سوال (5732)

اگر کوئی شخص قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلہ، آگ یا ملبے تلے دب کر وفات پا جائے تو کیا ایسے افراد کو صرف “ہلاک شدہ” کہا جائے گا یا انہیں احادیث کی روشنی میں “شہید” کا درجہ حاصل ہوگا؟ اور اس صورت میں ان کے بارے میں دنیوی احکام (غسل و کفن وغیرہ) اور اخروی درجے کی وضاحت کیا ہے؟
تفصیلی جواب مطلوب ہے۔

جواب

جل کر، دب کر اور ڈوب کر فوت ہونے والے کو حدیث میں شہید کہا گیا ہے۔ یہ انکا اخروی مقام ہے۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ جب بھی انکا ذکر ہو تو ساتھ میں “شہید” کا لاحقہ لگایاجائے نیز انکو فوت شدہ، میت وغیرہ ہی کہا جائیگا۔ البتہ جو اللہ کی راہ میں قتل کردیا جائے اسے مردہ یا میت وغیرہ نہیں کہہ سکتے۔
لیکن اسکو بھی بلا ضرورت ہر جگہ شہید یا زندہ لکھنے و کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بلکہ کسی کو بھی ہم بالجزم شہید نہیں کہہ سکتے، اسی لئے علماء “بظاہر مقتول فی سبیل اللہ” کو شہید کہہ کر ساتھ میں ان شاءاللہ لگاتے ہیں۔
باقی شہید کے غسل و کفن کی جو بحث ہے وہ بھی شہید مقتول فی سبیل اللہ کے ساتھ خاص ہے۔
اس شہید کے علاوہ جنہیں احادیث میں شہید کہا گیا ہے انکے غسل و کفن کے احکامات عام میتوں جیسے ہی ہیں۔
واللہ اعلم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ