سوال (524)

کیا شادی شدہ بیٹے یا بیٹی کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟

جواب

عام قاعدہ یہ ہے کہ اصول و فروع ایک دوسرے کو یعنی والدین بچوں کو اور بچے والدین کو زکاۃ نہیں دے سکتے ہیں ، لیکن کوئی خاص صورت بن جائے جیسے قرض وغیرہ تو قرض کی صورت میں اس کو دے سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
“کیا انسان اپنی اولاد کو زکاۃ دے سکتا ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“اس میں تفصیل ہے، چنانچہ اگر والد اپنی اولاد کو زکاۃ اس لیے دینا چاہتا ہے کہ اسے اولاد کا خرچہ نہ دینا پڑے تو یہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر والد اپنے بیٹے کی طرف سے قرض اتارنا چاہے تو قرض اتار سکتا ہے، مثلاً: بیٹے نے کسی کی گاڑی کو ٹکر ماری اور حادثہ ہو گیا، اور دوسری گاڑی کا خرچہ 10000 ہزار ریال بنا تو والد اس حادثے کی وجہ سے 10000 ریال اپنی زکاۃ سے دے سکتا ہے”
[مجموع فتاوى الشیخ ابن عثیمین : 18/508، 18/415]
فقروفاقہ کی صورت میں والد اپنی شادی شدہ بیٹی کو زکوٰۃ کا مال دے سکتا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ “ایک شخص یزید نے صدقہ کا مال مسجد میں رکھا تاکہ کسی حق دار کو دے دیا جائے۔ اتفاقاً بیٹے نے آکر اٹھا لیا۔ باپ کو پتہ لگا تو کہا

“وَاللّه مَا اِیَّاکَ اَرَدْتُّ”

«اللہ کی قسم میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا»
جب رسول اللہﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو فرمایا:

“لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْد وَ لَكَ مَا اَخَذْتَ یَا مَعْن” [صحیح البخاری: 1422]

«یعنی یزید تیرے لیے وہ کچھ ہے جو تو نے نیت کی ہے اور اے معن حاصل کردہ مال کا حقدار تو ہے»
مذکورہ حدیث میں تصریح لڑکے کی ہے لیکن بحیثیت اولاد دونوں کا حکم یکساں ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ خاوند کسب سے عاری ہو۔ یا لاپتہ ہو یا وفات پا چکا ہو وغیرہ وغیرہ۔
[فتوی حافظ ثناءاللہ مدنی : ج : 3 کتاب الصوم صفحہ 325]

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ