سوال (715)

حضرت علامہ حافظ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں شب کے متعلق بہت سی احادیث اور آثار مروی ہیں اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس رات میں نماز پڑھا کرتے تھے، لہذا اس رات میں تنہا نماز پڑھنے والے کے لئے سلف کا عملی نمونہ موجود ہے۔ اس میں اس کے لیے دلیل ہے ۔ لہذا اس جیسے عمل پر گرفت اور نکیر نہیں کی جاسکتی ، اس لیے پندرہویں تاریخ کو روزہ رکھنے والے کے لئے مناسب یہ ہے کہ وہ شعبان کی ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخوں میں روزہ رکھے کیونکہ ہر ماہ ایام بیض کے (۱۳، ۱۴، ۱۵) میں روزہ رکھنا سنت ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ علامہ البانی نے اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پندرہویں شعبان کی رات کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں تو ان لوگوں کا یہ کہنا جلد بازی کا نتیجہ ہے، ان پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ۔ [سلسلۃ الاحادیث]
مشائخ اس کے متعلق وضاحت فرمادیں ؟

جواب

اگرچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بات اس طرح غالبا “اقتضاء” کے اندر لکھی ہے ، لیکن شیخ الاسلام نے صحابہ ، تابعین اور ائمہ میں سے کسی کی مثال نہیں دی ہے کہ انہوں نے اس کا اس طرح اہتمام کیا ہو ، تو یہ بات ایک رائے کی شکل میں ہے ، یہاں تک شیخ البانی رحمہ اللہ کا معاملہ ہے ، آپ نے ایک روایت کو قبول کیا ہے ، اس پر کچھ اور بھی علماء ہیں ، لیکن ہمارے کئی دقیق اور گہرے قسم کے محققین ہیں ، جیسے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ہیں اور شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ اور بھی مشائخ ہیں ، ان کے نزدیک کوئی بھی روایت پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے ، یہ اہل بدعت کا شعار بھی بن چکا ہے ، مزید یہ ہے کہ اہل تشیع کا ہاں یہ ان کے بارہواں مزعوم امام کی رات ہے ، جس طرح تحفہ العوام والوں نے لکھا ہے ، ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے اس کی گنجائش دینا محل نظر ہے ، اگر نزول الہی آسماں دنیا پر اور رات کے وقت قیام کی یہی بنیاد ہے ، تو یہ ہر رات ہوتا ہے ، پھر اس کا اہتمام ہر رات ہونا چاہیے ، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتى كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں.
ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں…. الخ.
اس بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى جائز نہيں ہے، اكثر جاہل لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا ”
واللہ تعالى اعلم

فضیلۃ الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ

اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے ـ اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو ـ تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے.
اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض يعنى ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا سوموار كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجروثواب زيادہ حاصل ہو گا.
واللہ اعلم .

ناقل : فضیلۃ الباحث انس احسان حفظہ اللہ