سوال (4309)

شیطان کو جب اللہ رب العزت نے سجدے کا حکم فرمایا تب اسے نافرمانی کرنے پر کس نے ابھارا تھا؟ جب کہ شیطان کا ابھی وجود ہی نہیں تھا یعنی شیطانی وسوسوں (غرور و تکبر اللہ کے حکم سے دور کرنا ان تمام) کا بھی وجود نہیں تھا۔ یعنی شیطان ابھی شیطان نہیں تھا تب اس کے اندر انکار کے جراثیم کہاں سے آئے؟

جواب

جو کچھ میں سمجھ سکا ہوں وہ بیان کر دیتا ہوں اگر صحیح ہے تو اللہ کا فضل اور اگر غلط ہے تو میری جانب سے ہے۔
جب ابلیس کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، تب وہ شیطان نہیں بلکہ جنات میں سے ایک عبادت گزار مخلوق میں سےتھا۔ تو سوال یہ ہے کہ:
اس وقت اس کے اندر انکار، تکبر اور حسد جیسے شیطانی جذبات کہاں سے آئے؟ کس نے اس کو ابھارا؟
ابلیس کا اصل مقام اور حیثیت
ابلیس جنات میں سے تھا:

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ (الکہف: 50)

“جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کو سجدہ کرو، تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ جنوں میں سے تھا، تو اپنے رب کے حکم سے باہر نکل گیا۔”
یعنی وہ جنات میں سے تھا، اور جنات کو بھی عقل، ارادہ اور اختیار دیا گیا ہے، جیسے انسانوں کو۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو عقل و اختیار کے ساتھ پیدا فرمایا، اور یہ اختیار ہی وہ چیز ہے جو انسان و جن کو آزمائش میں ڈالتا ہے:

مَّا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ (الکہف: 51)

“میں نے نہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کے وقت ان کو گواہ بنایا، اور نہ ان کے اپنے پیدا ہونے کے وقت۔”
یعنی یہ سب اپنے ارادہ و اختیار سے عمل کرتے ہیں۔
شیطان کے انکار کی اصل وجہ: تکبر و حسدہے:

قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ (ص: 76)

“اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ابلیس کے انکار کی وجہ اس کا تکبر اور خودپسندی تھی، اور یہ وسوسہ باہر سے نہیں، اس کے نفس کے اندر سے ابھرا۔
شیطان کو شیطان کس نے بنایا؟
ابلیس کے دل میں غرور، حسد اور اللہ کے حکم پر اعتراض پیدا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس وقت تک “شیطان” قرار نہیں دیا تھا جب تک اس نے نافرمانی کا عملی مظاہرہ نہیں کیا۔ نافرمانی کے بعد وہ “رجیم” یعنی مردود قرار پایا۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ۔۔۔ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرة: 34)

یعنی وہ انکار کرنے سے پہلے شیطان نہ تھا، بلکہ ایک آزمایا گئی مخلوق تھی، اور اپنے اختیار کے غلط استعمال سے شیطان بنا۔
یعنی ابلیس جنات میں سے تھا، اسے عقل و اختیار حاصل تھا انکار، غرور اور حسد اس کے نفس کے اندر سے پیدا ہوا، اللہ کی آزمائش کے تحت۔ اس وقت دنیا میں کوئی وسوسہ ڈالنے والا نہیں تھا، وہ خود اپنے ارادے سے بغاوت پر اترا۔ اسی لیے وہ آزمائش میں ناکام ہوکر “شیطان” بنا۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ