سوال (31)
شیخ صاحب کیا شادی بیاہ کے موقع پر گھر میں لائٹنگ کرسکتے ہیں یا نہیں؟نیز یہ بھی بتائیں کہ اس پر کوئی نص وارد ہوئی ہے یا نہیں ؟
جواب:
ہر بات پہ نص تو موجود نہیں ہوتی ہے عمومی ادلہ ، فہم سلف ، امت کا متواتر عمل یا ان کے علاؤہ اور جو اصول اور قواعد مرتب کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بھی کچھ چیزوں کا فیصلہ اثبات اور نفی میں کیا جاتا ہے ۔ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ لائیٹ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھی کہ وہاں سے لائیٹنگ کی دلیل لی جاسکے ، لہذا لائیٹ جو ہے وہ دین کے درجے میں نہیں ہے ، اس کا تعلق ایجادات میں سے ہے ۔ اب شادی وغیرہ کے حوالے سے لائیٹنگ کا اہتمام تو اضافی ہے یہ کوئی مستحسن عمل نہیں ہے ۔البتہ ہمارے عرف میں اس چیز کو قبول کیا گیا ہے ، مجھے یہ اندازہ نہیں ہے کہ ہم نے یہ غیر مسلموں سے لیا ہے یا یہ اسلام کے منافی ہے ۔ عرف بھی شریعت میں حجت ہوتا ہے ، جب واضح نصوص ، اشارۃ النص اور ان کے علاوہ جتنے بھی رولز بنائے گئے ہیں وہ خاموش ہوں تو عرف اور رواج کی بھی کوئی حیثیت متعین ہوجاتی ہے ۔ جیسا کہ فقہاء نے صراحت کی ہے کہ عرف اس وقت جائز ہوتا ہے جب غیر مسلموں سے نہ لیا گیا ہو اور اسلامی تعلیمات کی منافی نہ ہو ۔ شادی بیاہ کے موقعے میں لائیٹنگ کے حوالے سے کوئی سختی اور نکیر میرے علم کے مطابق تو نہیں آئی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا عرف ہے ۔ جس طرح کے نکاح اور ولیمے موقعے کے اوپر مختلف قسم کے لڑکی اور لڑکے کا لباس ہوتا ہے اور ولیمے میں کس کس طرح کے کھانے ہوتے ہیں، یہ سب ہمارا عرف ہی ہے ۔اس چیز کو بہرحال میں اس نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عرف ہی ہے ۔ اس کو جواز کا درجہ حاصل ہے اگرچہ ترک اولی ہوگا لیکن اس میں کوئی سختی والی بات نہیں ہے۔
نوٹ : اس میں اسراف کا پہلو نہ ہو جیسا کہ ہمارے ہاں تین دن پہلے اور تین دن بعد لائیٹنگ ہوتی ہے یہ اسراف ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ