گزشتہ دنوں عید کی چھٹیوں کی ایک شام فضیلۃ الشیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ سے ملاقات کا شرف ہوا۔
دوران ملاقات شیخ محترم نے کئی ایک باتیں کیں جنہیں میں نے بطور نصیحت لیا۔
ان میں چند ایک پیش خدمت ہیں۔
1 سب سے پہلے فرمانے لگے میں تو آج کل “شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللّٰہ کی صحبت میں ہوں۔
ان کی یہ بات سنتے ہی بحثیت طالب علم مجھے دھچکا سا لگا پھر اچانک میری نظر پڑی تو شیخ صاحب کے ہاتھ میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللّٰہ کی کتاب ” غنیۃ الطالبین تھی۔
پھر مجھے کچھ اندازہ ہوا کہ شیخ محترم نے تو لاکھوں کی بات کردی ہے کہ میں شیخ عبدالقادر جیلانی کی صحبت میں ہوں کہاں شیخ عبدالقادر جیلانی اور کہاں آج پندرہویں صدی میں جینے والے ہم لوگ۔۔۔۔۔۔.
آج ہم لوگ صحبت صالحین کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔۔!
تو یہاں سے جو ایک قیمتی ترین بات سیکھنے کو ملی وہ یہ کہ اپنے اسلاف کی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو گویا یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ان کی صحبت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔
ایک بات کا یہاں اور اضافہ کروں کہ اسلاف کی کتابوں کا مطالعہ کرنا گویا ایسے ہی ہے جیسے ہم ان کے ذہنوں میں اتر کر علم کی وادیوں کی سیر کررہے ہیں۔
چند مشہور ائمہ کے نام یہاں ذکر کیے دیتا ہوں جن کی کتب سے بےحد نفع حاصل کیا جاسکتا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ
امام شافعی رحمہ اللہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ
امام وکیع بن جراح رحمہ اللّٰہ
امام امام حسن بصری رحمہ اللّٰہ
امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ
امام بخاری رحمہ اللہ
امام مسلم رحمہ اللہ
اصحاب السنن رحمھم اللہ
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
امام ابن قیم رحمہ اللّٰہ
امام ابن جوزی رحمہ اللّٰہ
امام ابن کثیر رحمہ اللہ
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ
وغیرہ۔
پھر شیخ محترم فرمانے لگے کہ میں نئی نسل کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ کتب بین بنو کتب بینی میں برکت ہے لیکن یہ کوئی بھی مسئلہ پیش آنے کی صورت میں فورًا موبائل سے تلاش کرنے لگتے ہیں جس سے کماحقہ فایدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔
پھر آخر ملاقات میں زیر نظر کتاب بطور تحفہ پیش کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اس موضوع کو پڑھنے اور عمل میں لانے کی آج بہت ضرورت ہے جس سے ہمارے اکثر طلبہ کورے نظر آتے ہیں۔
اور پھر دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا۔

حافظ ابن اصغر