شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بعض آراء

 

 اہل بیت کی محبت:

”اہل بیت کی محبت ہمارے نزدیک واجبی فرض ہے اور بندے کے لیے باعثِ اجر ہے۔“
[مجموع الفتاوی: 4/ 487]

مظلومانہ شہادت:

”اہل السنہ والجماعہ کا اتفاق ہے کہ سیدنا عثمان و علی اور حسین رضی اللہ عنہم تینوں کی شہادت مظلومانہ تھی، سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما کے متعلق تو صحیح احادیث ہیں کہ وہ شہید اور جنتی ہیں، بلکہ سیدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے (جنتی ہونے کے) متعلق بھی (صحیح احادیث) موجود ہیں۔“
[جامع المسائل: 6/ 255]

”آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت بڑا تکلیف دہ سانحہ ہے، حسین رضی اللہ عنہ اور ان سے قبل سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت اس امت کی بڑی آزمائشوں میں سے ہیں اور ان دونوں کو شہید کرنے والے اللہ تعالی کے ہاں بد ترین لوگ ہیں۔“
[مجموع الفتاوی: 3/ 411]

”اللہ تعالی نے حسین رضی اللہ عنہ کو شرفِ شہادت سے نوازا جس طرح اہل بیت کے دیگر اشخاص پر عنایت کی تھی اور سیدنا حمزہ، جعفر اور ان کے والد گرامی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہادت کے مرتبے پر فائز کیا تھا۔“
[مجموع الفتاوی: 25/ 302]

”حسین رضی اللہ عنہ مظلوم شہید کیے گئے ان کے قاتلین ظالم و سرکش تھے۔“
[جامع المسائل: 6/ 259]

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نکلنے کا مقصد:

”حسین رضی اللہ عنہ لڑائی کے لیے نہیں نکلے تھے، بلکہ ان کا خیال تھا کہ لوگ ان کی اطاعت کر لیں گے، البتہ جب انہوں نے دیکھا کہ (کوفی) لوگ مکر گئے ہیں تو انہوں نے وطن واپس جانے یا سرحد پر جانے یا یزید کے پاس جانے کا مطالبہ کیا۔“
[منہاج السنہ: 4/ 42]

آپ رضی اللہ عنہ کی تدفین:

”سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا جسد مبارک بالاتفاق کربلاء میں مدفون ہے۔“
[مجموع الفتاوی: 27/ 493]

”آپ کے جسد اطہر کا نہ تو مثلہ کیا گیا اور نہ ہی بعد میں آپ کی قبر مبارک کو کھودا گیا۔“
[مجموع الفتاوی: 27/ 482]

”آپ کو فرات کے قریب کربلاء میں شہید کیا گیا، وہیں آپ کی تدفین ہوئی البتہ سر مبارک کوفہ میں عبید اللہ ابن زیاد کے پاس لے جایا گیا۔“
[مجموع الفتاوی: 4/ 507]

 سر مبارک کو گھمائے جانے کا افسانہ:

”رہی یہ کہانی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر شام وغیرہ لے جایا گیا اور اسے گلیوں میں گھمایا گیا تو یہ جھوٹ ہے اسی طرح وہ روایات جن میں آتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سر کو یزید کے سامنے لایا گیا اور اس نے اپنی چھڑی سے اسے کریدا، وہ بھی سب ضعیف روایات ہیں، ان میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے۔“
[جامع المسائل: 6/ 260]

”آپ کے سر کو مصر لے جائے جانے والی بات بھی بالکل جھوٹ ہے، علماء کا اتفاق ہے کہ قاہرہ مصر میں جو دربار مشہد حسین کے نام سے ہے وہ بالکل باطل ہے، اس میں نہ تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر ہے اور نہ ہی کوئی دوسری چیز۔“
[ مجموع الفتاوی: 4/ 508]

”مزید یہ بات کہ آپ رضی اللہ عنہ کا سر، یزید کے پاس لے جایا گیا تھا تو یہ منقطع سندوں سے مروی ہے جن میں سے کوئی بھی ثابت نہیں، بلکہ انہی روایات میں بعض ایسی باتیں ہیں جن سے ان کے جھوٹ و من گھڑت ہونے کا پتا چلتا ہے، جیسا کہ ان روایات میں ہے کہ یزید نے اپنی چھڑی سے آپ رضی اللہ عنہ کے داندان مبارک پر کریدنا شروع کر دیا تھا اور اس وقت وہاں موجود بعض صحابہ جیسے انس بن مالک اور ابو برزہ رضی اللہ عنہما نے اس پر نکیر کی ، حالانکہ صحیح بخاری اور مسانید میں ہے کہ چھڑی سے کریدنے والا عبید اللہ بن زیاد تھا تو انہوں نے عبید اللہ کی جگہ یزید لگا دیا، در حقیقت عبید اللہ نے ہی آپ کے شہید کرنے کا حکم دیا اور اسی کے سامنے سر لایا تھا ۔ پھر بعد میں ابن زیاد بھی قتل کر دیا گیا تھا، اس بات کی مزید حقیقت یوں عیاں ہوجاتی ہے کہ اس واقعے کے وقت سیدنا انس اور ابو برزہ رضی اللہ عنہما شام میں نہیں تھے وہ تو عراق میں تھے۔“
[مجموع الفتاوی: 4/ 507]

 قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کا حکم:

”جس نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، ان کو شہید کرنے میں مدد کی یا اس پر راضی ہوا تو اس پر اللہ تعالی کی، فرشتوں کی اور تمام انسانیت کی لعنت ہے اس کی کوئی فرضی یا نفلی عبادت بالکل قبول نہیں۔“
[مجموع الفتاوی: 4/ 487]

یزید بن معاویہ کا کردار:

”سب لوگوں کا اتفاق ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو حسین رضی اللہ عنہ کے حق کا خیال رکھنے اور ان کے مقام ومنزلت کی تعظیم کرنے کی وصیت کی تھی۔“
[منہاج السنہ: 4/ 472]

”اگر یزید بن معاویہ کی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو جاتی تو وہ سب لوگوں سے بڑھ کر ان کے اکرام وتعظيم اور ان کے حق کا خیال رکھنے پر حریص ہوتا۔“
[جامع المسائل: 6/ 260]

اس کے باوجود یزید نے نہ تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم دیا، نہ آپ کا سر مبارک اس کے پاس لے جایا گیا اور نہ اس نے چھڑی سے آپ کے چہرے پُر انور کو کریدا بلکہ یہ عبید اللہ بن زیاد کی کرتوت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے، اسی طرح نہ تو آپ کا سر دنیا میں گھمایا گیا اور نہ ہی آل حسین رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک کو بھی قیدی بنایا گیا۔“
[جامع المسائل: 5/ 149]

”اہل نقل کا اتفاق ہے کہ یزید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم نہیں دیا، البتہ اس نے ابن زیاد کو لکھا تھا کہ انہیں عراق کی ولایت سے روکے۔“
[منہاج السنہ: 4/ 472]

”یزید نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا حکم نہیں دیا، اگرچہ قتل کرنے یا انتقام لینے کا حکم اس کا نہیں تھا لیکن اس نے انہیں بادشاہت میں منازعت سے روکنے کا حکم دیا یہی ایک اعتراض ہے جو یزید پر بنتا ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح کا اعتراض ہے جو اس کے اہل حرہ کے ساتھ سلوک پر ہے کہ جب انہوں نے بیعت توڑ دی تو ان پر قدرت کے بعد اس نے تین دن تک مدینہ کی حرمت کو حلال کیا۔“
[جامع المسائل: 6/ 261]

”یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا، اس کی اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی، عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں پیدا ہوا، کافر نہیں تھا، البتہ اس کے سبب شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا سانحہ پیش آیا، اہل حرہ کے ساتھ بھی اس نے جو کرنا تھا کیا، نہ تو صحابی تھا اور نہ ہی اللہ کے نیک اولیاء میں سے۔ اس کے متعلق عام اہل عقل و دانش اور اہل السنہ و الجماعہ کی یہی رائے ہے۔
یزید پر لعنت کے حوالے سے بھی تین گروہ ہیں، ایک گروہ اس پر لعنت کرتا ہے، دوسرا اس سے محبت کرتا ہے اور تیسرا گروہ نہ اسے گالیاں دیتا ہے اور نہ محبت کرتا ہے، یہ امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے معتدل مزاج اصحاب وغیرہ کا موقف ہے اور یہی تمام مسلمانوں کی رائے ہے۔“
[مجموع الفتاوی: 4/ 483، نیز دیکھئے جامع المسائل: 6/ 261]

ختم شد.

انتخاب و ترجمہ:

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ