جو زبان بچپن سے اب تک سیکھی، سنی، سمجھی اور بولی، شاید وہی درست نہیں۔ کم از کم آج کل کی اردو سن کے یہی احساس ہوتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے “فلاں چیز کو لے کے پریشان ہیں” جیسی اردو عام ہوتی جا رہی ہے. مجھے نہیں یاد کہ ہم نے “لے کے” کہا یا سنا ہو۔ اسی طرح اکثر لوگ “جڑے ہوئے ہیں” بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ کہاں سے آیا اور ایسا آیا کہ زبان زد عام ہو گیا. پہلے ہم کہتے تھے پتا چل جائے گا مگر آج کل لگ پتا جائیگا زیادہ استعمال ہوتا ہے. میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ زبان کا ارتقاء ہے یا زوال. اور بھی سنئے. پہلے ہم کہا کرتے تھے اب ہم بولتے ہیں. “میں نے بولا” کانوں پہ گراں گزرتا ہے. مگر ہر طرف اسی طرز کی اردو سنائی دیتی ہے۔
میں نے کئی بار اس موضوع پہ بات کی. کچھ لوگ ناراض بھی ہوئے۔ لیکن جو محسوس کیا کہ دیا۔ کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا کہ سب میری رائے سے اتفاق کریں اور کیوں کریں؟ سب کی اپنی انفرادی رائے ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ میں خوشی کو کھوشی کہہ کے خوش نہیں ہو سکتا. مجھ سے قیمت کو کیمت بھی نہیں کہا جاتا. یہ میری کمزوری ہے اور مجھے اس کا احساس ہے۔ مجھے کسی سے یہ پوچھتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے کہ آپ کہاں سے belong کرتے ہیں۔ اور شاید میں کبھی بھی یہ نہیں پوچھ سکتا کہ پیچھے سے آپ کہاں سے ہیں۔

کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اپنے پیچھے مڑ کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کروں۔ آج سے کئی سو سال پہلے جب نوکری شروع کی تو دفتر میں ایک خاتون تھیں جو اکثر یوں بات کرتی تھیں، “everyday میں remind کراتی ہوں مگر response زیادہ positive نہیں ملتا” . میں سوچتا کہ بی بی یا تو ادھر کی ہو جاؤ یا ادھر کی. اس بیچ کے معاملے میں ریسپانس پازیٹو تو نہیں مل سکتا. بس کبھی یہ کہنے کی مجال نہ ہوئی.
سوچتا ہوں اردو ایک مرتبہ پھر سے سیکھی جائے. آج کل کے معیار کے مطابق اپنی زبان کو ڈھالا جائے. مگر دل ہے کہ مانتا نہیں. یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ بے قراری کیوں ہے. کیا بڑھتی عمر کی نشانی ہے یا زبان سے جذباتی وابستگی؟ رب جانے! یہ سب باتیں ایک طرف، اصل میں ہم زبان سے دور ہو چکے ہیں۔ سب سے برا حال مجھ جیسوں کا ہے جو ایک جملہ بنا انگریزی مداخلت کے ادا نہیں کر سکتے. کسی اور کو کیا کہیں! ہم سب کا حال کچھ وہی ہے جو دلاور فگار نے کہا تھا….
ایک یونیورسٹی کے کسی سوٹ پوش سے
میں نے پوچھا کہ آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ
کہنے لگے جناب سے “مس ٹیک” ہو گئی
آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ!
میں نے زمانہء قدیم میں میٹرک کیا تھا۔ اسکول میں میرے انگریزی کے ایک استاد ایسے بھی تھے جو نصاب کی کتاب میں شامل نظمیں یا مضامین حرف بہ حرف اردو میں ترجمہ کر کہ سمجھاتے تھے۔ اور اسی زمانے میں اردو کے ایک استاد تھے جن کی گفتگو میں انگریزی رچی بسی تھی۔ ایسے میں اگر میں دونوں زبانوں کا ملغوبہ بنا کہ نہ بولوں تو کیا کروں؟ وہ تو بھلا ہو عارفہ زہرہ آپا یا ڈاکٹر عالیہ امام صاحبہ جیسے علمی، ادبی اور تہذیب یافتہ بزرگوں کا جن کی سحر انگیز گفتگو اردو کی طرف راغب کرتی ہے اور زبان سے لگاؤ اور محبت بڑھاتی ہے۔

زبان کی چاشنی اور شیرینی سے لطف اندوز ہونا ہو تو ان لوگوں کو سنئے. اسی طرح ہمارے ضیاء محی الدین صاحب تھے اور ہندوستان کے گوپی چند نارنگ. دونوں کی اردو الگ ہی لطف دیتی تھی. ایسے کئی لوگ ابھی باقی ہیں۔
میں ہرگز بھی مشکل الفاظ استعمال کرنے کا حامی نہیں ہوں۔ میں سہل اردو بولنے اور لکھنے کا قائل ہوں۔ کسی کو سہل بھی ثقیل لگے تو میں کیا کروں؟ خیر۔ بات یہ ہے کہ زبان سے رشتہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ زبان سے محبت کوئی جرم نہیں۔ یہ وہ جرم ہے جس کا شاید ثواب ہی ملے، گناہ ہرگز نہیں ملے گا۔ سو کر ڈالئے یہ جرم۔ بات صرف اردو کی نہیں، جو زبان بھی بولئے، محبت کے ساتھ بولئے۔ اس میں ذائقہ ہو، مہک ہو۔
بات کچھ طویل ہو گئی۔ اگر یہاں تک پڑھ لیا، تو سلام ہے آپ کے حوصلے کو۔ میں کبھی کسی سے نہیں کہتا کہ میری تحریر پڑھے۔ لیکن اگر پڑھنے کا اتفاق ہوا اور اس پہ طرہ یہ کہ پسند بھی آئی تو شکریہ اور دعائیں۔ اردو میٹھی زبان ہے، چکھئے تو!”

جنید زبیری