سوال (2856)

سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

“بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي مُسْبِلًا إِزَارَهُ إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ جَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا لَكَ أَمَرْتَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَكَتَّ عَنْهُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ”.[سنن ابي داؤد : 638]

«ایک آدمی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جا کر دوبارہ وضو کرو، چناچہ وہ گیا اور اس نے دوبارہ وضو کیا، پھر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: جا کر پھر سے وضو کرو، چناچہ وہ پھر گیا اور تیسری بار وضو کیا، پھر آیا تو ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا بات ہے! آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا پھر آپ خاموش رہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اپنا تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے تہبند لٹکا کر نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتا»
شیوخ کرام راہنمائی فرمائیں، جس کی شلوار یا تہہ بند ٹخنوں سے نیچے ہو تو کیا اس کی نماز اللہ قبول نہیں فرماتے ہیں، کیونکہ ہمارے لوگ جو ہیں، ان کی شلوار نماز پڑھتے وقت بھی ٹخنوں سے نیچے ہوتا ہے؟

جواب

یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو علتیں ہیں:
الاول: اس میں “أبو جعفر المؤذن” راوی مجهول ہے۔
الثانی: يحيى بن أبي كثير مدلس ہے اس لیے کہ وہ اپنے شیخ ابو جعفر سے “عن” سے روایت کر رہا ہے اور سماع کی صراحت بھی نہیں۔
ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا حرام ہے چاہے دوران نماز میں ہو یا غیر نماز میں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
ما أسفل من الكعبين من الإزار فهو في النار۔
أخرجه البخاري في صحيحه۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے:

ثلاثة لا يكلمهم الله، ولا ينظر إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم: المسبل إزاره، والمنان فيما أعطى، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب۔

أخرجه مسلم في الصحيح.
لیکن مسبل الازار کو نماز دہرانی پڑے گی، اس پر کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ