر وہ خریدا اور فی سبیل الله وقف کر دیا۔ اس پر حضور ﷺ نے عثمان رضی الله عنه سے فرمایا: ” عثمان جنت تجھ پہ واجب ہوچکی ”۔

“ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم”

* وقت گزرتا گیا اور یہ کنواں مسلمانوں کو سیراب کرتا رہا یہاں تک کہ عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنه کے دورِ خلافت میں اس کنویں کے اردگرد کھجوروں کا باغ بن گیا ، جو آج تک موجود ہے،وقت کے ساتھ ساتھ اس باغ میں کھجور کے درختوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تو حکومتِ وقت نے اس باغ کے گرد چاردیواری بنوائی ، اور یہ جگہ میونسپلٹی میں حضرت عثمان بن عفان رضی الله تعالیٰ عنه کے نام پر رجسٹرڈ کر دی ، وزارتِ زراعت یہاں کی کھجوریں بازار میں فروخت کرتی ، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سیدنا عثمان بن عفان رضی الله تعالیٰ عنه کے نام پر بینک میں جمع کرواتی رہی ، چلتے چلتے یہاں تک اس اکاونٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی ، کہ مدینہ منورہ کے مرکزی علاقہ میں اس باغ کی آمدنی سے ایک کشادہ پلاٹ لیا گیا ، جہاں “فندق عثمان بن عفان رضی الله تعالیٰ عنه” کے نام سے ایک رہائشی ہوٹل تعمیر کیا جانے لگا۔
اس رہائشی ہوٹل سے ایک خطیر رقم سالانہ آمدنی حاصل ہوتی جس میں سے مسجد نبوی کے اخراجات، غریبوں اور مسکینوں کی کفالت کے بعد باقی حضرت عثمان رضی الله تعالیٰ عنه کے بینک اکاونٹ میں جمع ہوتا رہا ، سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے اس عمل اور خلوصِ نیت کو الله رب العزت نے اپنی بارگاہ میں ایسے قبول فرمایا اور اس میں اتنی برکت عطا فرمائی کہ قیامت تک ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دیا۔حضرت عثمان کا اکاوئنٹ یہاں بھی موجود ہے اور وہاں اللہ تعالٰی کے پاس بھی موجود ہے۔

سیرتِ عثمانؓ  (قسط نمبر 5)

* شرم و حیا
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کمال درجہ کی صفت حیاء سے متصف تھے،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ کے مزاج وطبیعت کا خصوصی لحاظ فرمایا کرتے،
💎 صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی، تو آپ ﷺنے اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ ﷺبیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لیے۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ (راوی محمد کہتے ہیں کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا) جب وہ چلے گئے تو اُمُّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺنے کوئی حرکت اورکچھ خیال نہ کیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے تو بھی آپ ﷺنے کوئی حرکت اورکچھ خیال نہ کیا، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ ﷺ بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لیے؟!۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

«ألا أسْتَحِي من رجل تَسْتَحِي منه الملائكةُ».

” کیا میں اس شخص سےحیا نہ کروں جس سے فرشتے حیاکرتے ہیں‘‘؟
(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر،6362)

سیرتِ عثمانؓ۔ (قسط نمبر 6)

💎صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں ہے :

إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَیِیٌ وَإِنِّی خَشِیتُ إِنْ أَذِنْتُ لَہُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ أَنْ لاَ یَبْلُغَ إِلَیَّ فِی حَاجَتِہِ.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ)حیادار ہیں، مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے اُنہیں اسی حالت میں اجازت دے دی تو وہ حیا کے باعث میرے پاس اپنی ضرورت کو پیش نہ کرسکیں گے۔(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب من فضائل عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر،6363)
♦️⁩سلسلۂ احادیث صحیحہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے مرفوعاً مروی ہے کہ: حیا ایمان سے ہے اور میری اُمت میں سب سے با حیا شخص عثمان (رضی اللہ عنہ)ہیں۔
♦️⁩صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے رویت ہے کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہﷺ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریمﷺ کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ نبی کریمﷺ تو تشریف لے جا چکے ہیں اور آپﷺ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ چنانچہ میں آپﷺ کے متعلق پوچھتا ہوا آپﷺ کے پیچھے پیچھے نکلا اور پھر میں نے دیکھا کہ آپﷺ (قبا کے قریب) بئراریس میں داخل ہو رہے ہیں، میں دروازے پر بیٹھ گیا، اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپﷺ قضائے حاجت کر چکے اور آپﷺ نے وضو بھی کر لیا تو میں آپﷺ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ بئراریس (اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ میں نے آپﷺ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج میں رسول اللہﷺ کا دربان رہوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہر جائیے۔ پھر میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں دروازے پر آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر آپﷺ کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے جس طرح آپﷺ نے لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا۔ پھر میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا: کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبر دے دیتا (ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی) اور انہیں یہاں پہنچا دیتا۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا: کون صاحب ہیں؟ جواب ملا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے، چنانچہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور آپ کو رسول اللہﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپﷺ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ میں پھر دروازے پر آ کر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں (ان کے بھائی) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچا دے گا، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، میں آپﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپﷺ کو ان کی اطلاع دی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر‘ جو انہیں پہنچے گی‘ جنت کی بشارت پہنچا دو۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے۔
🔻 نبی کریمﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے‘ ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی۔
“افتح له وبشرہ بالجنة علی بلوٰی تصیبه”
وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترے پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آپﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔
🌺راویٔ حدیث شریک نے بیان کیا کہ تابعی سعید بن مسیب نے کہا :میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے۔ (کہ وہ اسی طرح بنیں گی)۔

♦️⁩عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَرْحَمُ أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ ، وَأَشَدُّهُمْ فِي أَمْرِ اللَّهِ عُمَرُ ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ ۔۔۔الخ

حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں اور اللہ کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے زیادہ سچی حیاء والے عثمان ہیں۔
(سنن الترمذی٣٧٩١)۔

سیرتِ سیدنا عثمانؓ (قسط:7)

📢 خصائصِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ
🔸حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے
🔸مردوں میں اسلام قبول کرنے میں چوتھا نمبر
🔸رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے مجھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ وہ شخص ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں دو مرتبہ ہجرت کی اور ذوالہجرتین کہلائے۔
🔸نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سارہ کے بعد روئے زمین پر حضرت عثمان اور سیدہ رقیہ پہلا جوڑا ہے جس نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی
🔸حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں
🔸آپ چوری زنا، گانا، شراب جیسی بدعادات سے اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں بھی کبھی ملوث نہ ہوئے
🔸اسلام قبول کرتے وقت جس ہاتھ سے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بیعت کی پھر ساری زندگی زندگی اس ہاتھ سے شرمگاہ کو مس نہیں کیا
🔸سخاوت اتنی کہ حاتم طائی کے واقعات کو مات کر دیا
🔸 حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ وہ شخصیت ہیں جو حضور پاک کے حکم سے جنگ بدر میں حاضر نہ ہوئے اس کے باوجود اہلِ بدر کے تمام فضائل ان کو حاصل ہیں جنگ کا ثواب اور مال غنیمت میں سے بھی حصہ ملا
🔸آپ کے حق میں قرآن پاک کی آیات نازل ہوئیں
🔸آپ ہی وہ شخصیت ہیں جن کی وجہ سے بیعت رضوان ہوئی اور ان سمیت 1400صحابہ کو جنت کی بشارت ملی
🔸نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف سے خود بیعت کی اور اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا
🔸آپ نےلوگوں کو قرآن پاک کی ایک قرأت پر جمع کر کے امت کو ہمیشہ کے لئے اختلافات سے محفوظ کر دیا
🔸 اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا مگر امت میں لڑائی اور خونریزی گوارا نہ کی۔
(بحوالہ سیرتِ عثمان خالد گرجاکھی رح)

شانِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ (قسط نمبر8)

فضائلِ عثمان رضی اللہ عنہ
♦️⁩کنز العمال وغیرہ میں حدیث پاک ہے:سالت ربی عز وجل ألا یوقفہ الحساب فشفعنی فیہ. ”
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں نے اللہ سے درخواست کی کہ قیامت کے دن عثمان رضی اللہ عنہ کوحساب کے لئے کھڑا نہ کرے ،تو اللہ تعالی نے ان کے حق میں میری سفارش قبول فرمالی ۔ (کنز العمال،حدیث نمبر :33095)
میرا تو وجدان یہ کہتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس مقبول دعا کی برکت سے روزِ قیامت حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے خصوصی اعلان ہوگا کہ آپ بڑی عز وشان کے ساتھ بغیر حساب جنت میں داخل ہوں،اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ۔ ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَرْضِیَّۃً ۔ فَادْخُلِی فِی عِبَادِی ۔ وَادْخُلِی جَنَّتِی ۔

ترجمہ : اے مطمئن جان!اپنے پروردگار کی جانب لوٹ آ؛اس حال میں کہ تو رب سے راضی اور رب تجھ سے راضی ہے ،اور میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔(سورۃ الفجر،27/30)
* اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر نے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے،
جیساکہ تفسیر ابن کثیر میں ہے:فروی الضحاک، عن ابن عباس نزلت في عثمان بن عفان۔
امام ضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے (تفسیر القرآن العظیم سورۃ الفجر٢٧)
♦️⁩حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ صدقات و خیرات اور سخاوت کے علاوہ رات کو کثرت سے نوافل ادا کیا کرتے اور نوافل میں قرآن پاک کی بہت لمبی قرآت کرتے۔
قرآن پاک میں ایسے ہی لوگوں کی صفات اس طرح بیان ہوئی ہیں۔

اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآىٕمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖؕ-قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(سورۃ زمر ۹)

“کیا وہ شخص جو سجدے اور قیام کی حالت میں رات کے اوقات فرمانبرداری میں گزارتا ہے، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید لگا رکھتا ہے (کیا وہ نافرمانوں جیسا ہوجائے گا؟) تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں”
* امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے لکھا کہ مذکورہ آیت کریمہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے
* علامہ ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔
“حدثنا يحيى البكاء ، أنه سمع ابن عمر قرأ : ( أم من هو قانت آناء الليل ساجدا وقائما يحذر الآخرة ويرجو رحمة ربه ) ; قال ابن عمر : ذاك عثمان بن عفان ، رضي الله عنه”
♦️⁩حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے حق میں نازل ہوئی۔
وإنما قال ابن عمر ذلك ; لكثرة صلاة أمير المؤمنين عثمان بالليل وقراءته۔
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ بات اس لیے کہی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ رات کو کثرت سے نوافل ادا کرتے اور قرآن پاک کی لمبی قرأت کرتے۔
⁦♦️⁩حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر والے دن فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اِنَّ عُثْمَانَ فِی حَاجَتِکَ وَحَاجَةِ رَسُوْلِکَ.

(ابن ابی شیبة، المصنف، 6: 361، رقم: 32041)
’’بے شک عثمان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی طرف سے بیعت کرتا ہوں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں سے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا کسی کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا۔
⁦♦️⁩ تاریخ الخلفاء میں امام سیوطی رح نے روایت نقل کی ہے “وأخرج خيثمة في فضائل الصحابة، وابن عساكر عن علي بن أبي طالب: أنه سئل عن عثمان بن عفان؟ فقال: ذاك امرؤ يدعى في الملأ الأعلى ذا النورين، كان ختن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على ابنتيه.
” اور خیثمہ نے فضائل صحابہ میں اور ابن عساکر نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت کی ہے کہ ان سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
” یہ تو وہ شخصیت ہیں جنہیں نہیں ملاء الاعلیٰ میں ذوالنورین کے لقب سے پکارا جاتا ہے کیونکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں کا نکاح ان سے کیا
⁩‘‘حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ذَاکَ امْرُؤٌ یُدْعٰی فی الْمَلَاِ الْاَعْلٰی ذَالنُّوْرَیْنِ.

(ابن حجر العسقلانی، الاصابة، 4: 457)۔

شانِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ (قسط: 9)

سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت منقول ہے۔
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسی عظیم الشان ہستی ہیں کہ جنہیں آسمانوں میں ذوالنورین کہا جاتا ہے۔⁦
♦️⁩‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَاِنَّهُ مِنْ اَشْبَهِ اَصْحَابِیْ بِیْ خُلُقًا.
(طبرانی، المعجم الکبیر، 1: 76، رقم: 99)

’’بے شک عثمان میرے صحابہ میں سے خُلق کے اعتبار سے سب سے زیادہ میرے مشابہ ہے۔‘‘
ایک مرتبہ نبی اکرمؐ، سیّدنا ابوبکر صدیق، سیّدنا عمر فاروق اور سیّدنا عثمان ذوالنورین رضوان اﷲ علیہم اجمعین احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

“اسکن احدُ! أظنه ضربه برجله فلیس علیک الا نبی وصدیق وشھیدان”

احد! رک جا! (راوی بیان کرتا ہے کہ) میرا خیال ہے کہ آپ نے اس پر اپنا پاؤں مارتے ہوئے فرمایا: تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔
(بخاری بحوالہ سیرت عثمان غنی از سیف اللہ خالد)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے وہ حرکت کرنے لگا تو رسول اللہ صلی وسلم نے فرمایا
اسكن حراء فما عليك الا نبي او صديق او شهيدْ
“اے حراء! ٹھہر جا تیرے اوپر صرف ایک نبی صدیق اور شہید ہیں”
اس وقت حرا پہاڑ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،
ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم تھے۔۔ (مسلم شریف بحوالہ سیرت عثمان غنی رض از سیف اللہ خالد)
⁦♦️⁩ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عساکر کے حوالہ سے روایت نقل فرمائی

واخرج ابن عساكر زيد بن ثابت قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول مر بي عثمان وعندي ملك من الملائكه فقال شهيد يقتله قومه انا نستحيى منه

سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ وسلم کو فرماتے سنا: عثمان میرے پاس سے گزرے اس وقت ایک فرشتہ میرے پاس حاضر تھا اس نے عرض کیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہیں ان کو آپ کی قوم شہید کرے گی ہم سارے فرشتے حضرت عثمان سے حیا کرتے ہیں۔
(تاریخ الخلفاء جلد1 ص62)
حضرت منذر بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
”ہم مدینہ میں تھے کہ وہاں ایک شخص سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو گالی دینے لگا، ہم نے روکا مگر وہ باز نہیں آیا، تو اچانک بادل گرجا، بجلی آئی اور اس شخص کو جلا کر رکھ دیا۔
(الثقات لابن حبان : 7/105، وسندہ حسن)
♦️⁩امامِ ترمذی، ؒ حضرت انسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ کے موقعہ پر سیدنا عثمان غنیؓ ، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ’’سفیر‘‘ بن کر مکہ گئے تھے کہ خبر مشہور ہوگئی کہ سیدنا حضرت عثمان غنیؓ شہید کر دیئے گئے….. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ہے جو حضرت عثمان غنیؓ کا بدلہ لینے کیلئے میرے ہاتھ پر بیعت کریگا، اس وقت تقریباً چودہ سو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت عثمان غنیؓ کے خون کا بدلہ لینے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک پر ’’موت کی بیعت‘‘ کی اس موقعہ پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان غنیؓ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ ’’بیعت‘‘ عثمانؓ کی طرف سے ہے اس بیعت کا نام بیعت رضوان اور ’’بیعت شجرہ‘‘ ہے۔
بیعت کے اس منظر کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ کے لئے اپنی خوشنودی اور رضوان کا سرٹیفیکیٹ عطا فرمایا

لَّـقَدْ رَضِىَ اللّـٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَـعَلِمَ مَا فِىْ قُلُوْبِـهِـمْ فَاَنْزَلَ السَّكِـيْنَةَ عَلَيْـهِـمْ وَاَثَابَـهُـمْ فَتْحًا قَرِيْبًا ( سورۃ الفتح 18)

بے شک اللہ مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح دے دی۔

سیرتِ عثمانؓ  (قسط نمبر 10)

خلافت اور شہادت:
♦️⁩ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا تھا کہ عثمان! لوگ تجھ سے خلافت چھوڑنے کا مطالبہ کریں گے لیکن تو اس خلافت کو ان لوگوں کے کہنے پر نہ اتارنا چنانچہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ مجھ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نہ سناؤ میں نے کہا کیوں نہیں ضرور سنائیں تو وہ فرمانے لگیں کہ ایک دفعہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ان کی طرف متوجہ کر فرمانے لگے:

“يا عثمان ان الله تعالى لعله ان يقمصک قمیصاً فان ارادوك على خلعه فلا تخله.
(كتاب السنه لابن ابي عاصم، مصنف ابن ابي شیبہ)

“اے عثمان! عنقریب اللہ تعالٰی تمہیں ایک قمییص پہنائے گا(خلافت عطا فرمائے گا) اگر لوگ (یعنی منافقین) تم سے وہ قمیص اتروانا چاہیں تو تم اسے ہرگز نہ اتارنا”
اسی بارے میں مروی ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

“ان اللّٰہ یقمصک قمیصاً من بعدی فان أرادوک المنافقون علی خلعه فلا تخلعه حتٰی تلقانی”۔

“یقینا اللہ تعالی میرے بعد تمہیں ایک قمیص پہنائے گا اگر منافقین تم سے اسے اتارنے کا مطالبہ کریں تو ہرگز ایسے نہ کرنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو”
(تاریخ المدینة المنورة ١٠٦٧/٣ ، مسند أحمد ٨٦/٦ بحوالہ سیرت عثمان از سیف اللہ خالد)
⁦♦️⁩سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ادعولي بعض اصحابي” میرے صحابہ میں سے کسی کو بلاؤ میں نے پوچھا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو؟ آپ نے فرمایا نہیں میں نے کہا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو؟ آپ نے فرمایا نہیں میں نے کہا آپ کے چچا کے بیٹے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو؟ آپ نے فرمایا نہیں.
سیدہ عائشہ کہتی ہیں پھر میں نے کہا کیا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو تو آپ نے فرمایا ہاں۔
پھر جب وہ آئے تو آپ نے مجھ سے کہا تم ادھر(الگ) چلی جاؤ پھر آپ صلی اللہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سرگوشیاں کرنے لگے تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔
(راوئ حدیث ابو سہلہ کہتے ہیں کہ) پھر جس دن انہیں ان کے اپنے ہی گھر میں محصور کر دیا گیا تو ہم نے پوچھا “اے امیر المؤمنین کیا آپ لڑائی نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا:

“لا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عھد الی عھدا واني صابر نفسي عليه”

نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور یقینا میں اس عہد کی پوری پاسداری کروں گا
(فضائل الصحابه لاحمد بن حنبل ٦٠٥/١ ، تاریخ المدينة المنورة، بحوالہ سیرت عثمان رض از سیف اللہ خالد)
سیدنا مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کیا، رسول اللہﷺنے فرمایا :
فتنے کے دور میں یہ چادر والا حق پر ہوگا، وہ چادر والے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔
(سنن الترمذی : 2704، وسندہ صحیح)
حضرت مرہ بن کعبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا، اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا، آپؐ نے فرمایا: ’’یہ شخص اُس دن (یعنی فتنوں کے دور میں) ہدایت پر ہوگا۔ ‘‘ میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنیؓ تھے۔ (ترمذی )
اسی طرح آقائے کریمﷺ نے فرمایا : فتنے کے دور میں عثمان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ مل جانا۔
(صحیح ابن حبان : 6914، وسندہ حسن)
💎سیّدنا عثمان ذوالنورینؓ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آذر بائیجان، آرمینیا، ہمدان کے علاقوں میں بغاوت ہوئی، جس کا قلع قمع امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ کی خلافت میں ہی ہوا۔ اور اس بغاوت کا سدباب سیّدنا ابُوبکر صدیقؓ کے دور کی بغاوتوں کے سدباب کی طرح ہی اہم تھا۔ مزید یہ کہ ایران کے جو علاقے مثلاً بیہق، نیشاپور، شیراز، طوس، خراسان وغیرہ بھی خلافت عثمانی میں ہی فتح ہوئے اور قیصر روم بھی آپؓ کے دور میں ہی واصل نار ہوا۔
* سیّدنا عثمانؓ کے دور خلافت میں ہی بحری جہاد کا آغاز ہوا۔ حضرت عمر ؓ کی احتیاط نے مسلمانوں کو سمندری خطرات میں ڈالنا پسند نہ کیا، ذوالنورین ؓ کی اولوالعزمی نے خطرات سے بے پروا ہوکر ایک عظیم الشان بیڑا تیارکرکے جزیرۂ قبرص (سائپرس) پر اسلامی پھریرابلند کیا اوربحری جنگ میں قیصر روم کے بیڑے کو جس میں پانچ سو جنگی جہاز شامل تھے، ایسی فاش شکست دی کہ پھر رومیوں کو اس جرأت کے ساتھ بحری حملہ کی ہمت نہ ہوئی۔
بحری جہاد کرنے والے لشکر کے لیے جنّت کی خوش خبری نبی کریم ﷺ اپنی لسان مبارکہ سے ارشاد فرما چکے تھے۔

سیرتِ عثمانؓ (قسط نمبر 11)

صحیح بخاری کتاب الجہاد میں بہت جگہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ حضرت اُمّ حرام بن ملحان ؓ (جو حضرت انس ؓکی خالہ لگتی ہیں)کو فرمایا: “میں نے خواب میں اپنی اُمّت کے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے وہ سمندر میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اِس طرح سوارہیں گویا بادشاہ ہیں تختوں پر یا جیسے بادشاہ تخت پر سوار ہوتے ہیں”
حضرت اُمّ حرامؓ ہی فرماتی ہیں‘ میں نے رسولِ کریم ؐسے سنا آپ ؐفرماتے تھے

“اول جیش من امتی یغزون البحر قد اوجبوا”

’’ میری اُمت کا پہلا لشکر جو سمندر پر سوار ہو کر جہاد کرے گا اُس پر جنت واجب ہو گئی‘‘
۔یہ جہاد ۲۸ھ کو حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں ہوا جس کے امیر حضرت معاویہؓ تھے۔ یہ جہاد جزیرہ قبرص کو فتح کرنے کے لئے ہوا۔ اِس میں سیدہ اُمّ حرامؓ بھی شامل تھیں۔ اِس لشکر کے لئے آپ ؓنے جنتی ہونے کی بشارت دی ۔
⁦♦️⁩ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حلیم الطبعی کی وجہ سے اُن کی خلافت کے خلاف شورشیں سر اٹھانے لگیں۔ ایسی سازش کا سرغنہ عبداللہ بن سبأ یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ اس نے مختلف انداز سے آپ کی خلافت کو داغدار کرنے کی کوشش کی۔ اس نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر اقرباء پروری کا الزام لگایا۔ مختلف گورنروں کے خلاف وہاں کی عوام سے جھوٹے خطوط لکھوا دیے کہ خلافتِ عثمانیہ کے گورنر عوام پر ظلم کرتے ہیں۔
اس پر بزرگ صحابہ کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے متعلقہ علاقوں میں جا کر تحقیق کی مگر یہ افواہ ہر طرح سے جھوٹ ثابت ہوئی۔جب ابن سبأ کو معلوم ہوا کہ ہماری سازش ناکام ہو گئی ہے تو اس بدبخت نے دوسری سازش یہ تیار کی کہ ہر صوبے کے سبائی مدینہ کے مضافات میں جمع ہوں اور پھر یک مشت مدینہ میں داخل ہو کر سیدنا عثمان کی معزولی کا مطالبہ کریں اور مطالبہ پورا ہونے تک وہاں سے واپس نہ آئیں مگر اُنہیں اس بار بھی مدینہ سے ناکام لوٹنا پڑا۔صحابہ کرام کی طرف سے بار بار باغیوں کے قتال کی اجازت طلب کرنے کے باوجود آپ نے انہیں سختی سے منع کیا اور فرمایا:
’’میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘
میں تمہیں جنت کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد لیا ہے جسے میں پورا کروں گا۔ اس وقت میرا سب سے بڑا حمایتی وہ ہے جو میری حمایت میں تلوار نہ اٹھائے۔
باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کر کے بالآخر حملہ کیا۔ ظالموں نے تلوار کے وار کر کے شہید کردیا، خون کے قطرے قرآن کے ان لفظوں پہ گرے :

فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ”

اللہ تجھے ان سے کافی ہوجائے گا، یقینا وہ سننے والا جاننے والا ہے۔”
(تاریخ المدینہ : 1310/ 4)
امام یحییٰ بن بکیر کہتے ہیں، یہ اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا۔ (معرفۃ الصحابہ لابی نعیم : 251، وسندہ صحیح)
📢 اللہ آپ کے دشمنوں سے کافی ہوگیا، ایسا کافی ہوا کہ قیامت تک کے لئے ان کونشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ عثمان کل بھی زندہ تھے، عثمان آج بھی زندہ ہیں، ہاں مگر ان پر ہونے والا ظلم صرف ان پر ہونے والا ظلم نہیں تھا، اس ظلم نے امت کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا، کتنی جنگیں ہوگئیں، فتنے برپا ہوگئے۔
جب باغیوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا تو سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا لوگو تم عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل نہ کرو تم میں سے جو کوئی شخص ان کو قتل کرے گا وہ اللہ تعالی سے کوڑھی ہو کر ملے گا اللہ کی تلوار اب تک نیام میں ہے اگر تم نے ان کو قتل کر دیا تو خدا کی قسم وہ تلوار کو میان سے کھینے گا پھر وہ قیامت تک میں میان میں نہ جائے گی لوگو جب کوئی نبی قتل کیا جاتا ہے تو 70 ہزار مردم کو قتل کیا جاتا ہے اور جب کوئی خلیفہ قتل کیا جاتا ہے تو 35 ہزار جانوں کو قتل کیا جاتا ہے پھر وہ قوم جمع ہوتی ہے۔
(تاریخ الخلفاء سیوطی رح بحوالہ عشرہ مبشرہ از قاضی حبیب الرحمٰن منصورپوری رح)
اسلام کے چوتھے خلیفہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آپ کی بیعت سب سے پہلے کی تھی۔ (صحیح البخاری : 3700)
محاصرے کے دنوں میں سیدنا عثمان کی طرف جانے لگے، پتھروں سے جسم نڈھال کروا لیا۔ (تاریخ دمشق : 368/39)
اب جب انہیں عثمان کی شہادت کی خبر پہنچی، تو اللہ کے حضور اپنی براءت پیش کر دی، فرمایا: ”اللہ! میں تیرے سامنے عثمان کے خون سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں، میں نے نہ تو انہیں قتل کیا اور نہ ان کے قتل پر کسی کو ابھارا۔”
(الطبقات لابن سعد : 50/3، وسندہ صحیح)

سیرتِ عثمانؓ  (قسط نمبر 12)

💎 سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اور بلوائیوں کے غلبے کی بڑی وجہ آپ کی نرم دلی اور بردباری تھی۔
صحابہ کرام آپ کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کے لیے تیار تھے مگر آپ کی رحمدلی نے مسلمانوں کے خون بہانے کو پسند نہ کیا۔
اظن الحلیم دل عليٌ قومي
وقد يستضعف الرجل الحليم
‘ میں خیال کرتا ہوں کہ میری بردباری نے میری قوم کو میرے مقابلہ میں جری بنا دیا اور بےشک بہادر آدمی کو اس کی بردباری کمزور کر دیتی ہے”
♦️⁩شہادت عثمان رضی اللہ عنہ پر چند جلیل القدر صحابہ کرام کے تاثرات:
🔸 سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ:
“اگر تمام لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک ہوجاتے تو ان سب پر پتھر برستے جس طرح قوم لوط پر برسائے گئے۔ اگر لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ(قصاص) نہ کرتے تو آسمانوں سے ان پر پتھر برستے”۔(ابن سعد،3/80)
🔻۔سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“عثمان رضی اللہ عنہ بدری صحابہ میں سے ہیں۔
اس سانحہ کے صدمہ میں انہوں نے اپنی وفات تک ہنسی نہ کرنے کا عہد کیے رکھا۔(ابن سعد، 3/81)
🔻۔سیدنا سعید بن زید رضی اللہ عنہ:
“اگر ان لوگوں کی بد اعمالی پر احد پہاڑ ان کی پیٹھ پر آ پڑے تو بجا ہے جنہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں شرکت کی”۔(ریاض النضرہ فی مناقب عشرہ مبشرہ احمد بن عبداللہ طبری، 3/18)
🔻۔سیدنا طاؤس رضی اللہ عنہ:
ایک شخص نے آپ رضی اللہ عنہ سے کہا:
“میں نے فلاں آدمی سے بڑھ کر اللہ پر جرات کرنے والاکوئی نہیں دیکھا”،
فرمایا:
“تو نے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل نہ دیکھے “؟
(وہ جرات میں اس فلاں سے کہیں بڑھے ہوئے تھے)۔
(اخرجہ البغوی)۔
🔻۔عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ:
“حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرکے لوگوں نے قیامت تک کے لئے اپنے اوپر فتنہ کا دروازہ کھول دیا جو کبھی بند نہ ہوگا”۔(ریاض النضرہ فی مناقب عشرہ مبشرہ ، 3/81)
🔻حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی نبی اس سے پہلے قتل نہیں کیا گیا مگر اس کے عوض میں ستر ہزار آدمی مارے گئے اور کوئی بھی خلیفہ قتل نہیں کیا گیا مگر اس کے الزام میں 35 ہزار آدمی مارے گئے.
(طبقات ابن سعد ج3ص83 ماخوذ سیرت عثمان رض از خالد گرجاکھی رح )
🔻حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ انہوں نے شہادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے وقت فرمایا کہ اب عرب ہلاک ہوگئے (یعنی عربوں کا وقار گیا اور عجمیوں کے ہتھے چڑھ گئے)
🔻حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ تم نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بالکل سفید کپڑے کی طرح بالکل بے قصور بےداغ پایا یا پھر بھی تم نے انھیں قتل کر دیا. اور بکرے کی طرح انہیں ذبح کر دیا حضرت طلق بن حسان کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے قاتلوں کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا ان ظالموں نے ایک بے گناہ اور مظلوم کو شہید کیا خدا ان قاتلوں پر لعنت و پھٹکار کرے۔
(البدایہ والنہایہ ج 7ص193)
🔻حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتنوں کی ابتدا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل سے شروع ہوئی اور انتہاء فتنہ دجال پر ہوگی اللہ کی قسم کوئی شخص بھی ایسا نہیں مرتا جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کی طرف مائل ہوں مگر وہ دجال کا تابعدار ہے اگرچہ اس کی زندگی میں پائے یا نہ پائے۔
(طبقات ابن سعد ج3ص80)
♦️⁩ حضرت محمد بن حنفیہ سے روایت ہے :کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان پر لعنت بھیج رہی ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھالیے اور کہا:میں قاتلین عثمان پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اے اللہ! ان پر پہاڑی ومیدانی علاقوں میں (جہاں جہاں قاتلین عثمان ہیں)ان پر لعنت نازل فرما۔آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی۔
(فضائل الصحابہ ۔حدیث:733)
🎈 حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو شہادت کی خبر ملی تو تڑپ اٹھے، فرمایا : ظالمو! تم نے عثمان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اگر احد پہاڑ بھی اپنی جگہ سے سرک جائے تو کچھ برا نہیں ہوگا۔
(تاریخ المدینہ : 1242، وسندہ صحیح)
🎈 حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللّٰہ عنہ جن کی بہادری اپنی مثال آپ تھی، عثمان کے بعد ہمت ہار گئے، ربذہ چلے گئے اور باقی ماندہ زندگی وہیں گزار دی۔
(تاریخ المدینہ : 4/1242، وسندہ صحیح)
♦️⁩سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم اگر تم نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا تو کبھی اکٹھے مل کر نماز نہیں پڑھ سکو گئے۔
(تاریخ دمشق ٣٩/٣٥٤)

سیرتِ عثمانؓ  (قسط نمبر 13)

🎈حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ محاصرے کے دنوں میں سیدنا عثمان کی طرف جانے لگے، پتھروں سے جسم نڈھال کروا لیا۔ (تاریخ دمشق : 368/39، وسندہ حسن) اب جب انہیں عثمان کی شہادت کی خبر پہنچی، تو اللہ کے حضور اپنی براءت پیش کر دی،
🎈 فرمایا: ”اللہ! میں تیرے سامنے عثمان کے خون سے براء ت کا اظہار کرتا ہوں، میں نے نہ تو انہیں قتل کیا اور نہ ان کے قتل پر کسی کو ابھارا۔”
(الطبقات لابن سعد : 50/3، وسندہ صحیح)
⁦♦️⁩سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے دوران درج ذیل آیت پڑھی:
❞إن الذين سبقت لهم مِنا الحسنى أولئك عنها مبعدون.❝
بے شک جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی مقدر ہو چکی ہے وہ اس (جهنم) سے دور رکھے جائیں گے۔
پھر فرمایا: “عثمان منهم.”
“عثمان بن عفان رضي الله عنه انہی میں سے ہیں۔”
📚 المصنف لابن أبي شيبة: ٣٢٠٥٢ ۔
⁦♦️⁩حضرت ابو مسلم عبد اللہ الخولانی رحمہ اللہ نے قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
❞هؤلاء شر من ثمود عقروا الناقة، وهؤلَاء قتلوا الخليفة.❝
“یہ لوگ قومِ ثمود سے بھی بدتر ہیں۔ انہوں نے صرف اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں انہوں نے تو خلیفہ ہی قتل کر ڈالا۔”
📚 تاريخ المدينة لابن شبة النميري: ١٢٥٢/٤
♦️⁩امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے بعد فرشتوں نے میدان جنگ میں مسلمانوں کی اعانت ترک کر دی۔
📚 (تاریخ الخلفاء سیوطی رح بحوالہ عشرہ مبشرہ از قاضی حبیب الرحمٰن منصورپوری رح)
♦️⁩سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اللہ کی تلوار میان میں تھی لیکن آپ کی شہادت کے بعد میان سے ایسی نکلی کے اب قیامت تک برہنہ ہی رہے گی
(حوالہ ایضاً)
⁦♦️⁩ “حضرت امام حسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما نے ایک دفعہ کوفہ میں خطبہ دیا فرمایا: لوگو میں نے آج رات عجیب خواب دیکھا ہے اللہ تعالی کو عرش سے معلٰی پر دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور عرش کے پائے کے پاس کھڑے ہوگئے پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شانہ مبارک پر ہاتھ رکھا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے شانہ پر ہاتھ رکھ لیا پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ آئے تو ان کے ہاتھ میں اپنا ہی سر تھا پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا اے میرے اللہ اللہ ان اپنے بندوں سے پوچھ کہ انہوں نے مجھے کس جرم کی سزا میں قتل کیا یا پھر آسمان سے زمین کی طرف دو پرنالے خون کے بہہ پڑے۔”
خونے نہ کردہ ایم وکسے رانہ کشتہ ایم
جرمم ہمیں است کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم
میں نے کسی کا خون نہیں کیا ۔۔۔کسی کو قتل نہیں کیا۔۔۔مجرا جرم فقط اتنا ہے۔۔۔کہ میں رسول اللہ ﷺ کا دیوانہ ہے۔۔۔ان کے اشارۂ ابرو پہ گھر بار لٹانے والا ہوں۔۔۔
“حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا دیکھو حسن کیا بیان کرتا ہے انہوں نے فرمایا جو انہوں نے دیکھا ہے وہی بیان کر رہا ہے”.
📚(سیرت عثمان خالد گرجاکھی رح بحوالہ البدایہ والنہایہ ج 7ص195)
(محدثین نے خون کے ان دو پرنالوں کی تعبیر جنگ جمل اور جنگ صفین سے کی ہے)

 فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ(سورۃ البقرہ۱۳۷)

جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
🔸کسی کی شھادت کی گواہی بدر کا میدان دے گا ۔۔۔🔸کسی کی شھادت کی گواہی مکہ کی گلیاں دیں گی۔
🔸کسی کی شھادت کی گواہی حجاز کے صحرا دیں گے 🔸کسی کی شھادت کی گواہی میدان کرب و بلا دےگا۔
🔸کسی کی شھادت کی گواہی مسجد نبوی کا مصلٰی دے گا ۔۔۔
🔸کسی کی شھادت کی گواہی احد کا میدان دے گا۔
🔸لیکن مظلومِ مدینہ کی شھادت کی گواہی الله کا قرآن دے گا۔۔۔
🔸قرآن کھلے گا تو اندر سے عثمان کی شہادت کی گواہی نکلے گی۔۔۔
🔸اسی لئے آج عثمان کے دشمنوں کو قرآن نصیب نہیں۔
🔸 قرآن کا حافظ کوئی نہیں۔۔۔قرآن کا عالم اور عامل
کوئی نہیں۔
🔸 اللّٰہ نے قرآن نکال لیا ان کے سینوں سے۔۔۔۔ اور ان کی زندگیوں سے۔
🔸 قیامت کا دن ہوگا عثمان آئیں گے ہاتھ میں قرآن ہوگا اللہ کے دربار میں شکایت کریں گے یااللہ ان ظالموں سے پوچھئے کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا۔
حضرت عثمان غنی ؓ پر جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت آپ تلاوت قرآن مجید فرما رہے تھے۔ قرآن مجید آپ کی گود میں تھا جو خونِ عثمان رض سے رنگین ہو گیا تھا۔
روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایا جائے گا جیسا کہ اپنی موت کے وقت وہ دنیاسے گیا۔
🔸کوئی احرام باندھے ہوئے تلبیہ پڑھتے ہوئے اٹھے گا، کوئی سجدہ کرتے ہوئے۔۔
🔸آٓپ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔زبان پر

فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ

کی تلاوت جاری ہوگی۔
اﷲتعالیٰ ہمیں صحابہ کرام کی محبت نصیب فرمائے سیدنا عثمان غنیؓ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

سیرتِ عثمانؓ (قسط نمبر 14)

🔴 حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراضات اور ان کی حقیقت۔📚📕📗📘📖
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف سبائی انقلابیوں نے چند ایک الزامات کی فہرست تیار کر رکھی تھی انہی کو نقل کر کے دور حاضر کے بعض متجددین سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کا راستہ ہموار کرتے نظر آتے ہیں جن میں اہلسنت کا دم بھرنے والے بڑے بڑے بزعم خود مفکرین بھی شامل ہیں۔
📎 داورِ محشر میرا نامہ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
لہذا ضروری ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے فضائل کے ساتھ ساتھ ان اعتراضات کا مختصر جائزہ بھی پیش کیا جائے تاکہ عوام الناس ایک صحابی رسول کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہونے سے بچ جائیں
💠 اور صحابی بھی وہ جو مبشر بالجنہ، خلیفۂ راشد، دامادِ رسول ہیں۔
💠جسے زبان رسالت سے بار بار یہ خوشخبری ملی ہو:
ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم۔
عثمان آج کے بعد جو بھی عمل کرے اسے کوئی نقصان نہ ہوگا۔
💠صحابی ہونے کی وجہ سے رضی اللہ عنھم ورضوا عنه کا اعزاز حاصل ہے
💠 اصحابِ بدرکی تمام فضیلتیں ان کو حاصل ہیں جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
“اطلع على اهل بدر، فقال: اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم”،
اللہ تعالی نے اہل بدر کی طرف نظر رحمت سے جھانک کر دیکھا اور فرمایا کہ تم جو چاہو کرو اللہ نے تمہیں معاف کر دیا ہے.
اب آتے ہیں ان اعتراضات کی طرف جو سبائی ٹولے نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر کئے تھے اور اب انہی کو پالش کرکے بعض متجددین ادیبانہ انداز میں لوگوں کو صحابہ کرام کی عدالت،اور ان کو حاصل اعزازات کا انکار کر رہے ہیں اور بالواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ محنت کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
⁦♦️⁩ اعتراض::اکابر صحابہ کو معزول کرکے ان کی جگہ اپنے خاندان کے ناتجربہ کار نوجوانوں کو مقرر کیا۔
🔘 حقیقت::اگر کسی صحابی کی معزولی کے معقول اسباب ہو تو اسے معزول کرنا کوئی جرم نہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جن کا عدل اور تدبر مسلم ہے انہوں نے حضرت خالد بن ولید سیف اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کر دیا تھا۔اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی معزولی کی وصیت کی تھی.
(طبری 2803ماخوذ تاریخ اسلام شاہ معین الدین احمد ندوی209)
🔹حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی معزولی کا سبب یہ تھا کہ انہوں نے بیت المال سے ایک رقم قرض لی تھی جسے ادا نہ کر سکے مہتمم بیت المال سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے تقاضے پر سخت کلامی تک نوبت پہنچ گئی تھی (حوالہ: ایضاً)
🔹حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کی معزولی کا سبب یہ تھا کہ انہیں بصرہ سے معزولی کے بعد کوفہ کا والی بنا دیا گیا (طبری 2830)
🔹 سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کی ضعف پیری کی وجہ سے معزول کرکے ان کی جگہ ایک اور صحابی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کا تقرر کیا (اسد الغابہ ج2ص232)
عمال کے عزل و نصب کا اصل معیار حکومت و جہانبانی کی صلاحیت ہے اس اعتبار سے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن لوگوں کا انتخاب کیا وہ ان عہدوں کے لیے موزوں ترین تھے انکی اولوالعزمی اور شجاعت نے اسلامی حکومت کے ڈانڈے سپین چین اور ہندوستان سے ملا دیے
📢 اسلامی مملکت کی حدود جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں 22 لاکھ مربع میل تھی وہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں 44 لاکھ مربع میل تک پہنچ چکی تھی۔

سیرتِ عثمانؓ (قسط نمبر 15)

♦️⁩ اعتراض:: بعض اکابر صحابہ کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا مثلاٌ
🔸 حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ زیادتی کی
🔹 حقیقت:: سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ کوئی سختی نہیں ہوئی بلکہ کہ وہ سبائی جماعت سے متاثر ہوگئے تھے اس لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی فہمائش ضرور کی اور یہ کوئی جرم نہیں سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سادہ دل بزرگ تھے وہ سبائیوں کے دام فریب میں مبتلا ہوگئے تھے
استمالہ قوم بمصر وقد انقطعوا الیہ منھم عبداللّٰہ بن سوداء وخالد بن ملجم وغیرھم”
یعنی سبائی لوگوں نے مصر میں انہیں پھسلا لیا اور عبداللہ ابن سوداء اور خالد بن ملجم وغیرہ ان کے ساتھ ہو گئے. (طبری اور ابن اثیر ص 2944ماخوذ تاریخ اسلام ص206)
♦️⁩اعتراض::سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جلاوطن کیا
🔹حقیقت::سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جلاوطن کرنے کا واقعہ بالکل غلط ہے انہیں جلاوطن نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ خود ایک ویرانہ میں گوشہ نشین ہوگئے تھے کیونکہ آپ جائز سرمایہ کاری کے بھی خلاف تھے اور لوگوں کو اس کی ترغیب اور وعظ بھی کرتے تھے جس سے انتظامی معاملات میں بدامنی پھیلنے کا خدشہ تھا اس لیے انہیں شام سے بلوا کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نےاپنے پاس رہنے اور ان کے مکمل اخراجات کی کفالت کا ذمہ اٹھایا مگر وہ دنیاوی جاہ و جلال کے ساتھ مخالف تھے انہوں نے جواب دیا ” تمہاری دنیا کی مجھے ضرورت نہیں اور خود مدینہ کے قریب ایک مقام”ربذہ” میں رہائش اختیار کرلی۔
(ابن سعد ج1 ص167)
💠ثقہ محدث غالب القطان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قلت للحسن: عثمان أخرج أباذر ؟قال معاذاللہ
میں نے حسن بصری سے کہا:کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کو مدینہ سے نکال دیا تھا تو حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا: اللہ کی پناہ۔ (سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا).
(تاریخ المدينه المنوره للنميري١٠٨٣/٣ماخوذ سیرت عثمان از سیف اللہ خالد)
💠سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ثقہ و صدوق تابعی عبداللہ بن صامت رحمۃ اللّٰہ علیہ بیان کرتے ہیں:میں اپنے چچا سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ساتھ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا… سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا یقینا آپ نے سچ کہا اے ابو ذر! ہم نے تو آپ کو صرف خیر و بھلائی کے لئے پیغام دیا ہے اور یہ کہ آپ مدینہ میں ہمارے قریب ہی رہیں یہ سن کر سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا مجھے یہاں قیام کی کوئی حاجت اور ضرورت نہیں ہے مجھے ربذہ میں قیام کرنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے آپ ربذہ میں قیام کریں اور ہم آپ کو صدقے کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ دینے کا حکم صادر کرتے ہیں۔وہ صبح و شام آپ کے پاس آئیں گے(دودھ وغیرہ کی ضروریات کیلئے)۔
یہ سن کر سیدنا ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ابوذر کو اپنے چند اونٹ ہی کافی ہیں۔۔ پھر فرمایا یا اے جماعت قریش! تم اپنے اموال کو سنبھال کر رکھو اور ہمیں ہمارے دین سمیت چھوڑ دو۔
(حوالہ ایضاً ملخصاً )

سیرتِ عثمانؓ (قسط نمبر 16)

♦️⁩ اعتراض::بیت المال میں بے جا تصرف اور اپنے عزیز و اقارب کو نوازنا۔
🔷 حقیقت::جس عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر مشکل وقت میں اسلام اور اھل اسلام کی اپنے مال سے مدد کی
🔸 مسجد نبوی کی توسیع ،بئر رومہ کی خریداری، غزوہ جیش العسرۃ میں 1000 اونٹ،70گھوڑے، 1000 دینار
( ساڑھے پانچ کلوسونا) اللہ کی راہ میں دینے والا.
جس کی سخاوت ضرب المثل بن چکی تھی کیا وہ خلیفہ بننے کے بعد اتنے غریب ہو گئے تھے کہ بیت المال میں اپنے حق سے تجاوز کرتے ہوئے لوگوں کو نوازنے لگے تھے۔؟؟
جب کہ حقیقت یہ ہے جو شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہے کہ “بعض فقہا جیسے حسن بصری اور ابو ثور رحمھما اللہ وغیرہ کا موقف ہے کہ خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے سے مراد خلیفہ اور امام کے قرابت داروں کا حصہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمجو اپنے رشتے داروں کو دیتے تھے وہ بحیثیت سربراہ دیتے تھے۔
لہذا ذوی القربیٰ والا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے اقرباء کے لئے تھا اور وفات کے بعد جو بھی مسلمانوں کا خلیفہ ہے یہ حصہ اس کے لیے خاص ہے۔
( منہاج السنۃ ١٨٧،١٨٨/٣ماخوذ سیرت عثمان از سیف اللہ خالد)
🔮 اسی اعتراض کا جواب خود سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسطرح دیا:-اگر میں اپنے ذاتی مال سے خرچ کروں اور اقرباء کو دوں تو اس کا مجھے حق ہے بلکہ قرآن کے حکم “واٰت ذالقربٰی حقه” کے عین مطابق ہے اور اگر بیت المال سے دوں تو تمہیں اعتراض کرنے کا حق ہے جبکہ
میں نے آج تک بیت المال سے ایک پیسہ بھی نہ لیا.
(سیرتِ عثمان از خالد گرجاکھی رح)
💠سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی وسلم کو بھی اس خوبی اور ترجیحی عمل کی بنا پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ “جعرانہ”کے مقام پر مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک آدمی آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگا: “عدل کیجیے” آپ نے فرمایا:
“لقد شقيت ان لم اعدل” اگر میں انصاف سے کام نہ لوں تو بدبخت ہو جاؤں”۔
(بخاری٣١٣٨ سیرت عثمان سیف اللہ خالد)
♦️⁩ اعتراض:: حضرت عثمان رض نے بقیع کی چراگاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا اور لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے روک دیا۔
💠 حقیقت:: اس واقعہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ بعض چراگاہیں عہد فاروقی سے بیت المال کے مویشیوں کے لیے مخصوص تھیں جس کی تصریح خود سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بیان میں فرمائی ہے:
” میں نے انہیں چراگاہوں کو مخصوص کردیا ہے جو مجھ سے پہلے مخصوص ہو چکی تھی میرے پاس اس وقت دو اونٹوں کے علاوہ کوئی مویشی نہیں ہیں حالانکہ خلافت سے پہلے میں عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں کا مالک تھا اور آج دو اونٹوں کے علاوہ جو حج کے سفر کے لیے رکھ چھوڑے ہیں میرے پاس ایک اونٹ اور ایک بکری تک نہیں ہے.
( طبری ص٢٩٥٢ ماخوذ تاریخ اسلام ص212)
♦️⁩اعتراض::حکم بن عاص جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلاوطن کردیا تھا حضرت عثمان رضی اللہ نے دوبارہ اسے طائف سے مدینہ بلا لیا۔
🔷 حقیقت::حضرت عثما نِ غنی نے ان کی واپسی کی وجہ خود بیا ن فرمائی کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی جسے حضورؐ نے قبول فرماتے ہوئے ان کی واپسی کامجھ سے وعدہ فرمایا ۔ میں ہے کہ ۔۔۔۔۔۔! ”فلماولیٰ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الخلافۃ ردہ وقال کنت قد شفعت فیہ الی رسول اللہؐ فوعدنی بردہ وتوفی فی خلافۃعثمان”
ترجمہ : پھرجب حضرت عثمان خلیفہ ہوئے تو آپ نے حکم بن ابی العاص کو مدینہ طیبہ میں بلالیا او رفرمایا کہ میں نے ان کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے سفارش کی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے ان کی واپسی کا وعدہ فرمایا ۔
ا (آسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم ص٥٣)
🔷”دراصل آخر زمانہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے واپس بلانے کی اجازت لے لی تھی جس کا علم عام طور سے لوگوں کو نہ تھا”۔ (تاریخ اسلام ندوی ص٢١٤)

سیرتِ عثمانؓ (قسط نمبر 17)

♦️⁩ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مصحف صدیقی کے علاوہ باقی مصاحف جلا ڈالے۔
🔷 حقیقت:: یہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی سب سے بڑی مذہبی خدمت اور امت اسلامیہ پر سب سے بڑا احسان ہے کہ انہوں نے پوری امت کو ایک قرآن پر متحد کر دیا ورنہ دوسرے اہل کتاب کی طرح ان کا بھی حشر ہوتا۔
بخاری کی روایت میں ہے کہ سیدنا حذیفہ نے آکر سیدنا عثمان سے کہا کہ اے امیر المومنین اس سے پہلے کہ یہ امت بھی یہود و نصاریٰ کی طرح کتاب ﷲ میں اختلاف کرنے لگے آپ اس کی خبر لیجئے۔ چنانچہ سیدنا عثمان نے حفصہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں کہلا بھیجا کہ وہ صحیفہ جسے زید نے ابو بکر کے حکم پر جمع کیا تھا اور جس پر مکمل قرآن مجید لکھا ہوا تھا) ہمیں دے دیں تاکہ ہم انہیں مصحفوں میں (کتابی شکل میں) نقل کروائیں پھر اصل نسخہ آپ کو لوٹا دیں گے حفصہ رضی اﷲ عنہا نے وہ صحیفے سیدنا عثمان کے ہاں بھیج دیے۔
اور آپ نے زید بن ثابت عبد اﷲ بن زبیر سعد بن العاص اور عبد الرحمان بن حارث کو حکم دیا کہ وہ ان صحیفوں کو مصحفوں میں نقل کریں۔
عثماں رضی اﷲ عنہ نے ان تینوں قریشی صحابیوں سے کہا اگر آپ لوگوں کا قرآن مجید کے کسی لفظ کے سلسلے میں سیدنا زید سے اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان کے مطابق لکھو کیونکہ قرآن مجید قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور جب تمام صحیفے مختلف نسخوں میں نقل کر لیے گئے تو سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ نے ان صحیفوں کو واپس لوٹا دیا اور
“وارسل الی کل افق بمصحف مما نسخوا”۔ اپنی سلطنت کے ہر علاقہ میں نقل شدہ مصحف کا ایک ایک نسخہ بھجوا دیا اور حکم دیا کہ اس کے سوا کوئی چیز اگر قرآن مجید کی طرف منصوب کی جاتی ہے خواہ وہ کسی صحیفہ یا مصحف میں ہو تو اسے جلا دیا جائے۔
( بخاری ٤٩٨٧)
💠حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا فیصلہ ملاحظہ فرمائیں:

عن سويد بن غفلة قال: ” قال علي: أيها الناس! إياكم والغلو في عثمان تقولون حرق المصاحف، والله ما حرقها إلا عن ملا من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم، ولو وليت مثل ما ولي لفعلت مثل الذي فعل “

“اے لوگو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے معاملہ میں زیادتی کرنے سے بچو تم کہتے ہو کہ انہوں نے قران جلایا اللہ کی قسم انہوں نے تمام صحابہ کے مشورہ سے قرآن (کے ورقوں) کو جلایا تھا اور اگر اس وقت میں خلیفہ ہوتا تو میں بھی اسی طرح کرتا جس طرح حضرت عثمان نے کیا” (البدایہ والنہایہ ج٧ص٢٤٤)
⁦♦️⁩ اعتراض:: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منٰی میں قصر کی بجائے پوری نماز ادا کی۔
🔷 حقیقت::اس کا جواب امام زہری رح نے نقل کیا ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے تمام حکومت میں اعلان کروا رکھا تھا کہ حج کے موسم میں تمام صوبوں کے امراء آیا کریں اور جس کسی کو ان کے خلاف کوئی شکایت ہو وہ آ کر بیان کیا کرے تاکہ ان کی اصلاح ہوتی رہے۔چنانچہ عموماً نو مسلم عجمی بہت آیا کرتے تھے اور چونکہ حج کے سفر پر مسافر ہونے کی وجہ سے تمام لوگ قصر سے ہی نماز پڑھا کرتے تھے حتیٰ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی کے بعض دیہاتی لوگ سمجھ بیٹھے ہیں کہ نماز ہی دو دو رکعت ہے چنانچہ اس اصلاح کے لئے اور انہیں مسئلہ سمجھانے کے لیے آپ نے نماز پوری پڑھی اور قصر نہ کی”۔
🔷 دوسری بات کہ سفر میں قصر نماز پڑھنا افضل ہے واجب نہیں پوری نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
صحابہ کرام ؓ میں سے حضرت عائشہؓ و عثمان ؓاور ایک روایت میں ابن عباسؓ اور ائمہ مجتہدین میں سے امام مالک‘ احمد اور شافعی رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک قصر واجب نہیں بلکہ محض رخصت ہے۔ امام نوویؒ کے نزدیک اکثر اہل علم کی بھی یہی رائے ہے۔
امام ابو حنیفہ کے استاد ثقہ تابعی حضرت عطا ء بن ابی رباح نے فرمایا کہ: اگر قصر کرو تو رخصت ہے اور اگر چاہو تو پوری نماز پڑھ لو۔ ( ابن ابی شیبہ 2/452 ح8191 وسندہ صحیح )۔

سیرتِ عثمانؓ (قسط نمبر 18) آخری

💠خلاصہ کلام: یہ ہے کہ صحابہ سے محبت ایمان ہے دشمنان صحابہ نے الزامات اور پروپیگنڈے کے زور پر صحابہ کرام کے بارے میں ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ محنت نعوذ باللہ دھندلاتی نظر آتی ہے۔
اللہ تعالی نے جو صحابہ کے دلوں کے امتحان لے کر ان کے ایمان اور تقوی کی گواہی اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے اس کی تکذیب لازم آتی ہے۔

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(سورۃ الحجرات ۳)

قرآن پاک میں دو قسم کی مکھیوں کا ذکر ہے۔
1:- نحل شہد کی مکھی۔2:- ذباب عام گھریلو مکھی
شہد کی مکھی ہمیشہ پھولوں پر بیٹھتی ہے ہر طرح کے کے پودوں اور پھولوں سے رس لے کر شیریں اور لذیذ شہد بنا کر پیش کرتی ہے۔
جبکہ ذباب صحیح اور تندرست جسم کو چھوڑ کر زخم پر بیٹھنا پسند کرتی ہے وہاں بیماری سے آلودہ پر کے ذریعے زخم کو متعفن کرکے پیش کرتی ہے۔
ہمیں صحابہ کرام کے بارے میں شہد کی مکھی بننا چاہئے، ان کے اوصاف اور خوبیاں اجاگر کرنی چاہیے نہ کہ
بتقاضائے بشریت ان سے ہونے والی خطاؤں کو پیش کرکے ان کی شخصیات کو داغدار کرنے کی کوشش کی جائے۔
جبکہ صحابہ کرام کی غلطیوں کو تو اللہ تعالی نے معاف کر کے انہیں جنت کے سرٹیفکیٹ عطا کر دیے ہوئے ہیں۔
🔮 اہلسنت کے عقائد کی مشہور درسی کتاب’’ عقائد نسفیہ‘‘ میں لکھا ہے کہ :ویکف عن ذکرالصحابۃ الابخیر۔یعنی اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کا ذکر بجز خیر اور بھلائی کے نہ کرے۔
(تلخیص از:مقامِ صحابہؓ مفتی محمد شفیع رح)
🔘 امام اہلسنت احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ اہل سنت کے عقیدے کی وضاحت میں فرماتے ہیں:

ذکر محاسن أصحاب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلھم اجمعین والکف عن ذکر مساویھم والخلاف الذی شجر بینھم، فمن سب اصحاب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو احدا منھم ان تنقصه أو طعن عنھم أو عرض بعیبھم أو احدا فھو مبتدع رافضی خبیث مخالف لا یقبل اللّٰہ منه صرفا ولا عدلا۔۔۔۔الخ
(طبقات الحنابلۃ للامام أبی یعلی١٣٠/١)

رسول الله صلى الله عليه وسلم کے تمام صحابہ کی صرف خوبیوں کا ذکر کیا جائے آئیے ان کی بشری کوتاہیوں لغزشوں اور ان کے مابین واقع اختلاف کے چرچے سے گریز اور اجتناب کیا جائے جو شخص سب صحابہ کو یا کسی ایک کو دشنام سناتا ہے یا اس کی تنقیص کرتا ہے یا انکار کرتا ہے یا کسی صحابی کی عیب جوئی میں لگا رہتا ہے تو یقین کیجئے وہ سنی نہیں بلکہ بدعتی رافضی اور خبیث انسان ہے اللہ تعالی اس کا کوئی فرض یا نفل قبول نہیں فرمائے گا
نیز فرمایا:

“بل حبھم سنة والدعاء کم قربة والاقتداء بھم وسیلة والاخذ بآثارھم فضیلة”

“(اہل سنت یاد رکھیں) تمام صحابہ سے محبت سنت ہے ان کے حق میں دعائے خیر قربِ الٰہی کا باعث ہے ان کی پیروی وسیلۂ نجات اخروی اور ان کے آثار کی اتباع باعثِ فضیلت ہے” (بحوالہ فضائلِ صحابہ و اہل بیت۔حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللّٰہ)
اللہ تعالی ہمیں صحابہ کرام کی سچی محبت نصیب فرمائے آئے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔اللھم وفقنا لما تحب وترضیٰ آمین ثم آمین۔
👈نوٹ:اگر بندہ کی یہ کاوش پسند آئے تو میرے والد مرحوم کیلئے دعا کردیا کریں۔آپکی دعائیں شاملِ حال رہیں تو اس کے بعد خلیفۂ دوم،مرادِ رسول سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کے سنہرے نقوش کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔

وباللہ التوفیق وھو المستعان وعلیہ التکلان۔

عبدالرحمن سعیدی

یہ بھی پڑھیں: ہر دلعزیز داعی