اب ہمارے حضورؐ بھر پور جوانی کو پہنچ چکے تھے، اور شبابِ بے داغ کا منظر تھا تو ضربِ کاری شیران غاب سے بڑھا رہی تھی اور فطرت ایسی صالح کہ غزال تاتاری شرمائیں۔ ۔۔۔۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
اگر ہو صُلح تو رعنا غزال تاتاری
عبداللہ، آپ کے والد کہ جو صرف پچیس برس کی عمر میں رخصت ہوئے، ان کی یادیں اب بھی مکہ والوں کے دلوں کو نہال کرتی تھی کہ سبب یہی رہا کہ نہایت خوبصورت جوانی میں وہ رخصت ہوئے تھے۔
بی بی آمنہ نے بے سبب تو نہیں کہا تھا کہ
وما ترکت فی الناس مثل ابن ھاشم
عبد اللہ جیسا بنی ہاشم نے کوئی نہ پیچھے چھوڑا ۔
آج بیٹا باپ کی عمر کو پہنچ گیا اور حسن و جوانی اور خصائص و خصائل میں باپ سے کہیں بڑھ کر تھا ۔
جی ہاں ! ہمارے حضور قبیلے کی آنکھ کا تارا تھے ۔
اہل مکہ کہنے گو دین براہیمی سے تعلق رکھتے تھے لیکن بگاڑ کی یہ صورت تھی کہ بیت اللہ میں تین سو ساٹھ بت نصب کر رکھے تھے ۔ حتیٰ کہ صحن کعبہ میں بھی کچھ بت سجا رکھے تھے ۔ یہ دو بت اوساف اور نائلہ کے تھے کہ جو تانبے کے بنے ہوئے تھے۔ دوران طواف جیسے آج مسلمان رکن یمانی کو چھوتے ہیں یہ طواف کرتے بیچ میں ان بتوں کو ہاتھ لگاتے گزرتے ۔
زید بن حارثہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ میں نے بھی طواف کیا ۔ جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو میں نے بھی چھو لیا ۔ ہمارے حضور نے فرمایا :
“اسے مت چھوو”
زید کہتے ہیں “ہم طواف ہی کر رہے تھے کہ میں نے دل میں کہا دوبارہ چھوتا ہوں کہ دیکھو کیا ہوتا ہے ،سو میں نے پھر چھوا ”
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” کیا تو رکتا نہیں ”
زید کہتے ہیں :
“اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبوت سے سرفراز کیا اور آپ پر قرآن اتارا آپ نے کبھی بت کو نہیں چھوا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو رسالت سے سرفراز فرما دیا ۔
آپ کو یاد ہوگا نا ، جب ابو طالب کے ساتھ سفر شام میں بحیرا راہب نے آپ سے ملاقات کی تھی ۔اس نے بھی آپ سے جب سوال پوچھے تو یوں کہا تھا :
“اے محمد میں آپ کو لات ، منات و عزیٰ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں”
تو آپ نے تب بھی فرمایا تھا :
“مجھے ان کا واسطہ دے کر نہ پوچھ ، میں ان کے واسطوں کو نہایت برا سمجھتا ہوں ”
شباب یوں بے داغ تھا کہ ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول کچھ اس طور پر عالم شباب میں پہنچے کہ جیسے ہر طرف اللہ کی حفاظت و اعانت کی دیواریں تھیں ۔ آپ اہل مکہ کے اس دور جاہلیت کی غلط عادات سے بھی محفوظ و مامون تھے ، یقیناً اس لیے کہ کل کو دنیا کی امامت اور رسالت کے فرائض آپ کے سپرد ہونا تھے ۔ ہمارے حضور جب جوان تھے تو اپنی قوم سے مروت و انسانیت میں افضل تر تھے۔ اخلاق اعلی تھے۔ حسب و نسب اور شرافت میں برتر اور بہترین تھے۔ آداب محفل، دوسروں سے ملنا، مزاج میں تحمل ، راست بازی۔ ہر ہر خوبی اپنے کمال کو پہنچی ۔
ساتھ ہی ساتھ اہل مکہ کی معروف برائیوں سے بھی کوسوں دور تھے۔ یہی سبب تھا کہ آپ امین تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ کو صادق کہا جاتا تھا۔
شباب یوں بے داغ تھا کہ آسمان نے ایسے منظر کم ہی دیکھے ہوں گے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے کہ ایک بار کعبہ کی تعمیر و مرمت کا مرحلہ درپیش ہوا سارے مکے والے جمع تھے۔ آپ اپنے دوست اور چچا عباس کے ہمراہ پتھر لیے چلے آ رہے تھے۔ مکہ کے سارے لڑکے بالے وہاں موجود تھے ۔ سیدنا عباس نے رسول اللہ ﷺ کو کہا :
“اپنا تہبند اتارو اور کندھے پر ڈال دو کہ پتھروں کی رگڑ سے محفوظ رہے گا، اور پھٹے گا نہیں ”
بات بے بات برہنہ ہو جانا مکہ کے نوجوانوں کا بھی وہاں کچھ اتنا عجیب نہ تھا خواتین کے برہنہ طواف کی جہاں منتیں مان لی جاتی ہوں۔ اس روز بھی سب لڑکوں نے اپنے کپڑے بچانے کے لیے اتار چھوڑے تھے ۔ آپ نے بھی ایسا ہی کیا تو اسی وقت بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے ، آنکھیں آسمان کو لگ گئیں ۔ کچھ لمحے بعد ہوش آیا تو آپ نے اپنا تہبند طلب کیا اور تہبند باندھ لیا۔ یہ پہلی بار اور آخری بار تھا ۔
جی ہاں! شباب یوں بے داغ تھا
امام بیہقی بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ گانے بجانے کا بہت شوق کیا کرتے تھے ۔ داستان گوئی کی مجلسیں جمتیں ، نوجوان کہاوتیں سنتے اور سناتے، پرانے قصے کہانیاں سنائے جاتے ساتھ ساتھ موسیقی بج رہی ہوتی ۔ عمدہ شعر سننا اور عمدہ شعر کہنا تو قریش کا امتیاز تھا۔ ایک روز بکریاں چراتے ہوئے آپ مکہ میں آئے۔ پہلے ہی گھر میں گانے بجانے اور باجوں کی آواز تھی ۔ پوچھا
“یہاں کیا ہو رہا ہے ؟ “۔
بتایا گیا کہ فلاں شخص نے فلاں عورت سے شادی کی ہے، سو شادی کی مجلس ہے ۔ آپؐ بھی وہاں بیٹھے اور آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو مجلس ختم ہوئے جانے کتنا سمے بیت چکا تھا اور دھوپ سر پر آئی کھڑی تھی۔ شادی کی تقریب اگلے روز بھی جاری تھی سو پھر ادھر سے گزرے، وہاں بیٹھے اور پھر وہی کچھ ہوا جو پچھلے روز ہوا تھا۔
آپ فرماتے ہیں کہ :
“واللہ پھر اس کے بعد میں نے کبھی کسی ایسی مجلس میں شامل ہونے کا ارادہ تک نہ کیا حتی کہ اللہ نے مجھے نبوت سے سرفراز کر دیا”
شباب یوں بے داغ تھا کہ جبیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
“عرفہ میں میرا اونٹ گم ہو گیا میں اس کی تلاش میں نکلا تو میں نے دیکھا کہ آپ میدان عرفات میں موجود ہیں۔ میں کچھ حیران ہوا کہ یہ تو قریشی ہیں جو مکہ میں بیٹھے بیٹھے حج کر لیتے ہیں اور خود کو ممتاز سمجھتے ہیں کہ ہم عرفات میں نہیں جانے والے، یہاں پر کیوں کر ان کا قیام ہے۔”
یعنی یہ توفیق تھی جو ہمارے حضورؐ کو ملی کہ آپ شرک اور گناہوں سے ہی بعثت سے پہلے دور نہ تھے بلکہ دین ابراہیم و اسماعیل کے بھی قریب تر تھے ۔
ضرب یوں کاری کہ
حرب فجار کے وقت آپ کی عمر صرف بیس برس تھی اور آپ کے کفیل اول تایا زبیر زندہ تھے۔
جھگڑا یوں ہوا کہ عروہ رحال بن عتبہ نے نعمان بن منذر کے تجارتی قافلے کو پناہ دی تو براض بن قیس کہ جو بنی کنانہ کا تھا اور قریش کا حلیف تھا اور اس کی نعمان بن منذر سے دشمنی تھی۔
اس نے کہا کہ ” تو ہماری مرضی کے خلاف اس کو کیسے پناہ دے سکتا ہے ”
اس نے کہا ” تم تو کیا ساری مخلوق کی مرضی کے خلاف ہوا تو بھی پناہ دوں گا ”
کچھ دن بعد عروہ کسی کام سے باہر نکلا تو براض بن قیس کو موقع ملا اور اس نے عروہ کو حدود حرم میں قتل کر ڈالا۔ یہ ایک بڑا واقعہ تھا ذی القعدہ میں عکاظ کا میلہ 20 روز تک جاری رہتا ہے اور قریش اس میلے میں شریک تھے کہ خبر ملی براض نے عروہ کو قتل کر دیا تو وہ وہاں سے چلے آئے ۔
ہوازن کو ابھی علم نہ تھا لیکن کچھ ہی وقت میں جب ہوازن کو علم ہوا تو وہ تعاقب میں نکلے اور حدود حرم سے پہلے ان کو پا لیا۔ جنگ جاری تھی کہ قریش حدود حرم میں داخل ہو گئے تو ہوازن رک گئے۔
لڑائی کے بعض ایام میں ہمارے حضورؐ کہ جن کی ضرب کاری تھی وہ بھی شریک ہوئے۔ آپ کے چچاؤں نے آپ کو ساتھ لیا آپ خود فرماتے ہیں کہ
” میں دشمن کے پھینکے ہوئے تیر اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دے رہا تھا ”
اگر ہو جنگ تو شیرانِ غاب سے بڑھ کر
حتی کہ طے ہوا اگلے برس عکاظ کے میلے پر پھر جنگ ہوگی ۔قصّہ طویل ہے لیکن مسلسل لڑائیاں شروع ہو گئیں، اور بہت عرصہ جاری رہیں ۔
اندازہ کیجئے کہ عرب کا کیسا ماحول تھا کہ جنگ بندی بھی اگلی جنگ کی تاریخ طے کر کے ہو رہی ہے ۔ اگلے میلے سے پہلے عتبہ بن ربیعہ نے صلح کا ڈول ڈالا ۔ ہوازن نے اس کی تائید کی دونوں نے ایک دوسرے کی دیتیں معاف کیں ۔
پھر اسی دور میں ایک اور واقعہ پیش آیا کہ جو تاریخی معاہدے “حلف الفضول” کا فوری سبب ہوا کہ ایک شخص مکہ میں سامان تجارت لایا جسے عاص بن وائل نے خرید لیا لیکن قیمت ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ تو اس نے کوہ ابی قیس پر چڑھ کر قریش
مکہ کو اشعار کی صورت میں پکارا :
اے آل فہر ! ایک بے سہارا مظلوم کی مدد کرو کہ اس کا سرمایہ مکہ میں (چھن گیا ) ہے اور وہ پراگندہ حال ہے ۔
یہ سن کر زبیر بن عبدالمطلب کھڑے ہوئے کہ اس کی پکار رائیگاں نہ جائے گی اور پھر سارے سردار عبداللہ بن جدعان کے مکان پر اکٹھے ہوئے اور سب نے ایک پختہ معاہدہ کیا کہ جب تک شہر قائم ہیں اور سمندر کا پانی تر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہ معاہدہ قائم رہے گا۔۔۔۔
عبداللہ بن جدان کے گھر میں بیٹھ کر ایک معاہدہ ہوا ۔
کیا کمال معاہدہ تھا کہ
منافع اس کے حقدار کو دیا جائے گا ،
ظالم کا ظلم برداشت نہ کیا جائے گا ،
ستم گر ستم رسیدہ پر غالب نہ آنے دیا جائے گا ۔
یہ معاہدہ بعثت نبوی سے بیس برس قبل طے ہوا اور اس معاہدے کے بانی اور محرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تایا زبیر تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اس معاہدے کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تو میں پھر بھی اس کو نہ توڑوں گا۔ آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ:
“جب یہ معاہدہ ہوا تھا میں اس کا حصہ تھا”
اگر ہو صُلح تو رعنا غزال تاتاری
اندازہ کیجئے کہ صرف بیس برس کا نوجوان اور دوسری طرف مکہ کے بڑے بڑے سردار اور دوسرے قبائل کے سردار سب مل بیٹھے ہیں، یوں جانیے کہ عبدمناف کی ساری اولاد بیٹھی تھی۔ ہر ایک نے قسم کھائی، ایک پیالے میں خوشبو ڈالی اس میں ہاتھ ڈبو کر باہمی تعاون پر حلف لیا پھر سب بیت اللہ کے کونوں کو نکلے، گوشوں کو چھوا اور معاہدہ قائم کیا گیا۔
قریش مکہ نے اس معاہدے کو حلف الفضول کا نام دیا مراد یہ کہ اُنہوں نے یہ ایک نہایت افضل کام کیا ہے۔
اور ان سب بڑے بڑے سرداروں کے بیچ ہمارے بیس برس کے حضورؐ بھی شریک معاہدہ ہیں کہ
” وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا ”
صلی اللہ علیہ وسلم

ابوبکر قدوسی