سوال (3493)
کیا ثیبہ عورت کو آگے نکاح کرنے کے لیے یا پھر دوبارہ پہلے شوہر سے نکاح کرنے کے لیے ولی کی شرط ہے یا پھر رخصت ہے؟ کیا بغیر ولی نکاح باطل ہو سکتا ہے؟
جواب
ولی کی اجازت ہر حال میں ہر جگہ ضروری ہے۔ یہ جو الفاظ
“الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا” [صحيح مسلم: 1421]
حدیث میں ہے کہ باکرہ کے لحاظ سے ثیبہ کے پاور بڑھ گئی ہے، اس چیز کا اظہار ہے، باقی ولی کی اجازت ہر حال میں درکار ہے۔ ہمارے نزدیک “لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ” باکرہ کے لیے جس طرح ولی کی اجازت ضروری ہے، اس طرح ثیبہ کے لیے ضروری ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
“لَا نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ” ولی نکاح کی چار شرطوں میں سے ایک ہے، یہ جو الفاظ”الثَّيِّبُ أَحَقُّ بِنَفْسِهَا مِنْ وَلِيِّهَا” [صحيح مسلم: 1421] حدیث کے ہیں، اس میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ ثیبہ کے اختیارات کنواری کی بنسبت قدرے زیادہ ہیں، یاد رہے کہ ولی کی شرط اپنی جگہ پر ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
رسول الله صلى الله عليه وسلم کی حدیث ثیبہ کے مطلق جو صحیح مسلم میں موجود ہے وہ ملاحظہ فرمائیں:
الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر تستأمر وإذنها سكوتها. وفي لفظ: ليس للولي مع الثيب أمر، واليتيمة تُستأمر؛ رواه أبو داود، والنسائي، وصححه ابن حبان.
اب اگر “أحق بنفسها من وليها” کی صحیح شرح معلوم ہو جائے تو اشکال نہیں رہتا کہ ثیبہ کے لیے ولی کی شرط ہے یا نہیں؟
محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کی شرح میں فرمایا ہے:
أي أحق بالرضا، وفي اختيار زواجها، فلا تتزوج حتى تنطق بالإذن، بخلاف البكر فيكفي في حقها السكوت۔
لہذا ولی کی شرط اپنی جگہ قائم ودائم رہے گی، فرق صرف “الأذن الصريح” اور “الاختيار في زواجها” کا ہی ہو گا۔ باقی حدیث “لا نكاح إلا بولي” اور “الثيب أحق بنفسها من وليها” دونوں میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے۔
والله تعالى أعلى وأعلم والرد إليه أفضل وأسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ