سوال (5673)
شادی اور ولیمہ کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟ اور آج کا عام رائج طریقہ کس حد تک درست ہے؟
جواب
دینِ اسلام نے نکاح کے اصول اور قوائد بیان کر دیے ہیں، تو بس اس کی مخالفت نہ ہو۔ مزید یہ کہ کسی غیر مسلم کی مشابہت نہ ہو، اسراف نہ ہو، فضول خرچی نہ ہو، چیزوں کو دیکھ لیا جائے۔ مرد و زن کا اختلاط نہ ہو، سارنگی، موسیقی جیسے آلات نہ ہوں، تو یہ چیزیں سمجھا دی گئی ہیں۔
دینِ اسلام کی رُو سے نکاح ایک مقدس بندھن ہے، اسے جتنا آسان سے آسان بنایا جائے، ہر اعتبار سے، اُٹھانے بٹھانے کے اعتبار سے، کھلانے پلانے کے اعتبار سے، اخراجات کے اعتبار سے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “برکت والا نکاح وہ ہے جس کے اخراجات کم سے کم ہوں”، جس کا خرچہ کم سے کم ہو۔
تو بس یہ اصول دے دیا ہے، اس تناظر میں فیصلہ کریں۔ حق مہر آپ کی صوابدید پر ہے۔ اسی طرح بارات کا کوئی باقاعدہ تصور نہیں دیا گیا، لیکن ظاہر بات ہے، لڑکا اکیلا جا کے تو لڑکی کو نہیں لائے گا، تو جو بھی مختصر سے مختصر معاملہ ہو، وہ کر لینا چاہیے۔ اپنے عرف کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، کوئی حرج نہیں ہے۔ بس ایک دوسرے پر لوڈ ڈالنا، لڑکی والوں سے مطالبہ کرنا، یہ ناجائز ہے۔ نا جہیز کا مطالبہ ہو، نا ڈشوں کا۔
سہولت سے جو جس کو بلا لے، مہمان بلانے میں کوئی حرج نہیں۔ مہمانوں کا اکرام تو اسلام نے سکھایا ہے۔
اسی طرح ولیمہ: ولیمہ میں دینِ اسلام نے بتا دیا ہے کہ نکاح کے بعد ولیمے کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ خلوت ہو یا نہ ہو، صحبت ہو یا نہ ہو، ولیمے کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن عمومی طور پر تخلیہ کے بعد ولیمہ ہوتا ہے۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ صحبت بھی ہو، تخلیہ کافی ہوتا ہے۔ آج کل ایک ہی پروگرام میں دونوں ہو جاتے ہیں، تو یہ بھی درست ہے، اس اعتبار سے۔ اس میں بھی یہ ہے کہ مالداروں کو بلانا، غریبوں کو نہ بلانا ، اسے “شر الطعام” کہا گیا ہے۔ ولیمے کا بدترین کھانا وہ ہے جس میں غریبوں کو نہ بلایا جائے۔
اس میں بھی اسراف نہ ہو، باقی وہی چیزیں، جیسے برات میں، اسپیشلی طور پر کہ اتنے ہی مدعو کرنے ہیں، اور پھر لین دین کا معاملہ ہو، تحفے تحائف جائز ہیں۔ لیکن ایسا نہ ہو کہ ادارہ بن جائے ، جیسے کچھ لوگ باقاعدہ لکھتے ہیں کہ فلاں نے کیا دیا، پھر اس کی باری آتی ہے تو وہ کیا دیتا ہے۔ یہ چیزیں صحیح نہیں ہیں۔
خوشی کا موقع ہے، اچھا کھانا کھلا سکتے ہیں، ایک سے زیادہ دن بھی ولیمہ ہو سکتا ہے، لیکن اسراف نہ ہو۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ