سوال (3686)

کیا شعبان میں اعمال جو کہ پورے سال میں کیے ہیں، وہ آسمان پر اٹھائے جاتے ہیں؟ دلیل کے ساتھ وضاحت فرمائیں۔ جزاک اللّہ

جواب

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے آپ ﷺسے دریافت کیا اور کہا:

((يَارَسُولَ اللهِ لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْراً مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شعبان ))

’’عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میں نے کبھی آپ کو دوسرے مہینوں میں اتنے روزے رکھتے نہیں دیکھا جتنے آپ شعبان میں رکھتے ہیں؟‘‘

قَالَ: ((ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَ رَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تَرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ فَأَحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِم)) (سنن نسائی:2357)

’’تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ مہینہ جو کہ رجب اور رمضان کے درمیان آتا ہے۔ اس سے لوگ غافل ہیں، یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی کی طرف اعمال اٹھائے جاتے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ تعالی کی طرف اٹھائے جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے سوال کے جواب میں آپ ﷺ نے شعبان میں کثرت سے روزے رکھنے کا سبب بیان کرتے ہوئے جو بات بیان فرمائی اس میں تین چیزیں بیان فرمائیں: ایک تو یہ کہ یہ مہینہ جو رجب اور رمضان کے درمیان پڑتا ہے لوگ اس سے غافل ہیں، یعنی اس کی اہمیت سے غافل ہیں۔ دوسری چیز یہ کہ اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اللہ تعالی کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ اور تیسری چیز یہ کہ آپ سے امام کا اس بات کو پسند فرمانا کہ جب آپ کے اعمال اللہ تعالی کی طرف لے جائے جائیں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔
شيخ الباني رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ میں حسن ذکر کیا ہے۔

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

اس روایت کو معاصر محققین سے شیخ البانی رحمه الله تعالى، شیخ زبير على زئى رحمه الله تعالى، شیخ شعیب الأرنووط وغیرہ نے حسن قرار دیا ہے۔ مگر جہاں تک میری تحقیق و فھم ہے وہ کہتا ہے کہ اس کو حسن قرار دینا محل نظر ہے، کیونکہ ثابت بن قیس أبو الغصن راوی صدوق تو ہے مگر حافظ و ضابط نہیں تھا اور اوپر سے قلیل الحدیث بھی ہے، امام ابن حبان نے الثقات میں ذکر کرنے کے باوجودِ اس کے ضبط وحفظ کے بارے میں یوں خبر دی ہے۔

ﻭﻛﺎﻥ ﻗﻠﻴﻞ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻛﺜﻴﺮ اﻟﻮﻫﻢ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﺨﺒﺮﻩ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﺘﺎﺑﻌﻪ ﻏﻴﺮﻩ ﻋﻠﻴﻪ [المجروحین لابن حبان: 167]

امام ابن حبان کی جرح مفسر ہے اور قابل غور ہے کہ اس نے جو کچھ بیان کیا ہے اس میں یہ کثرت اوھام کا شکار ہوا
اور جب تک اس کی خبر پر کوئی ثقہ حافظ راوی متابعت نہ کر دے تو تب تک اس کی خبر سے احتجاج نہیں کیا جائے گا۔
امام ابن عدی نے کہا:

ﻭﻫﻮ ﻣﻤﻦ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، [الکامل لابن عدی :2/ 293]

یہ کلام بھی اس کی روایت کے قبول نہ کیے جانے پر دلالت کرتی ہے۔
امام حاکم نے کہا:

ﻟﻴﺲ ﺑﺤﺎﻓﻆ ﻭﻻ ﺿﺎﺑﻂ، [سؤالات السجزي للحاكم: 75، إكمال تهذيب الكمال: 3/ 83]

امام بزار نے کہا:

ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺃﺑﻮ اﻟﻐﺼﻦ ﺣﺎﻓﻈﺎ، [كشف الأستار عن زوائد البزار: 1946]

مغلطائی نقل کرتے ہیں:

ﻭﺫﻛﺮﻩ ﺃﺑﻮ اﻟﻌﺮﺏ، ﻭاﻟﻌﻘﻴﻠﻲ، ﻭﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ اﻟﺒﻠﺨﻲ، ﻭاﻟﺴﺎﺟﻲ ﻓﻲ ﺟﻤﻠﺔ اﻟﻀﻌﻔﺎء [إكمال تهذيب الكمال: 3/ 83]

یعنی حافظ وضابط نہ ہونے کے سبب یہ روایت حدیث میں ضعیف ہے۔ امام یحیی بن معین سے تضعیف والا قول راجح ہے یا ضعیف کہنے سے ان کی مراد غیر ضابط بتانا ہے۔ تو اس طرح کے راوی کی روایت اس طرح کے مسئلہ میں تفرد کی صورت میں قابل قبول نہیں ہے ہاں کوئی ثقہ حافظ راوی متابعت کر دے تو تب ایسے راوی کی روایت قبول کی جائے گی۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ