سوال (3675)
علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں رہنمائی فرمادیں، اگر کسی پرندے کا شکار کیا جائے تو وہ مردہ یا زندہ حالت میں ملے تو کیا اس کے گلے پر چھُری چلانا ضروری ہے۔
جواب
شکار کی صورت میں زندہ رہنے والے جانور کو ذبح کیا جائے گا۔
“حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ” [سورۃ المائدہ، آیت 3]
تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو جانور ذبح کیے بغیر مر جائے، وہ مردار اور حرام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“اگر تم نے شکار کو زندہ پایا تو اسے ذبح کر لو، اور اگر وہ مر چکا ہو تو اسے نہ کھاؤ، کیونکہ وہ مردار ہے۔”
[صحیح بخاری : 5504، صحیح مسلم : 1950]
یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ اگر شکار شدہ جانور زندہ ہو تو اس کا ذبح کرنا فرض ہے ، ورنہ وہ حرام ہو جائے گا۔
اجماع امت
امام نوویؒ (676ھ) فرماتے ہیں:
“امت کا اجماع ہے کہ اگر شکاری جانور یا تیر سے شکار کیا گیا اور وہ زندہ مل گیا، تو اس کا ذبح کرنا واجب ہے۔ اگر بغیر ذبح کیے مر گیا تو وہ مردار ہے اور حرام ہو گا”۔ (المجموع شرح المهذب، 9/84)
امام ابن قدامہؒ (620ھ) فرماتے ہیں:
“اگر شکار زندہ مل جائے تو اس کا ذبح کرنا واجب ہے۔ اگر مر جائے تو حرام ہو گا، اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے”۔ (المغنی، 9/325)
امام ابن رشدؒ (595ھ) لکھتے ہیں:
“اس مسئلے پر تمام فقہاء کا اجماع ہے کہ اگر شکار زندہ مل جائے تو اس کا گلا کاٹنا لازم ہے، ورنہ وہ مردار کے حکم میں ہوگا اور اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا”۔ (بدایۃ المجتہد، 1/441)
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ
سائل: اگر تیر وغیرہ پھینکنے سے پہلے اور فائر کرنے سے پہلے تکبیر پڑھ لی ہو پھر مردہ یا زندہ حالت میں ملنے والے شکار کا حکم بھی یہی ہے یا مختلف ہے۔
جواب: ایک حدیث میں آتا ہے:
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ وَسَمَّيْتَ فَأَمْسَكَ وَقَتَلَ فَكُلْ، وَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَإِذَا خَالَطَ كِلَابًا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهَا فَأَمْسَكْنَ وَقَتَلْنَ، فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَيُّهَا قَتَلَ، وَإِنْ رَمَيْتَ الصَّيْدَ فَوَجَدْتَهُ بَعْدَ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ لَيْسَ بِهِ إِلَّا أَثَرُ سَهْمِكَ فَكُلْ، وَإِنْ وَقَعَ فِي الْمَاءِ فَلَا تَأْكُلْ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب تم نے اپنا کتا شکار پر چھوڑا اور بسم اللہ بھی پڑھی اور کتے نے شکار پکڑا اور اسے مار ڈالا تو اسے کھاؤ اور اگر اس نے خود بھی کھا لیا ہو تو تم نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکار اس نے اپنے لیے پکڑا ہے اور اگر دوسرے کتے جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، اس کتے کے ساتھ شکار میں شریک ہو جائیں اور شکار پکڑ کر مار ڈالیں تو ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس کتے نے مارا ہے اور اگر تم نے شکار پر تیر مارا پھر وہ شکار تمہیں دو یا تین دن بعد ملا اور اس پر تمہارے تیر کے نشان کے سوا اور کوئی دوسرا نشان نہیں ہے تو ایسا شکار کھاؤ لیکن اگر وہ پانی میں گر گیا ہو تو نہ کھاؤ۔ [صحیح بخاری 5484]
اس حدیث میں واضح ہے کہ اگر تیر لگنے کے بعد شکار مر جائے اور اس پر کوئی دوسرا اثر نہ ہو، تو وہ حلال ہے۔
لیکن اگر شکار پانی میں ڈوب کر مرا ہو یا کسی اور وجہ سے مرا ہو، تو وہ حلال نہیں ہے۔
خلاصہ:
1) اگر تیر لگنے سے ہی شکار کی موت واقع ہوئی ہو تو وہ حلال ہے۔
2) اگر شکار تیر لگنے سے پہلے ہی مر چکا ہو تو وہ حلال نہیں ہے۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ