شیخ الحدیث محمد رفیق الأثری ؒ  کی حیات و خدمات

قارئین محترم: زیر نظر کتاب (تذکار المحدث محمد رفیق اثری ؒ) شیخ الحدیث و التفسیر محدث محمد رفیق الأثری ؒ جلالپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کی حیات و خدمات جلیلہ پر ایک بہترین کاوش ہے جس پر میں ابتداً اس کتاب کے فاضل مصنف برادر مکرم جناب حضرت مولانا عبدالمنان شورش ألأثری حفظ اللہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
ہمارے گھر وں میں جنوبی پنجاب کے ان مردم خیز علاقوں ملتان،مظفرگڑھ،خان گڑھ، کلر والی، ڈیرہ غازی خان،جلالپورپیروالا، ریاست بہاولپور، احمدپور شرقیہ، خان پور، رحیم یار خان کا ذکر خیر ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اگر ایک ایک شہر اور وہاں قیام پذیر ہو کر جنہوں نے قریہ قریہ شہر شہر بستی بستی دین اسلام مسلک حق اہل حدیث کی صدائیں بلند کرنے والے ان اہل علم و فضل شخصیات پر اپنے بزرگوں کے تعلقات کے حوالے سے لکھنا شروع کریں تو کئی کئی صفحات درکار ہوں گے جیسا کہ میرے برادر عزیز جناب حمید اللہ خان عزیز حفظہ اللہ تعالیٰ اس تاریخی کام میں اپنا دن رات ایک کیئے ہوئےاورمنظرعام پرلانے کیلئے کوشاں ہیں
اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آمین۔کیونکہ میرے دادا جان حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری ؒ کئی سالوں تک ضلع ملتان کی جماعت اہل حدیث کے امیر رہے وہ ضلع ملتان جو کہ پنجاب کا سب سے بڑا ضلع تھا اورجس کی سات تحصیلیں تھیں اور جس میں سے چار اضلاع بعد میں بنے تھے۔
اپنے بزرگ محترم حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری ؒ سے سنا کرتے تھے کہ جب تقسیم پاک و ہند کے بعد اکابرین جماعت کا ایک عظیم الشان اجتماع جامعہ تقویۃ السلام لاہور میں منعقد ہوا تو اس اجتماع کے موقع پر مرکزی سطح پر پیش آمدہ تجاویز کی روشنی میں ملک بھر میں رکنیت سازی کرنے کے لئے مختلف اضلاع کے دورے کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیااس دوران دیگر اضلاع کی طرح ضلع ملتان کی بھی رکنیت سازی کر کے تنظیم سازی کی گئی اور ابتدائی طور پر امیر ضلع شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری ؒ اور ناظم ضلع حضرت مولانا عبدالرشید صدیقی ؒ آف ملتان کو بنایا گیا کچھ ہی عرصہ کے بعد محدث جلالپوری ؒ نے اپنی تدریسی و تصنیفی مصروفیت کی بناء پر امارت سے الگ ہو گئے(جوواقعی انکایہ فیصلہ خیرثابت ہوا اس دوران انہوں نے بڑی محنت شاقہ سے اعاظم رجال محدثین کہنہ مشق مدرسین مصنفین کی ایسی مضبوط ٹیم تیارکی جوملک کے جملہ جامعات میں معمار امت مسلمہ ثابت ہوے)تو پھر ضلعی امارت کا یہ بوجھ ذمہ داری بندہ فقیر بابائے تبلیغ عبداللہ گورداسپوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا گیا لیکن ناظم ضلع کے طور پر حضرت مولانا شیخ عبدالرشید صدیقی ؒ ہی تاحیات اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے تھے اور جماعتی درخشاں تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی تو فیق و رحمت سے اس ذمہ داری کو بھر پور اوراحسن طور پر سرانجام دیا تھا ان پس ماندہ دور دراز کے علاقوں قریہ قریہ بستی بستی نگر نگر توحیدوسنت کی آبیاری دعوت وتبلیغ پروہ کام کیا ختم نبوت کی چوکھٹ پر اسکی رکھوالی پر پابند سلاسل بھی ہوے لیکن منطقی انجام تک پہنچانے کی سعادت حاصل کی
۔الحمدللہ۔ یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد یہ کہ ابتدائی طور پر ہی ہمارے گھر میں اور جماعتی حلقوں میں شیخ جلالپوری ؒ کا تذکرہ خیر ہوا کرتا تھا ماضی قریب میں وفات پانے والے شہر چنیوٹ کی عظیم تحریکی شخصیت جناب قاری ایوب چنیوٹی ؒ اس بات کے راوی ہیں کہ ایک بار ہم نے دوران تدریس شیخ محدث جلالپوری ؒ سے مختلف علماء کرام کے بارے میں سوال پوچھتے پوچھتے بابا جی عبداللہ گورداسپوری ؒ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسے یا کس پائے کہ عالم دین ہیں تو شیخ محدث جلالپوری ؒ نے فرمایا تھا کہ وہ ایک ثقہ و پختہ عالم دین ہیں۔شیخ جلالپوری ؒ کی اس بات سے آپ احباب خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مولانا گورداسپوری ؒ کا مقام و مرتبہ محدث جلالپوری ؒ کی نظر میں کیا تھا اسی طرح شیخ محدث جلالپوری ؒ کی وفات پر بابا جی محمد عبداللہ گورداسپوری ؒ نے بھی نومبر1995 میں ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث لاہور میں ایک تعزیتی شذرہ میں لکھتے ہیں کہ ابھی ابھی اخبار پاکستان لاہور بابت ۶ نومبر ۵۹۹۱ ؁ء میں یہ جانکاہ خبر پڑھی کہ حضرت مولانا سلطان محمود محدث جلالپوری گزشتہ روز انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کئی دنوں سے ان کی تشویش ناک علالت کی خبر آرہی تھی کافی کوشش کے با وجود ان کی بیمار پرسی کے لئے حاضر نہ ہو سکا بلکہ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اُن کی نماز جنازہ میں بھی شرکت نہ کر سکا۔ جس کا افسوس پوری زندگی رہے گا (ان شاء اللہ باباجی عبداللہ گورداسپوری ؒمجھ فقیر سے لازمی خوش ہوں گے کہ وہ خود تو محدث جلالپوری ؒ کی نماز ِ جنازہ میں شریک نہیں ہو سکے لیکن ان کی وفات کے کئی سالوں بعد بندہ فقیر کو محدث جلالپوری ؒ کی علمی مسند کے دو عظیم جانشینوں کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے الحمدللہ) حضرت محدث العصر مولانا سلطان محمود جلالپوری ؒ بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ بیک وقت بہترین استادالحدیث ، مشفق مدرس نہایت کامیاب خطیب،بلند پایہ رہنما تھےبہت بڑے ماہر نفسیات بلاتفریق علاقے کے یتمی غریب مسکین محتاج بیوگان کی ایسے مددفرماتے تھے کہ کسے کانوں کان خبربھی نہیں ہوتی تھی انکی وفات پر ہزاروں لوگوں کی آہ وفغاں سے معلوم ہواکہ یہ شخصیت کس قدر مشفق ومونس ومددگارغریبوں کی ھمدرد۔ یہ شرف اُن کے درجات کی بلندی کے لئے کافی ہے۔تقریباً ۰۰۱ سو سالہ زندگی میں سے پورے80 سال قرآن وحدیث کی خدمت میں مسند تدریس پر بیٹھ کر گزار دیے۔ حضرت محدث علیہ الرحمت حضرت مولانا عبدالحق محدث ملتانی ؒ ( والد گرامی حضرت مولانا شمس الحق صاحب محدث ملتانی) کے عظیم شاگردوں میں سے تھے۔ حضرت محدث ملتانی علیہ الرحمہ کے بیشتر فیض یافتگان میں سے یہ تین حضرات (اصحاب ثلاثہ) حضرت مولانا ملک عبدالعزیز ملتانیؒ، مولانا ابو حفص عثمانیؒ، حضرت محدث جلالپوری ؒ بڑے معروف اور اپنے دور کے بہترین مبلغ اسلام اور مسلک اہل حدیث کے جید علماء اکرام میں شمار ہوتے تھے۔ بندہ کو ان تینوں مرحومین مغفورین کے ساتھ کافی عرصہ دینی خدمات اور تبلیغی اُمور سرانجام دینے کا موقع ملا۔ بہترین ساتھی حالانکہ یہ تینوں حضرات مجھ سے ہر لحاظ سے بڑے تھے لیکن بڑی شفقت اور احترام سے پیش آتے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے بانیوں میں سے تھے۔ضلع ملتان، ڈیرہ غازی خاں، مظفر گڑھ اور ریاست بہاولپور کے اضلاع میں ہزاروں افراد ِ جماعت ان سے فیض یافتہ تھے۔حضرت محدث جلالپوری ؒ کا خصوصی طور پر بڑا اثر اور فیض تھا۔ پچھلے سال لودھراں کی سالانہ کانفرنس میں آخری ملاقات ہوئی گلے لگ کر بہت روئے اور رقت انگیز انداز میں فرمایا اب آپ ہی شیخ الاسلام امرتسری ؒ کی یادگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ آمین
محدث جلالپور ی ؒ کا مقام و مرتبہ اہل علم و فضل میں بہت نمایاں حیثیت کا حامل تھا انہیں محدث جلالپوری ؒ کے بلاشبہ ہزاروں فیض یافتگان میں سے ایک نمایاں شخصیت ہمارے ممدوح بزرگ محترم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد رفیق محدث اثری جلالپوری ؒ کی ہے کہ جنہوں نے الشیخ سلطان محمود محدث جلالپوری ؒ کے ہی زیر سرپرستی قرآن حدیث کی تعلیم حاصل کی اور پھر اللہ تعالیٰ کی تو فیق و رحمت سے تاحیات اسی ادارہ میں تدریس کے فرائض اس انداز میں ادا کیئے کہ آج ان کے فیض یافتہ ناصرف ملک پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی دین اسلام کی نشرو اشاعت میں دن رات مصروف عمل ہیں۔ الحمدللہ۔
شیخ محدث جلالپوری ؒ کی طرح محدث اثری ؒ کا میرے بزرگوں کے ساتھ بڑا ہی عقیدت و احترام کا رشتہ تھا خطوط کے ذریعے ایک دوسرے سے رابط کیا جاتا تھا جیسا کہ زیر مطالعہ کتاب (تذکار المحدث محمد رفیق اثری ؒ) میں بھی بابا جی عبداللہ گورداسپوری علیہ رحمہ کا ایک خط شامل اشاعت کیا گیا ہے اور بندہ فقیر کے نام بھی شیخ محترم کے دو خط میرے پاس محفوظ ہیں اس طرح بزرگوں سے ٹیلی فونک رابط بھی میرے ذریعے سے ہی ہوا کرتا تھا شیخ محدث اثری ؒ کی جب بھی کوئی نئی کتاب شائع ہو کر آتی بابا جی گورداسپوری ؒ کو ارسال فرماتے اور دعا کی درخواست کرتے ہماری بھی جب کوئی کتاب شائع ہوتی تو شیخ محترم کے ادارے میں پہنچانے کی کوشش کی جاتی جیسے کہ ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے جو کہ انہوں نے مجھ فقیر کے نام لکھا تھا کہ محترم عزیز آپ کی مرسلہ آٹھ جلدیں تحریک ختم نبوت پہنچ گئی ہیں اور لائبریری دارالحدیث کی زینت بن گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں بھی جب کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو شیخ محترم ؒ سے رابط کیا جاتا تو ہمیشہ شفقتوں سے نوازتے تھے۔ایک بار والد گرامئی حفظ اللہ کو مولانا عبدالاحد خان پوری ؒ کے ایک کتاب کی ضرروت پڑی جس کا نام السیف المسلول تھا میں نے اس کتاب کی تلاش کے لئے شیخ اثری ؒ کو ٹیلی فون کیا انہوں نے سمجھا کہ السیف المسلول از قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ جو کہ شیخ محترم نے تحقیق و تخریج کے ساتھ اپنے ادارے کی طرف سے شائع کی تھی اس کی ضرورت ہے۔ چند دنوں بعد شیخ اثری ؒ نے وہ کتاب ڈاک کے ذریعے مجھے بجھوا دی لیکن وہ ہماری مطلوبہ کتاب نہیں تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد شیخ محترم ہمارے شہر میں درس ِ قرآن و حدیث فرمانے کے لئے مرکز سراج اہل حدیث میں تشریف لانے والے تھے شیخ محترم نے چند دن پہلے فون کیا کہ میں نے فلاں تاریخ کو آپ کے شہر میں آنا ہے میں نے کہا شیخ محترم میرے علم میں ہے آپ تشریف لائیں ان شاء اللہ ملاقات ہو گئی لیکن اگر ممکن ہو تو اور زیادہ شفقت فرما دیں چند منٹوں کے لئے بندہ فقیر کے ہاں تشریف لائیں چائے وغیرہ پی کر کچھ دیر آرام کر لیں پھر ایک ساتھ ہی مرکز سراج اہل حدیث کی طرف چلیں گے۔ شیخ محترم کمال شفقت سے میری درخواست کو قبول کرتے ہوئے مقررہ تاریخ پر اپنے رفقاء عظام کے ساتھ بندۂ فقیر کے گھر تشریف لائے دوران مجلس بزرگو ں کا ذکرخیر ہوتا رہا پھر فرمانے لگے میرے پاس آپ کے والد گرامی کی شائع کردہ کتاب تحریک ختم نبوت کی مکمل مجلدات نہیں ہیں میں نے اپنی سستی پر معذرت کی اور شیخ محترم کی خدمت میں ان کی مطلوبہ مجلدات پیش کیں شیخ محترم نے نہایت خوشی کا اظہار فرمایا اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازاجب رخصت ہونے لگے میں نے کہا کہ شیخ محترم میں نے جس کتاب کی تلاش میں آپ کو فون کیا تھا وہ کتاب جو آپ نے مجھے بجھوائی تھی وہ والی نہیں ہے آپ وہ کتاب واپس رکھ لیں۔ شیخ محترم نے کمال انداز میں فرمایا کہ وہ کتاب تو میں نے آپ کو دے دی ہے اب کیسے واپس لے لوں۔۔ میں نے پھر کہا لیکن شیخ محترم نہیں مانے۔اللہ اکبر کبیرا۔۔۔۔۔(شیخ محترم کے خط اور یہ کتاب اگر اسامہ بھائی محسوس نہ کریں تو میں ان کی خدمت میں پیش کرنے کو تیار ہوں)
وقت گزرتا رہا شیخ محترم کے سا تھ مو بائل فون پر رابطہ ہوتا رہا پھر دو تین سال گزرنے کے بعد ایک دن مجھے پھر شیخ محترم کا فون آیا کہ میں نے فلاں تاریخ کو آپ کے شہر سے گزر کر آگے کسی شہر میں پروگرام میں شرکت کے لئے جاناہے کیا تم اس دن شہر میں ہی ہو گے میں نے جواباً کہا کہ شیخ محترم آپ تشریف لائیں میری خوش نصیبی ہوگی شیخ محترم نے مقررہ تاریخ کو تشریف لا کر ہم فقیروں کی کلی کو پھررونق بخشی میں نے اس دوران تازہ شائع ہونے والی کتب شیخ محترم کی خدمت میں پیش کیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے فرمانے لگے تمہارے والد گرامی کا جماعت اہل حدیث پر بہت بڑا احسان ہے اللہ ہی ان کو اس کا اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ان شاء اللہ۔ اسی دوران میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا میں نے پوچھا کہ نماز کے لئے اگر مسجد میں جانا ہے تو وہ گاڑی پر جانا پڑے گا کیونکہ مسجد مین روڈ پر ہے اور گھر اندر کالونی میں ہے لیکن یہ میرے لئے اور میرے اہل خانہ کے لئے سعادت کی بات ہے کہ شیخ محترم فرمانے لگے نہیں کوئی بات نہیں ہم مسافر ہیں یہیں گھر میں ہی با جماعت نماز ادا کر لیتے ہیں میں نے ساتھ والے گھرکے صحن میں نماز کے لئے جائے نماز بچھائے اورشیخ محترم کے لئے کرسی کا انتظام کیا ہم سب نے مل کر شیخ محترم کی امامت میں نماز عصر ادا کی۔شیخ محترم کا بندہ ناچیز کے گھر نماز ادا کرنا ہمارے لئے باعثِ رحمت ہے الحمداللہ اس پر میں اپنے اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔نماز کے بعد شیخ محترم آگے پروگرام میں شرکت کے لئے رخصت ہو گئے پھر کچھ عرصہ گزرا تو ایک دن اچانک فون پر گھنٹی بجی دیکھا تو شیخ محترم کا نام جگ مگ کر رہا تھا فون اُٹھایا پیغام ملا کہ آج برادر مکرم جناب عمران سلفی حفظ اللہ کے والد گرامئی شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا اللہ یار ؒ کا انتقال ہو گیا (برادر محترم جناب عمران سلفی حفظ اللہ سوشل میڈیا پرایک پوسٹ کے جواب میں لکھتے ہیں کہ شیخ القران والتفسیر والد محترم مولانا اللہ یار محدث جلالپوری ؒ نے ایک موقعہ پر تحریک ختم نبوت کی غالباً 20 جلدوں کا تعارف طلباء کو کراتے ہوئے۔۔ ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ جملہ بولا کہ۔۔۔ اہل حدیث کی مائیں الحمدللہ ابھی بانجھ نہیں ہوئیں قیامت تک ڈاکٹر بہاء الدین آتے رہیں گے اور قادیانیت کی تردید ہوتی رہے گی۔ان شاء اللہ الرحمن۔۔۔۔۔۔ قربان جاؤں محدث جلالپوری ؒ نے مولانا محمد عبداللہ گورداسپوری ؒ کے بارے میں کلمات تحسین ادا کئے اور ان کی علمی مسند کے عظیم وارث جناب مولانا اللہ یار ؒ نے ڈاکٹر بہاء الدین حفظ اللہ کے بارے میں تاریخی کلمات کہے)شیخ اثری حفظ اللہ کی طرف سے پیغام ہے کہ فلاں وقت جنازہ ہے دل میں خیا ل آیا کہ شیخ محترم نے خود سے اطلاع دلوائی ہے اب لازمی جانا چاہیے۔ دوست احباب سے رابط کیا تو شیخ محترم کے ایک شاگرد رشیدجناب حافظ بلال اشرف اعظمی آف چوک اعظم،لیہ (شیخ الحدیث مرکز سراج اہل حدیث) اور جناب پروفیسر محمد سرور لیکچرار گورنمنٹ کالج کی معیت میں زندگی میں پہلی بار محدثین کی سرزمین جلالپور پیروالا کی طرف روانہ ہوکر سب سے پہلے شیخ محترم کی زیارت و ملاقات کے لئے مسجد میں پہنچے تو شیخ محترم اپنے دیرینہ دوست وساتھی،دست راست و ہم راز کی جدائی میں غمگین لائبریری میں تشریف فرما تھا ہم لائیبریری میں داخل ہوئے میں نے سلام عرض کیا اور اپنا تعارف کروایا تو جلدی سے اُٹھ کر شفقتوں اور ڈھیروں دعاؤں سے نوازا۔نماز جنازہ میں شرکت کے لئے کثیر تعداد میں علمائے کرام کی آمد و رفت تھی ہم نماز پڑھ کر جنازہ گاہ کی طرف چل دییے اور جنازہ کے بعد جب واپسی نکلنے لگے تو اسی کتاب کے مصنف، محقق اور نوجوان عالم دین جناب مولانا عبدالمنان شورش حفظ اللہ آف ڈیرہ غازی خاں سے اچانک سر راہ پہلی بار ملاقات ہوئی ان سے سوشل میڈیا و ٹیلی فونک رابط تو عرصہ دراز سے تھا لیکن ملاقات پہلی بار ہوئی۔وقت کا پہیہ چلتا رہا پھر ایک دن خانیوال شہر میں سعیدی خاندان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ایک خوبصورت تقریب میں شامل ہو کر شیخ محترم کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل کیا اور شیخ محترم کی خدمت میں پھر تازہ شائع ہونے والی کتب کے تحائف پیش کیئے۔وقت گزرتا رہا پھر اچانک اطلاع ملی کہ آج شیخ اثری ؒ بھی اس دُنیا ِ فانی سے رخصت ہو گئے بے ساختہ زبان سے انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا۔نمازِ جنازہ کی اطلاع ملی تو پھر اپنے رفقاء عظام محترم جناب پروفیسر محمد سرور صاحب اور جناب مولانا حافظ حبیب الرحمن فاضل مدینہ یونیورسٹی کی ہمراہی میں اُس شخصیت کا نماز جنازہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی جن کو حضرت مولانا محمد ارشاد الحق محدث اثری حفظ اللہ بھی اپنا شیخ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے مولانا عبدالمنان شورش حفظ اللہ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک مشہورمردم خیز شہر ڈیرہ غازی خان سے ہے۔ان سے ٹیلی فون وسوشل میڈیا کے ذریعے سے کئی سالوں سے شناسائی تھی لیکن باضابطہ پہلی ملاقات آج سے چند سال قبل شیخ القرآن و الحدیث حضرت مولانا محمد اللہ یار ؒ کی نماز جنازہ کے موقع پر جلالپور پیر والا میں چند منٹوں کے لئے ہوئی تھی جناب عبدالمنان شورش حفظ اللہ سے دوسری ملاقات دو مئی بروز جمعرات تاریخ اہل حدیث از ڈاکٹر بہاء الدین کی جلد نمبر 12 کی تقریب رونمائی منعقدہ جامعہ اسلامیہ ملتان میں ہوئی اور ان کی گفتگو سننے کا بھی موقع ملا۔ تیسری ملاقات پھر رات کو ڈیرہ غازی خاں میں ان کے گھر حاضر ہو کر اپنے رفقاء عظام جناب مولانا بلال اشرف اعظمی حفظ اللہ،جناب حکیم محمد عثمان فاروق صاحب اورجناب پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظ اللہ کی معیت میں کھانا کھانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ رات کا کافی سارا وقت گزر چکا تھا لیکن ایک بھرپور علمی مجلس قائم تھی جس سے اُٹھنے کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن واپسی کا سفر بھی طویل تھا اس لئے اگلی ملاقات تک کے لئے اجازت چاہی واپسی کے سفر میں رات ایک بجے کے قریب جناب پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظ اللہ اور ان کے بیٹے کو ملتان بس اسٹینڈ پر اُتارا اور جناب حکیم عثمان فاروق صاحب کو ان کے گھر پہنچا کر رات ساڑھے تین بجے براستہ خانیوال گھر پہنچ گئے الحمدللہ۔
ان کی حیات و خدمات کے حوالے سے مزید جاننے کے لئے ہمارے برادر محترم جناب مولانا شورش صاحب حفظ اللہ کی اس کتاب کا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے جس کی تقریب رونمائی 19 مئی بروز اتوار ڈیرہ غازی خان شہر میں منعقد کی جارہی ہے اس کتاب کی مطالعہ سے ہی ہمیں شیخ اثری ؒ کے تصنیفی، تدریسی، سیاسی و مسلکی خدمات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ آخرمیں پھر اس کتاب کی اشاعت پر مولانا عبدالمنان شورش و جملہ معاونین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ شیخ محترم ؒکی حسنات و خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ء فرمائے اور ہمیں اپنے اسلاف کے نقش ِ قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین

ہشام گورداسپوری

یہ بھی پڑھیں: استادِ محترم مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ، یادوں کے آئینے میں