سوال (2360)
ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی اور بعد میں اس شخص کی بھابھی نے کہا کہ میں نے تو آپ کی بیوی کو دودھ پلایا تھا، میں اس کی رضائی ماں ہوں تو یہ آپ کی رضاعی بھتیجی لگی، تو کیا کرنا چاہیے اس آدمی کو، کیا یہ نکاح صحیح ہے؟
جواب
اس سے ملتی جلتی ایک صورت میں رسول اللہ نے زوجین میں تفریق کروا دی تھی۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
اگر وہ سگے بھائی کی بیوی ہے تو اس مسئلے میں اس مسئلے کی جانچ پڑتال ہو کہ واقعتاً اس نے دو سال کے اندر پانچ مرتبہ دودھ پلایا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی لڑکی سے شادی کی تھی۔ ایک خاتون آئیں اور کہنے لگیں کہ عقبہ کو بھی میں نے دودھ پلایا ہے اور اسے بھی جس سے اس نے شادی کی ہے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں کہ آپ نے مجھے دودھ پلایا ہے اور آپ نے مجھے پہلے اس سلسلے میں کچھ بتایا بھی نہیں تھا۔ پھر انہوں نے آل ابو اہاب کے یہاں آدمی بھیجا کہ ان سے اس متعلق پوچھے۔ انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے دودھ پلایا ہے۔ عقبہ رضی اللہ عنہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب کیا ہوسکتا ہے جب کہ کہا جاچکا، چنانچہ آپ ﷺ نے دونوں میں جدائی کرا دی اور اس کا نکاح دوسرے شخص سے کرا دیا۔ [ صحیح البخاری: 2640]
اس سے معلوم ہوا کہ رضاعت کے ثبوت کے لیے ایک مرضعہ کی گواہی کافی ہے، دونوں کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے گی۔
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ