سوال (5021)

صحابی کے خواب کا کیا حکم ہے؟ مثلاً: صحابی یہ کہے میں خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے یا کرتے ہوئے سنا ہے؟

جواب

صحابی کے خواب کو دین میں دلیل نہیں مانا جاتا کیونکہ خواب وحی نہیں ہوتا، اور نہ اس سے شرعی حکم ثابت کیا جاتا ہے۔
البتہ اگر اس خواب میں کوئی ایسی بات ہو جو:
قرآن و سنت کے موافق ہو
یا اس کی تائید شریعت سے ہو۔
تو اسے بطورِ تائیدی بات قبول کیا جا سکتا ہے، نہ کہ بطور دلیلِ شرعی۔
کیونکہ خواب شریعت کا مستقل ذریعہ نہیں ہے۔ نہ صحابی کا خواب، نہ ولی کا خواب، نہ کسی بزرگ یا عالم کا خواب۔
امام شاطبیؒ (الموافقات) فرماتے ہیں:خواب میں نظر آنے والی چیز کو شریعت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا، کیونکہ شریعت کا دارومدار وحی پر ہے، اور خواب وحی نہیں ہے۔
زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ صحابہؓ کا ایمان، صدق، اور تقویٰ سب سے بلند ہے، اور ان کا خواب عام لوگوں کے خواب سے یقیناً زیادہ معتبر اور نیک ہوتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود بھی ان کا خواب “دلیلِ شرعی” نہیں ہوتا۔
البتہ اگر وہ خواب کسی معروف سنت یا قرآن کے مطابق ہو، تو بطورِ حکمت یا تائید لیا جا سکتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے واقعی مجھے دیکھا، کیونکہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کرتا۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کا خواب میں آنا سچ ہو سکتا ہے، مگر اس میں کہی گئی بات شریعت کا مستقل حکم نہیں بن سکتی، الا یہ کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
یہ بنیادی بات ذہن میں رکھ لیں کہ شریعت کا انحصار وحی پر ہے، نہ کہ خوابوں پر، چاہے وہ خواب صحابہ یا اولیاء ہی کے کیوں نہ ہوں۔”واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

متعدد صحابہ کرام کو خواب آئے تھے، اگر بسند صحیح ہم تک یہ بات پہنچتی ہیں، صحابہ کرام اس خواب پر یقین رکھتے تھے، اس پر عمل بھی کرتے تھے، جیسا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا تھا کہ کل روزہ ہمارے ساتھ افطار کرنا ہے تو انہوں نے روزہ بھی رکھ لیا تھا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم أيها الدكتور الفاضل

ممکن ہے سائل کا اس جیسے خواب کی طرف اشارہ ہو۔

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻋﻦ ﻋﻤﺎﺭ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺎﺭ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ، ﻗﺎﻝ: ﺭﺃﻳﺖ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ، ﻓﻲ اﻟﻤﻨﺎﻡ ﺑﻨﺼﻒ اﻟﻨﻬﺎﺭ ﺃﺷﻌﺚ ﺃﻏﺒﺮ ﻣﻌﻪ ﻗﺎﺭﻭﺭﺓ ﻓﻴﻬﺎ ﺩﻡ ﻳﻠﺘﻘﻄﻪ ﺃﻭ ﻳﺘﺘﺒﻊ ﻓﻴﻬﺎ ﺷﻴﺌﺎ ﻗﺎﻝ: ﻗﻠﺖ: ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻣﺎ ﻫﺬا؟ ﻗﺎﻝ: ﺩﻡ اﻟﺤﺴﻴﻦ ﻭﺃﺻﺤﺎﺑﻪ ﻟﻢ ﺃﺯﻝ ﺃﺗﺘﺒﻌﻪ ﻣﻨﺬاﻟﻴﻮﻡ ﻗﺎﻝ ﻋﻤﺎﺭ: ﻓﺤﻔﻈﻨﺎ ﺫﻟﻚ اﻟﻴﻮﻡ ﻓﻮﺟﺪﻧﺎﻩ ﻗﺘﻞ ﺫﻟﻚ اﻟﻴﻮﻡ
[مسند احمد: 2165 ،2553 صحیح، فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل: 1380 سنده صحيح]

تو اس کی تائید مرفوع روایت سے ہوتی ہے جس میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو جبریل علیہ السلام کے ذریعے بتا دیا گیا تھا کہ سیدنا حسین ابن علی رضی الله عنہ کو فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا پھر اس جگہ کی مٹی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دکھائی گئ۔
یہ روایت کئی اسانید سے مروی ہے جن میں سے بعض حسن درجہ کی ہیں۔ والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ