“رسالہ مؤلفہ جناب مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کا نظرِ ناقص سے گزرا۔ جس نے اہلِ اسلام کو الحاد اور تحریف سے بچانے کی وجہ سے ممنون و مامون فرمایا۔ لا ریب فھم اعطیہ رجل مسلم کے زیور کی سجاوٹ اور پھبن سے بہ نسبت زمانۂ حال کی تالیفات کے جداگانہ جھلک دکھاتا ہے۔”

(14) مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کے قلم سے لکھی گئی شہادت القرآن کے نام سے یہ کتاب اس قدر مفید ثابت ہوئی کہ اہل علم نے اسے بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا اس حوالے سے ضیاءالحق نعمانی لکھتے ہیں۔ “زیر نظر کتاب شہادت القرآن مولانا سیالکوٹی کی ایک شاہکار تصنیف ہے۔ اس میں مرزائیت، قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی اور انکے حواریوں کی تحریرات اور خرافات کا ردّ کیا گیا ہے۔”

(15) اہل علم نے اس کتاب کو نہ صرف تحسین بلکہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کئی مدارس کے نصاب میں بھی مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کی شہادت القرآن کو شامل کیا گیا جس کا اظہار مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے خود ان الفاظ میں کیا ہے۔ “اہل علم نے اس کتاب ”شہادت القرآن“ کی جو قدر کی وہ ان کی زرہ نوازی اور علمی قدر دانی ہے۔ ورنہ میری نظر سے وہ اس قابل نہ تھی کہ اہل علم اسے اس طرح ہاتھوں ہاتھ لیتے اور قادیانی مناظرات میں زیرِ نظر رکھتے۔”

(16) صفحہ 27 مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی اس تصنیف کے اثرات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کتاب کے مندرجات میں کس طرح موضوع کو ہر پہلو سے دیکھا گیا ہے کہ کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے کہ جس کے متعلق تنقیص کا خیال ذہن میں پیدا ہو اسی لیے اہل علم نے اس کتاب کو بہت ہی مفید قرار دیا جیسا کہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی اس تحریر سے واضح ہے۔
“میں حضراتِ دیوبند کا خصوصیت سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی علمی قدر شناسی اور فراخ دلی کا علمی ثبوت دیا۔ خصوصاً مولانا مولوی حبیب الرحمٰن صاحب کا کہ وہ برابر اپنے طلباء اور محصلین اور زیر اثر شائقین کو اس کتاب کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔”

(17) صفحہ نمبر 27 اپنے اثرات کے لحاظ سے یہ ایک ایسی تصنیف ہے جس کے ما بعد مذہبی ادب پر گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی شہادت القرآن پڑھ کر ایک عام قاری کے ذہن میں جو اشکالات پیدا ہوتے ہیں ان کی تردیدکے لیے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی شہادت القرآن کافی ہے مرزا غلام احمد اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے درمیان بنیادی فرق استنباط واستدلال کا ہے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے بلاواسطہ ان دلائل سے استدلال کیا ہے جو مسیح علیہ السلام کی حیات سے متعلق ہیں جبکہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بلاواسطہ سوائے سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 117 کے کوئی ایسی آیت پیش نہیں کی جس سے یہ ثابت ہو کے مسیح علیہ السلام کی وفات ہوگئی ہے اور اب کوئی نیا مسیح موعود کسی نئے سراپے کے ساتھ پیدا ہوگا مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی طرف سے لکھی گئی یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ 1901 دوسرا اس کے دو سال بعد 1903 میں طبع ہوا دونوں ہی حصص میں حیات مسیح کے متعلق تمام تر اشکالات کا جواب دینے کی کوشش کی گئی جس نے بھی اس کتاب کو دیکھا دادتحسین دیے بنا نہ رہ سکا اس حوالے سے انیس سو انسٹھ میں اس کتاب کو مولانا عبدالقادر رائے پوری کی تحریک پر مجلس تحفظ ختم نبوت ملتان کی طرف سے شائع کیا گیا توکتاب کے حرف اول میں یہ بات بھی لکھی گئی۔
“اثبات حیات مسیح علیہ السلام کے عنوان سے حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی معرکہ آراء تصنیف محتاجِ تعارف نہیں۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ لگائیے کہ یکے بعد دیگرے چند مرتبہ اشاعت کے باوجود بازار سے نایاب ہو گئی اور پھر زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ احسن اتفاق سے کتاب کا ایک نسخہ شیخ المشائخ قطب العالم حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالقادر مدظلہ العالی کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو حضرت اقدس زید مجدہ نے موضوع کی عظمت، مضامین کی بلندی اور دلائل کی پختگی سے متاثر ہو کر اس کتاب کو مختلف مجالس میں بالاقساط پڑھوایا۔”

(18) صفحہ نمبر 13مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی جانب سے منصہ شہود پر آئی شہادت القرآن تحقیق کا ایسا نادر مجموعہ قرار پائی کہ اس میں دیے گئے ای حیات مسیح کے متعلق دلائل کا جواب فریق مخاطب کی جانب سے آج تک نہیں بن پایا مولانا کی زندگی میں شہادت الفرقان کے نام سے کتاب مولوی ظہور الدین اکمل کی طرف سے اس کے جواب میں آئی تھی وہ کیسی تھی اس کے متعلق مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رقمطراز ہیں:
“مرزا صاحب کی زندگی میں نہ تو ان سے اور نہ ان کے کسی ذی علم مرید سے ہو سکا کہ شہادت القرآن کا جواب لکھیں۔ آخر ان کی وفات کے کئی ماہ بعد ان ایک حواری مولوی ظہور الدین صاحب اکمل نے اس کے پہلے باب کا جواب بنام شہادت الفرقان چھپوایا۔ لیکن حقیقت میں وہ شہادت القرآن کا جواب نہیں۔ اسی لئے خود ان کی جماعت میں بھی اس کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اس کی وہ وجوہات ہیں، اول یہ کہ مولوی اکمل صاحب شہادت القرآن کے مطالب عالیہ اور لطائف علمیہ کو سمجھ نہیں سکے بلکہ جن امور کو بالتصریح بیان کیا گیا ہے ان کو بھی خیال میں نہیں رکھ سکے۔ بلکہ جو باتیں ان کی جماعت اور خود مرزا صاحب اس سے قبل مسئلہ حیات و مماتِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بیان کیا کرتے تھے وہی دہرا دی ہیں۔ حالانکہ شہادت القرآن میں اسن عذرات کا تردید صراحتہً یا اشارۃً موجود ہے۔ اور خدا کے احسان سے خاکسار نے اس کتاب کو خاص اسی خیال سے ایسی مضبوطی اور خوبی کے ساتھ لکھا تھا کہ مرزا صاحب قادیانی اور ان کی جماعت کے علماء اس کو جواب سے عاجز رہیں۔ دیگر اس خیال سے کہ جو کچھ قادیانیوں کی طرف سے اس کے جواب میں نکلے اس کا جواب بھی خود شہادت القرآن ہی ہو اور مجھے نیا جواب لکھنے کی ضرورت نہ پڑے۔”

(19) مرزا غلام احمد قادیانی اور مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی جانب سے چھوڑا گئے علمی ورثہ میں شہادت القرآن کو اہم حیثیت حاصل ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی شہادت القرآن سے ان کے معاندین نے بعض مقامات سے ان کے نظریات کے خلاف انہی کے نظریات کے خلاف استدلال کیا ہے مرزا غلام احمد قادیانی کی اس کتاب کو بہت سے مصنفین نے بطور دلیل پیش کیا ہے جن میں سے ایک تو ختم نبوت کا مسئلہ ہے اور دوسرا حیات مسیح علیہ السلام اس کتاب میں نہایت ہی صراحت کے ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی نے عقیدہ ختم نبوت کو تسلیم کیا ہے اس مقام کو مرزا غلام احمد قادیانی کے مخالفین نے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوائے نبوت کے خلاف بطور دلیل پیش کیا ہے اسی طرح اس کی ابتدائی سطور میں جس انداز سے حیات مسیح کی بات کی گئی اس سے یہ شائبہ گزرتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے قائل ہیں اور بعض مصنفین نے ان عبارتوں کو بھی اس کتاب سے بطور دلیل پیش کیا جبکہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی شہادت القرآن کو ہر دور میں ضروری اور اپنے دلائل کے اعتبار سے مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متبعین کے نظریہ وفات مسیح کے خلاف بنیادی حیثیت حاصل رہی شہادت القرآن مؤلفہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی بارے میں ڈاکٹر بہاؤالدین محمد سلیمان اظہر لکھتے ہیں:
“مولانا میر کی شہادت القرآن کو قبول عام حاصل ہوا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا جیسا کہ سب سے پہلے فتوی تکفیر میں اس کے لدھیانوی مصنف نے لکھا: “مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی جنہوں نے قادیانیت کی تردید میں بڑا کام کیا انہوں نے ایک کتاب قادیانیت کی تردید میں شہادت القرآن لکھی تھی جو ایک بڑا علمی اثاثہ تھا”

(20) مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی تصنیف شہادت القرآن نے ما بعد مذہبی ادب پر ایسے اثرات چھوڑے کہ یہ کتاب عقیدہ حیات مسیح کے حامیوں کے لیے ایک بہترین تحفہ ثابت ہوئی جبکہ عقیدہ حیات مسیح کے خلاف تیار کیے گئے مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین اس کا کوشش کے باوجود مؤثر جواب نہ لکھ سکے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے جب شہادت القرآن کا پہلا حصہ شائع کیا تو اخبار بدر قادیان کے نائب ایڈیٹر قاضی اکمل نے اس کا جواب لکھا جس کا جواب مولانا نے شہادت القرآن کے آئندہ ایڈیشن میں بطور حاشیہ لکھ دیا جسے مکتبہ نعمانیہ سے طبع ہونے والے نسخے میں بھی دیکھا جا سکتا ہے اور جب مولانا نے اس کتاب کا دوسرا حصہ شائع کیا جو مرزا صاحب ہی کی زندگی میں طبع ہوا تھا اور اس حصہ میں مرزا صاحب کے مزعومہ تیس قرآنی دلائل جو انہوں نے وفات مسیح کے ضمن میں دیے تھے کا جواب لکھا بعد از مرزا غلام محمد اور ان کے متبعین میں سے کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ اس کا جواب لکھ سکیں لہذا قادیانی اخبار بدر کے نائب اڈیٹر قاضی اکمل نے بدر قادیان کی اشاعت یکم مارچ 1911 میں “کام تو بہت ہیں پر کام کرنے والا بھی کوئی ہو” کہ عنوان کے تحت لکھا:
“میں نے جیسا شہادت القرآن اول کا جواب لکھا تھا میں حصہ دوم کا جواب بھی ضرور لکھ دیتا مگر مولوی مبارک علی صاحب نے مجھے کہا میں لکھ رہا ہوں پھر میں یہاں (قادیان) آگیا اور پھر رہتے رہتے رہ گیا۔”

(21)برصغیر میں بکرے تحریک ختم نبوت کے لٹریچر کو تحریک ختم نبوت کی صورت میں یکجا کرنے والے ڈاکٹر بہاول دین محمد سلیمان اظہر قاضی ظہور الدین کی اس تحریر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں
“قاضی ظہور اکمل کی تحریر سے واضح ہوتا ہے مارچ 1911تک الہامات مرزا مصنفہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری کا جواب نہیں لکھا جاسکا تھا اور مرزا صاحب اس کا جواب آپ نے ذمہ ادھار لے کر دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور بعد میں بھی کسی کو ہمت نہ ہوئی تھی اگر کسی نے (مثل عبداللہ احمدی وغیرہ) اپنے زعم میں کچھ لکھا تو انہیں قادیانی عوام اور محققین نے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور شہادت القرآن مصنفہ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا جواب بھی نہیں لکھا جا سکا۔

(22) شہادت القرآن کے نام سے دونوں مصنفین کی کتابیں آج بھی ذخیرہ ہائے کتب میں موجود ہیں اور حیات مسیح کے عنوان میں بنیادی مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں ان دونوں میں سے پہلے لکھی گئی کتاب میں پیش کیے گئے مرزا صاحب کے استدلال کی روشنی میں وفات مسیح کے حوالے سے آئندہ کے مذہبی ادب میں ایسے اضافے کیے جن میں شہادت القرآن میں پیش کیے گئے خیالات کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔جبکہ ان کے جواب میں آج تک جتنا بھی کام ہوا اس میں کسی نہ کسی حوالے سے مصنفین اور محققین مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی تصنیف شہادت القرآن سے مستفید ہوتے رہے مسلم قادیانی مناظرانہ اور تحقیقی ادب میں شروع سے اب تک یہ کتاب بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

 محمد بلال ربانی سیالکوٹی