فضیلةالشیخ مفتی عبدالعزیزبن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کا مختصر تعارف
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی عظیم المرتبت شخصیت عالم اسلام میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ مملکت سعودی عرب کے مفتی اعظم، دار الافتاء کے رئیس اور بے شمار اسلامی اداروں کے سربراہ تھے۔عصر حاضر میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اسلام کو جتنا فائدہ پہنچا ہے شاید ہی کسی اور عالم دین سے پہنچا ہو۔ پوری دنیا میں ان کے مقرر کردہ داعی ، ان کے مبحوث علماء کرام اور ان کے قائم کردہ مدارس و اسلامی مراکز کام کر رہے ہیں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے لیے جو القابات و خطابات استعمال کیے ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
عہد حاضر کے امام و مجدد، امام حدیث ، امام فن رجال، امام فقه، امام دعوت، امام کرم نفس و دست، امام نصیحت، امام سماحت، امام تواضع،
امام قناعت، امام تقوی، امام صلاح و اصلاح وغیرہ۔
● نام ونسب
آپ کا پورا نام ابو عبد اللہ عبد العزیز بن عبد الله بن عبدالرحمن بن محمد بن عبدالله آل باز ہے۔
● ولادت و نشات
علامہ ابن باز رحمہ اللہ نجد کے پایہ تخت الریاض میں 13 ذوالحجہ 1330ھ 1912 میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے اور سوائے حج و عمرہ اور موسم گرما میں تمام سرکاری۔اداروں کے الطائف چلے جانے کے وہاں سے کہیں نہیں گئے۔
● ابتدائی تعلیم
سب سے پہلے شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے قرآن کریم حفظ کیا اور اس کے بعد علماء کرام سے کسب علم کا آغاز کیا، کتاب وسنت کی طرف رغبت دلانے میں سب سے زیادہ ہاتھ ان کی والدہ کا تھا۔
● بینائی کا فقدان
اللہ کی قدرت و حکمت دیکھیے کہ ابھی سولہ برس کی عمر ہی ہوئی تھی کہ ایک بیماری کے نتیجہ میں بینائی کم ہوناشروع ہوگئی ان کی عمر تقریباً بیسں سال تھی، مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوگئے،لیکن حصول علم کےجذبہ میں ذرا برابر فرق نہ آیا بلکہ بصارت کے فقدان کے ساتھ بصیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔
● بے پناہ حافظہ
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے پہلے قرآن کریم حفظ کیا، پھر طلب علم کے دوران اللہ سے جو قوت حافظہ کی دولت پائی تھی اُسی کا نتیجہ ہے کہ صحیح بخاری و مسلم دونوں مکمل طور پر زبانی حفظ تھیں اس کے علاوہ بلوغ المرام، الفیہ ابن مالک، حافظ ابن حجر کی بعض مؤلفات اور شیخ محمد بن عبد الوہاب کی بعض کتب زبانی یاد تھیں۔جبکہ سنن اربعہ اور مسند احمد پر استحضار کچھ ایسا تھا کہ اگر کوئی موقع آتا تو ان کتب کی احادیث و متون، اسانید اور رجال اسانید پر محدثین کے کلام سمیت ذکر کیے چلے جاتے تھے۔
آپ انتہائی قوی الحافظہ اور حاضر دماغ تھے۔ ان کا آیات قرآنیہ اور احادیث کا یوں استحضار دیکھ کر تو یوں لگتا تھا کہ اگر آپ علامہ ذہبی کے زمانے میں ہوتے تو وہ ضرور اپنی معروف کتاب تذکرۃ الحفاظ میں آپ کے حالات بیان کرتے۔ان کی قوت حافظہ کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی تھوڑی سی جان پہچان والا دسیوں سال کے بعد بھی آکر ملتا اور سلام کہتا تو فوراً اُسے پہچان لیتے اور اس کا نام لے کر اُسے سلام کا جواب دیتے تھے۔
● شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے اساتذه عظام
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بڑے بڑے علماء و فضلاء کے آگے زانوئے ادب و تلمذ طے کیے اور ان سے کسب علم کیا۔
(1)شیخ محمد بن عبد اللطيف صاحب
(2) شیخ صالح بن عبد العزيز بن عبد الرحمن
(3)سماحة العلامہ الشیخ محمد بن ابراہیم بن عبد اللطيف
(4)شیخ سعد بن حمد بن علی بن عتیق
(5) شیخ محمد بن فارس بن محمد التیمی
(6)شیخ عبداللہ بن عبد اللطیف صاحب
(7)شیخ سعد بن وقاص بخاری صاحب
(8)شیخ محمد امین الشنقيطي صاحب
● تدریسی خدمات
1371 ھ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کے حکم پر المعہد العلمی الریاض میں تدریس شروع کی۔ اس کے بعد کلیۃ الشریعہ میں پڑھاتے رہے۔ آپ عقیدہ، حدیث، فقہ اور شیخ عبد اللطیف بن سرحان رحمہ اللہ کی آمد سے قبل نحو بھی پڑھایا کرتے تھے۔ تمام طالب علم آپ کے لیے برابر تھے، قدر صرف محنتی طلبہ ہی کی ہوتی تھی۔ علم الفرائض میں بھی آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی حتیٰ کہ اس موضوع پر تو آپ کی ایک مستقل کتاب “الفوائد الجلية في المباحث الفرضية“ ہے، دوران تدریس عموماً حدیث و فقہ کا ایک ہی باب پڑھاتے مثلاً حدیث میں اگرکتاب الزکاۃ پڑھا رہے ہوتے تو فقہ کی بھی کتاب الزکاۃ ہی ہوتی۔فقہ حنبلی کے دلائل کی روسے ایک مسئلہ طے کرتے اور جب حدیث کا سبق شروع کرتے اور دلائل حنبلی فقہ کی تائید کرتے تو واضح فرما دیتے اور اگر دلائل حنبلی فقہ کی تائید میں نہ ہوتے تو بلا تعصب مذہبی راجح مسلک کی طرف اشارہ فرما دیتے،اگر کوئی مسئلہ بحث و نظر کا طالب ہوتا تو مہلت مانگ لیتے اور اگلے دن تیاری کرکے وضاحت فرما دیتے۔
● نائب رئیس (وائس چانسلر ) مدینہ یونیورسٹی:
1381ھ میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ الشيخ محمد بن ابراہیم آل شیخ نے حکم صادر فرمایا: کہ آپ مدینہ منورہ منتقل ہوجائیں، آپ 1381ھ سے لیکر 1390ھ تک مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ جبکہ رئیس یا چانسلر خود مفتی اعظم تھے ۔
1390ھ میں جب الشيخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ وفات پاگئے تو ان کی جگہ مدینہ یونیورسٹی کے رئیس
(چانسلر) ہوگئے، اس منصب پر ہوتے ہوئے آپ کی چند باتیں قابل ذکر ہیں:
(1) آپ موقع بموقع مختلف کلاسز میں جانکلتے ، مشائخ و علماء کے دروس سنتے،بعض مواقف و نظریات کا تعاقب کرتے اور ان پر بڑے اچھے انداز سے تبصرہ کر کے وضاحت کرتے۔
(2) مدرسین کے اسٹاف روم میں پہنچ جاتے ، ان کی خیر وعافیت دریافت کرتے تعلیمی امور پر گفتگو کرتے اور لوجہ اللہ طلبہ کی مزید خدمت کرنے کی ترغیب دیتے۔
(3) ہر تعلیمی سال کے شروع اور آخر میں تمام مدرسین معاہد کا اجتماع عام ہوتا،اسی طرح اساتذہ جامعہ کا معاملہ تھا۔ سال ماضی کے تجربات کی روشنی میں سال آئندہ کے لیے پروگرام مرتب کیے جاتے۔
(4) آپ پہلے دار الحدیث میں جو کہ جامعہ اسلامیہ کے تابع ہے، ہر ہفتے مدرسین کی طرف سے مختلف موضوعات پر لیکچرز دلانے کا بڑا اہتمام کرتے جو امتحانات کے دنوں کو چھوڑ کر سارا سال جاری رہتے اور پھر یہی سلسلہ خود جامعہ میں بھی شروع کر دیا گیا۔ آپ عموما تمام لیکچرز میں خود حاضر ہوتے، نگرانی کرتے اور ہر لیکچر کے بعد اس پر تعلیق و تبصرہ فرماتے لوگ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کئی سوال پوچھ لیا کرتے تھے جن کے وہ بڑے جامع و مانع جواب دیا کرتے تھے۔
(5) شیخ ابن باز رحمہ اللہ اپنے دور میں پاکستان، انڈیا اور افریقہ وغیرہ کے مدارس و جامعات میں جامعہ اسلامیہ کی طرف سے مدرسین بھیجا کرتے تھے اور بعض ہونہار طلبہ کو دار الافتاء الریاض کی طرف سے مبعوث بنا کر دنیا کے مختلف ممالک میں دعوت و تبلیغ کے لیے بھیج دیتے تھے جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ چکی ہے۔
(6) مدینہ یونیورسٹی کی طرف سے ضخیم اسلامی کتابوں (مصادر و مراجع علمیہ ) کی تقسیم ہوتی، ملک کے اندر اور بیرونی ممالک تک کتابیں جہازوں کے ذریعے متلاشیان حق اور تشنگان علم کو بھیجی جاتیں، اس کام کی ذمہ داری نبھانے والے شعبہ کا نام آج کل مرکز شؤون الدعوة“ ہے۔ اس طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی توجہ اور کوششوں سے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی خدمات کا دائرہ پورے عالم تک وسیع ہوگیا جو کہ دراصل شیخ کی علمی خدمات کا دائرہ تھا۔
(7) 1381ھ میں جب جامعہ اسلامیہ کا افتتاح ہوا، اس وقت صرف ایک “معهد للدراسة الإعداديه و الثانوية اور صرف ایک “كلية الشريعة و علومها ہی تھا جبکہ شیخ کی کوششوں سے اب اس کے دو معہد، ایک شعبہ تعلیم لغت عربی برائے غیر عرب اور چار کلیات مزید کھل چکے ہیں:
1۔ كلية أصول الدين والدعوة۔
2۔ كلية القرآن الكريم۔
3۔ كلية الحديث الشريف وعلومه۔
4۔ كلية اللغة العربية و آدابها۔
5۔ كلية الشريعة۔
پانچ کلیات ( کالجز ) کے علاوہ ایم
اے اور پی ایچ ڈی (الدراسات العليا) کی کئی اقسام بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ سب کام شیخ کی زیر نگرانی ہوئے۔ بعض آپ کے وقت میں طے ہو گئے مگر ان کاافتتاح آپ کے ادارات البحوث العلمیہ والافتاء والدعوة والارشاد کے رئیس و مفتی اعظم بن کر الریاض چلے جانے کے بعد ہوا۔
● علامه ابن باز رحمہ اللہ بیک وقت
1۔ مفتی اعظم سعودی عرب تھے۔
2۔ ہیئة کبار العلماء کے رئیس تھے۔
3۔ بحوث علمیہ و افتاء کے رئیس تھے۔
4۔ رابطہ عالم اسلامی کی تاسیسی کمیٹی کے ممبر اور رئیس تھے۔
5۔ رابطہ کے تابع الجمع الفقہی الاسلامی (اسلامی فقہ اکیڈمی) کے رئیس تھے۔
6۔ مدینہ یونیورسٹی کی انتظامی مجلس اعلیٰ ( اعلیٰ تنظیمی کمیٹی) کے رئیس تھے۔
7۔ اسلامی دعوت کی اعلیٰ کمیٹی کے ممبر تھے۔
8۔ الندوة العالميه للشباب الاسلامی (وامی) کی مجلس شوری کے ممبر تھے۔
9۔ نوجوانوں کی تربیت و ترقی کے دائمی ادارے کے ممبر تھے۔
● شاہ فیصل عالمی ایوارڈ
شيخ ابن باز رحمہ اللہ کی جلیل القدر خدمات اسلام:
1۔ دعوت و تبلیغ کے مختلف میدانوں میں رنگا رنگ خدمات۔
2۔ اپنی زندگی اور دعوت میں فکری و عملی اور منہجی طور پر اسلام کی خالص تعلیمات کے التزام۔
3۔ علمی بحوث و دراسات، اسلامی تعلیم اور پوری دنیا میں اسلامی کتابوں کی نشر و اشاعت اور ترسیل و تقسیم کی وجہ سے ثقافت اسلامیہ کے ایک مینارہ نور ہونے۔
4۔ مختلف ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیےکوشاں رہنے۔
5۔ پوری دنیا کی جہادی تحریکوں کے ساتھ تعاون کرنے ۔
6۔ اور عالم اسلام و بلاد کفر میں کام کرنے والے اسلامی و تعلیمی اور دعوتی اداروں کے ساتھ خود بلا حدود تعاون کرنے اور علماء اسلام، اہل خیر و بِر تجار اورخیراتی تنظیموں کو ان کی مدد پر ابھار نے جیسے عظیم الشان کارناموں کےاعتراف کے طور پر شاہ فیصل عالمی ایوارڈ کمیٹی نے 1406ھ میں انھیں یہ عالمی اعزاز عطا کرنے کو اپنے لیے باعث شرف سمجھا۔
● شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے علمی دروس
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے عمر بھر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نےان دروس میں جن کتابوں کی شرح و تفسیر بیان کی وہ درج ذیل ہیں:
(1)صحیح البخاری۔
(2)صحیح مسلم۔
(3)سنن ابی داود۔
(4)سنن ترمذی۔
(5)سنن نسائی۔
(6)سنن ابن ماجه۔
(7)مسند احمد۔
(8)موطأ الإمام مالک۔
(9)سنن دارمی۔
(10)صحیح ابن حبان۔
(11)تفسیر ابن کثیر ۔
(12)السنن الکبری نسائی ۔
(13)ریاض الصالحین امام نووی۔
(14)فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ۔
(15)الأصول الثلاثه شیخ محمد بن عبد الوہاب۔
(16)الدرر السنية جمع و ترتیب ابن قاسم۔
(17)اغاثة اللهفان ابن قیم-
(18)العقيدة الواسطیہ امام ابن تیمیہ۔
(19)مثقی الاخبار علامہ مجد الدین ابن تیمیہ، جس کی شرح امام شوکانی نے نیل الاوطار“ کے نام سے لکھی ہے۔
(20)الفرائض۔
(21)اصول الاحکام ۔
(22)نخبة الفكر حافظ ابن حجر-
(23)الاستقامة-
(24)جلاء الافہام ابن قیم-
(25)بلوغ المرام ابن حجر۔
(26)الحموية ابن تیمیہ۔
(27)زاد المعاد علامہ ابن قیم ۔
(28)العقيدة الطحاوية-
(29)منار السبيل مع ارواء الغليل للالبانی ۔
(30)الصارم المسلول علی شاتم الرسول ابن تیمیہ۔
(31) كتاب التوحید شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب۔
(32) الرحبية۔
● شیخ محترم کے تلامذہ
شيخ ابن باز اللہ رحمہ اللہ نے الدلم، الریاض، مدینہ منورہ اور پھر الریاض میں لوگوں میں علم کے لعل وجواہر بانٹے ، لہذا ان چاروں جگہوں سے متعلقہ ان کے صرف معروف شاگردوں کا تذکرہ کرنے پر اکتفا کیا جائے گا۔
● أولاً: الدلم
1357ھ میں آپ الدلم میں قاضی بنا کر بھیجے گئے اور 1371ھ تک 14 سال وہاں اس عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران جن شخصیات نے استفادہ کیاان میں سے درج ذیل نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
1- معالی الشیخ راشد بن صالح بن خنین
2- معالی الشیخ عبد الله بن سلمان المسعری
3۔ معالی استاد عبد العزیز بن عبد الله السالم
4۔ شیخ محمد بن سلیمان آل سلیمان
5- شیخ عبد الله بن حسن القعود
6۔ شیخ محمد بن زید آل سلیمان
7- شیخ عبد الله بن عبدالرحمن الشعری
8- شیخ عبد الرحمن بن سمحان
9۔ شیخ حمد بن سعد بن حمد العتيق
10- شیخ سلیمان بن عبد الله بن حماد
11- شیخ محمد بن احمد بن سنان
12- شیخ عبد الرحمن بن ناصر البراک
● ثانياً : الرياض
1371ھ میں الریاض میں پہلے معہد الریاض العلمی میں ایک سال اور پھر کلیہ شرعیہ الریاض ( جو بعد میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کی شکل اختیار کرگیا) میں 7سال مدرس علوم شرعیہ (مدرس فقہ، حدیث اور توحید ) رہے، اس دوران کے طلبہ کے نام یہ ہیں:
13- شیخ زید بن عبد العزيز بن فیاض
14۔ شیخ محمد بن سلیمان الاشقر
15- شیخ حمود بن عبد الله العقلا
16- شیخ عبد العزیز بن محمد آل عبد المنعم
17- شیخ عبد الله بن عبد الرحمن الغدیان
18۔ شیخ ابراہیم بن حمد بن ابراہیم آل شیخ
19- شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن ادریس
20۔ شیخ علی بن سلیمان الرومی
21- شیخ عمر بن عبد العزیز بن متروک
22- شیخ فالح بن سعد آل مهدی
23- شیخ محمد بن صالح العثیمین
24- الشيخ حمود بن عبد العزيز السبيل
● ثالثاً : مدینه منوره:
علامہ ابن باز رحمہ اللہ 1371ھ میں نائب رئیس (وائس چانسلر ) جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی ہوئے جبکہ چانسلر آپ کے استاذ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ تھے لیکن ان کی وفات پر آپ 1390ھ میں چانسلر ہوگئے اور 1395 ھ تک اسی منصب پر فائز رہے، ان سالوں کے دوران کسب فیض کرنے والوں میں سے کچھ کے نام یہ ہیں:
25- شیخ ابراہیم بن عبد الرحمن الحصين
26- شیخ عمر محمد فلاته صاحب
27- شیخ محمد بن ناصر العبودی
28- شیخ سعد بن عبد الرحمن الحصين
29- شیخ علی محمد ناصر الفقیهی
30- شیخ عبد الرحمن عبد الخالق صاحب
31- شیخ عبد العزیز بن محمد بن ابراہیم
32- شیخ محمد بن بکری السمیری
33- شیخ بكر بن عبد اللہ ابوزید
34- شیخ علی بن محمد بن سنان
35- شیخ محمد بن قدومہ
36- شیخ علی مشرف العمری، سابق مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد،
● رابعاً: الرياض
علامہ ابن باز رحمہ اللہ: 14 شوال 1395ھ میں الرئيس العام لادارات الحوث العلمية والافتاء والدعوة الارشاد بنائے گئے تو الریاض میں دوبارہ آگئے اور محرم 1414 ھ میں سعودی عرب کے مفتی اعظم کے منصب پر فائز کر دیے گئے جس پر تاحیات قائم رہے۔ ان آخری پچیس سالوں کے تلامذہ میں سے بعض نام یہ ہیں:
37- شیخ فہد بن حمین صاحب
38- شیخ عبد العزیز بن عبد الله الراجحی
39- شیخ عبد الله القصير
40- شیخ عمر بن سعود العيد
41- شیخ خالد بن احمد الشریمی
42- شیخ سلطان بن عبد العزيز الخميس
43- شیخ عبد العزيز بن حمد المشعل
44- شیخ عبد الله بن عبد العزيز الخفير
45۔ شہید ملت علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ
● تألیفات و تصنيفات:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اسلام کے تمام پہلؤوں پر ضخیم کتابیں اور مختصر رسائل لکھے ہیں جو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر چھپ چکے اور چھپ رہے ہیں، ان کی کتب و رسائل کی فہرست کچھ یوں ہے:
ضخیم و متوسط حجم کی کتابیں :
1- الأدلة الكاشفة لأخطاء بعض الكتاب
2- الأدلة النقلية والحسية على إمكان الصعود إلى الكواكب وعلى جريان الشمس وسكون الأرض
3- إقامة البراهين على حكم من استغاث بغير الله أو صدق الكهنةو العرافين
4- الإمام محمد بن عبد الوهاب : دعوته و سيرته
5۔ بیان معنى كلمة لا اله الا الله
6- التحقيق والإيضاح لكثير من مسائل الحج والعمرة والزيارة على ضوء الكتاب و السنة
7- تنبيهات هامة على ما كتبه محمد علي الصابوني في صفات الله عزوجل
8- مجموعة ثلاثة رسائل
9- العقيدة الصحيحة و ما يضادها
12- الدعوة إلى الله
13- تنبيه هام على كذب الوصية المنسوبة إلى الشيخ أحمد
14- رسالتان هامتان
(وجوب العمل بالسنة و كفر من أنكرها۔
الدعوة إلى الله سبحانه و أخلاق الدعاة)
15- الرسائل و الفتاوى النسائية جمع و ترتيب شيخ أحمد بن عثمان الشمري
16- الفتاوى طبع مؤسسة الدعوة الإسلاميه الصحفية
17- فتاوی اسلامیہ ۔ ابن باز – ابن عثیمین ۔ ابن جبرين اللجنه الدائمه
للافتاء اس کی 23 جلد میں چھپ چکی ہیں
18- فتاوى تتعلق بأحكام الحج و العمرة و الزيارة
20- فتاوى المرأة لابن باز و اللجنة الدائمة
21- فتاوى مهمة تتعلق بالحج و العمرة
22۔ فتاوی و تنبیهات و نصائح
23- الفوائد الجلية في المباحث الفرضية (علم وراثت )
24- مجموع فتاوى و مقالات متنوعة ( ستائیس ضخیم جلدیں چھپ چکی ہیں اور آگے کام جاری ہے)
25- مجموعة رسائل في الطهارة والصلاة والوضوء
26- مجموعة الفتاوى و الرسائل النسائية
27- نقد القومية العربية على ضوء الإسلام و الواقع
28- وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
29۔ تحقیق و تعليق فتح الباري
30- شرح ثلاثة الأصول
● مختصر رسائل:
31- الأذكار التي تقال بعد الفراغ من الصلاة
32۔ إيضاح الحق في دخول الجني في الإنسي و الرد على من أنكر ذلك
33- التبرج و خطر مشاركة المرأة للرجل في ميدان عمله
34- التحذير من البدع الاحتفال بالمولد، الاحتفال بليلة الإسراءو المعراج، الاحتفال بليلة النصف من الشعبان
35- التحذير من القمار و شرب المسكر
36- التحذير من المغالاة في المهور والإسراف في حفلات الزواج
37- تنبيه هام على كذب الوصية المنسوبة للشيخ أحمد خادم الحرم النبوي ۔
38- نكاح الشغار
☆ ثلاث رسائل في الصلاة ☆
39۔ كيفية الصلاة النبي ﷺ
40۔ وجوب أداء الصلاة في الجماعة
41۔ أين يضع المصلي يديه بعد الرفع من الرکوع
42- الجواب الصحيح من أحكام صلاة الليل و التراويح
43- الجواب المفيد في حكم التصوير
44- حكم الإسلام فيمن زعم أن القرآن متناقض أو مشتمل على بعض الخرافات أو وصف الرسول الله بما يتضمن تنقصه أو الطعن في رسالته و الرد على الرئيس أبي رقيبةفيما نسب إليه من ذلك
45- حكم السفور والحجاب
46- حكم الصلاة على النبي الله والإشارة إليها بالحروف
47- حكم الغناء
48- حكم مقابلة المرأة للسائق و الخادم
49- خطر مشاركة الرجل للمرأة في ميدان عمله
50- الدروس المهمة لعامة الأمة.
51- رسالتان في الصلوة
52- رسالتان موجزتان عن أحكام الزكوة و الصيام
53- رسالة عن حكم شرب الدخلن
54- رسالة في إعفاء اللحى
55- رسالة في حكم السحر و الكهانة
56- رسالة في مسائل الحجاب و السفور
57- رسالة في وجوب الصلاة جماعة
58- رسائل في الطهارة والصلاة
60- السفر إلى بلاد الكفرة
61- عوامل إصلاح المجتمع مع نصيحة مهمة عامة
62- الغزو الفكري ووسائله
63- فتاوى في حكم الإسبال و حلق اللحى و التصوير و شرب الدخان
64- فتاوى و رسائل في الأفراح
65- فضل الجهاد والمجاهدين
66- ماذا يجب عليكم شباب الإسلام
67- مجموعة رسائل في الصلاة
68- موقف اليهود من الإسلام
69- نصيحة المسلمين و فتاوى بشأن الخدم والسائقين و خطرهم على الفرد والمجتمع
70- نصيحة و تنبيه على مسائل في النكاح مخالفة للشرع
71- هكذا حج الرسول ﷺ
72- وجوب تحكيم شرع الله و نبذ ما خالفه
73- في ظل الشريعة الإسلامية
74- وجوب لزوم السنة و الحذر من البدعة
75- دعوة للتوبة
76- أهمية العلم في محاربة الأفكار الهدامة
78- أصول الإيمان
79- لا دين حق إلا دين الإسلام
80- التحذير من الإسراف والتبذير
81- يا مسلم احذر تسلم
82۔ بيان التوحيد
83- السحر والخرافة
84- الأجوبة المفيدة عن بعض رسائل العقيدة
84- رسالة في التبرك والتوسل
85- مسئولية طالب العلم
86- اعصار التوحيد يحطم وثن الصوفية
87- نصائح عامة
88- نواقض الإسلام
89- القوادح في العقيدة و وسائل السلامة منها
90- السنة و مكانتها في الإسلام وفي أصول التشريع
91- نصيحة الأمة في جواب عشرة أسئلة مهمة
92- ردود و تعقیبات
93- المعلوم من واجب العلاقة بين الحاكم والمحكوم
94- تعليقات على العقيدة الطحاوية
95- تقديم و تعليقات على وجوب إعفاء اللحية للكاندهلوي
96- من أقوال الشيخ عبد العزيز بن باز في الدعوة
97۔ العلم و أخلاق أهله
● تقديمات و تقریظات:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے متعدد علمی کتابوں پر تقدیمات و تقریظات بھی لکھی ہیں جو کہ اپنی جگہ بڑی علمی اور جاندار ہیں؟ جن میں سے چند یہ ہیں:
1۔ تقريظ برائے کتاب الاحتجاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر تالیف شیخ علامه حمود بن عبد الله التويجرى
2۔ تقديم برائے كتاب إثبات علو الله و مباينته من خلقه تالیف شیخ علامہ حمود بن عبد الله التویجری
3۔ تقريظ برائ كتاب “براءة أهل السنة من الوقيعة في علماء الأمة تالیف علامہ شیخ بکر بن عبد اللہ ابوزید سابق وکیل وزارت عدل
4۔ تقدیم برائے كتاب حكم بناء الكنائس والمعابد الشركية في بلد أهل الإسلام تالیف شیخ اسماعیل محمد الانصاری
5۔ تقدیم کتاب “رسالة مهمة” تاليف الامام العلامہ عبد العزیز بن محمد بن سعود
6۔ تقدیم برائے کتاب تخريج أحاديث منتقدة من كتاب التوحيد تالیف و تخریج : شیخ فریح بن صالح البهلال
7۔ تقدیم برائے كتاب إتحاف الأمجاد باجتناب تغيير الشيب بالسواد تالیف شیخ فریح بن صالح البهلال
ان کے علاوہ بھی شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے متعدد کتب و رسائل پر مقدمات اور تقریظات لکھی ہیں لیکن ہم یہاں انھی سات پر اکتفاء کر رہے ہیں۔
○ماخذ ○
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے متعلق مزید جاننے کے لیے فضیلةالشیخ مولانا منیر قمر صاحب حفظہ اللہ کی “کتاب علامہ ابن باز رحمہ اللہ ” ملاحظہ کی جاسکتی ھے، جس میں آپ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو قدر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جہاں سے ہم نے استفادہ کیا ہے۔
● مرض الموت اور آخری ایام:
شیخ ابن باز رحمہ اللہ حسب عادت سعودی عرب کے موسم گرما کے دار الخلافہ طائف میں اپنے فرائض منصبی اور روزانہ کے معمولات کی ادائیگی میں مصروف تھے کہ بیمار ہوگئے۔ انھیں علاج معالجہ کے لیے ملک سے باہر لیجانے کی کوششیں کی گئیں مگر وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔ آخر شاہی حکم نیز اعلی پیمانے کا ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیاگیا جو ان کے علاج پر مامور ہوا۔
شیخ ابن باز صاحب رحمہ اللہ ہر سال حج و عمرہ کی سعادت سے شرف یاب ہوا کرتے تھے،صحت کی خرابی کی وجہ سے اور ڈاکٹروں کے سفر حج سے منع کر دینے کی بنا پر وفات سے قبل آنے والے حج 1419ھ پر نہ جا سکے جس سے
زندگی کے آخری ایام میں بڑے غمگین رہتے تھے۔ بے شمار لوگ بھی اس سال ایام حج میں ان کے نہ ہونے پر پریشان تھے۔ بالآخر موسم حج کے ختم ہوتے ہی اصرار کر کے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور دس دن وہاں رہے اور وہیں مرض میں اضافہ ہو گیا۔ وہاں سے انھیں الہدا
ہسپتال طائف لے جایا گیا، وہاں چند دن زیر علاج رہے اور کافی حدتک صحت یاب ہوکر دوبارہ پھر طبیعت ناساز ہوئی اور پھر 23 مئی 1999ء کو 87 سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جاملے انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی دینی، تصنیفی، تعمیری،تدریسی ،تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ آمین!
●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس: جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور