سوال (5133)
شادی کے بعد لڑکی نام چینج کروا سکتی ہے؟ مطلب شوہر کا نام لگوا سکتی ہے، اپنے نام کے ساتھ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں؟
جواب
والد کا نام بدلنا یعنی نسبت توڑنا الگ چیز ہے، ممنوع ہے، صحیح حدیث سے لوگوں نے مسئلہ غلط ثابت کیا ہے کہ بیوی شوہر کا نام نہیں لگا سکتی، این اے سی پر حکومت کا ڈیمانڈ ہے کہ شوہر کا نام لگاؤ، قرآن مجید نے عورتوں کی نسبت شوہر کی طرف کی ہے، امراۃ لوط، امراۃ فرعون وغیرہ، حدیث سے بھی ثابت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب کے بارے میں فرمایا ہے کہ “ای الزیانب” کونسی زینب ہے، جگہ جگہ حدیث پر ہے، یہ پہچان کی نسبت ہے، یہ جائز ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ شناختی کارڈ والد کے نام کا ہے، ابھی حال میں ہی قانون آیا ہے، اس کو تبدیل کرنا ضروری نہیں ہے، پہلے نام لکھا ہوتا ہے، پھر والد اور شوہر کا نام ہوتا ہے، پہلے نام فاطمہ تھا، والد کا نام افضل تھا، فاطمہ افضل تھا، شادی کے بعد فاطمہ افضل سے ہٹا کر فاطمہ اور آگے شوہر کا نام رکھ دیتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
درست موقف:
عورت کے نام کے ساتھ کوئی دوسرا نام اضافہ کرنے کا مطلب کیا ہے؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے اس کو دو صورتوں میں تقسیم کر لیں۔
پہلی صورت:
نام ساتھ لگاتے ہوئے دونوں کے مابین رشتے کی صراحت ہو، مثلا یوں کہا جائے: عائشہ بنت عبد اللہ، عائشہ زوجہ عبد الرحمن۔ تو ایسی صورت میں آپ صحیح رشتے کی وضاحت کے ساتھ نسبت چاہے باپ کی طرف کریں یا خاوند کی طرف، کوئی حرج نہیں۔ اور یہ دونوں مثالیں قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ بلکہ صرف باپ یا شوہر ہی کیا، حسب ضرورت کسی اور رشتہ دار کی طرف بھی نسبت کی جاسکتی ہے۔
دوسری صورت:
عورت کے نام کے ساتھ مرد کا اضافہ کرتے ہوئے رشتے کی صراحت نہ ہو، مثلا یوں کہا جائے، عائشہ عبد اللہ، عائشہ عبد الرحمن۔
یہ بات ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ رشتہ کی صراحت کے ساتھ دونوں طرف نسبت جائز ہے، گو یہاں مسئلہ رشتے کی وضاحت حذف کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔
اب ایسی صورت حال میں ہم ’’عرف‘‘ یعنی ’’رائج الوقت‘‘ سے مدد لیتے ہیں۔
اس صورت میں عرب خاوند کا نام ساتھ لگانے کو درست نہیں سمجھتے، کیونکہ ان کے ہاں یہ عرف ہے کہ آدمی یا عورت کے نام کے ساتھ بغیر کسی وضاحت کے دوسرا نام باپ کا نام تصور کیا جاتا ہے، تیسرا نام دادا کا تصور کیا جاتا ہے۔
مثلا: فاطمہ محمد عبد اللہ
اس نام سے وہ یہی سمجھیں گے کہ عورت کا نام فاطمہ، محمد والد کانام، اور عبد اللہ دادا کا نام ہے۔
اسی لیے ان کے ہاں کئی سرکاری و غیر سکاری فارموں میں اندراج کے وقت یہ نہیں لکھا ہوتا کہ اپنا نام، باپ کا نام، دادا کانام لکھیں، بلکہ لکھا ہوتا ہے، اپنا ’’اسم ثلاثی‘‘ (یعنی تین حصوں پر مشتمل نام) لکھیں۔
جبکہ ہمارے ہاں بھی پہلے پہل تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ مرد یا عورت کے نام کے ساتھ دوسرا نام اس کے والد کا ہی ہوتا ہے، لیکن جب ہم ان لوگوں کےعادات وا طوار سے متاثر ہوئے جو عورت کے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگاتے ہیں تو ہماری اکثریت میں یہی رائج ہوگیا کہ جوان عورت کےنام کے ساتھ کسی دوسرے کا نام اس کے شوہر کا نام ہی سمجھا جاتا ہے، بلکہ اگر وہ باپ کا نام بھی لگاتی ہے، تو وہ لوگ اس کو شوہر ہی سمجھتے ہیں۔
گویا ہمارے عرف نے یہ تعیین کردی ہے کہ:
عائشہ محمد
سے مراد
عائشہ زوجہ محمد
ہے، لہذا یہ درست ہے۔ اور باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت پر وعید والی نصوص اس پر منطبق نہیں ہوتیں، کیونکہ یہ نسبت بطور باپ نہیں بلکہ بطور شوہر ہے اور بطور شوہر نسبت کی مثالیں خود قرآن وسنت اور اقوال صحابہ میں موجود ہیں۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہمارے ہاں کوئی عورت اپنے باپ کا نام ساتھ نہیں لگاسکتی، لگاسکتی ہے، اگر کوئی نام ساتھ لگانا ہی ہے تو باپ کا نام ساتھ لگالیں، اوراگر کوئی پوچھے تو وضاحت کردینی چاہیے کہ یہ والد کا نام ہے۔ واللہ اعلم ۔
ایک وضاحت: میری نظر میں اصل مسئلہ یہی ہے، اس سے ہٹ کر جو باتیں ہیں، مثلا عورت کو شوہر کا نام ساتھ نہیں لگانا چاہیے کہ اگر خدانخواستہ طلاق ہوئی تو پھر تبدیل کرنا پڑے گا وغیرہ، تو ان کا اصل مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، اگر طلاق کے خدشے کو مد نظر رکھ جائے، پھر تو شادی ہی نہیں کرنی چاہیے، اور اگر طلاق کے بعد دیگر کام ہوسکتے ہیں تو نام کی تبدیلی ان کی نسبت کوئی بڑامسئلہ نہیں۔ یہ اپنی اپنی آراء ہیں، نکتہ ہائے نظر ہیں، جن میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے نام کے ساتھ آگے کچھ بھی نہ لگایا جائے، جب کہ جہاں خاوند کی ضرورت ہے، وہاں خاوند کا نام ہو، جہاں والد کی ضرورت ہو والد کانام ہے، جس طرح شناختی کارڈ یا پاسپورٹ وغیرہ میں ہوتا ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ