’’تفسير و دیگر علوم دین اساتذہ سے پڑھنے کے بجاے ذاتی مطالعہ کافی سمجھنا‘‘
(شیخ صالح بن عبد اللہ العصیمی حفظہ اللہ، مدرس الحرمین الشریفین)
سوال : شیخ آپ نے ذکر کیا ہے کہ جس بندے نے قرآن مجید کے مشکل معانی اور ملتے جلتے الفاظ کو یاد کر لیا تو گویا اس نے ایک تہائی تفسیر سمجھ لی، تو آپ ایک طالب علم کو اس کے لیے کون سی کتب پڑھنے کی نصیحت کرتے ہیں؟
جواب : ’’اگر تو سائل کا مقصد یہ ہے کہ میں اسے کتب بتاؤں جو وہ کسی شیخ یا استاد سے پڑھے گا تو میں اسے ضرور بتاتا ہوں، لیکن اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ اسے کتب بتاؤں اور وہ انہیں خود سے پڑھے تو میں اسے بالکل کسی کتاب کی تلقین نہیں کروں گا، کیونکہ وہ چاہے مشرق ومغرب کے درمیان موجود ساری کتب بھی پڑھ لے تو حقیقی علم نہیں پا سکتا، اس امت میں علمِ اتم کا واحد ذریعہ اساتذہ وشیوخ سے پڑھنا ہے، سنن ابی داود میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بسند حسن حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’آپ لوگ دین مجھ سے سنتے ہیں، آپ سے آگے سنا جائے گا اور جو آپ سے سنے گا اس سے آگے سنا جائے گا ۔‘‘
یہ حدیث دلیل ہے کہ اس امت میں علم کا ذریعہ علماء وشیوخ سے براہ راست اسے حاصل کرنا ہے، اس لیے انسان کو علماء و مشایخ سے علم حاصل کرنے کا شوق ہونا چاہیے، رہا بس کتابیں پڑھتے رہنا تو یہ آپ کو محض معلومات دیتا ہے لیکن پختہ و ٹھوس اور صحیح علم نہیں دے سکتا، اور بالآخر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بندہ مشتبہات، شاذ اور عجیب وغریب چیزیں اختیار کرنے لگتا ہے، لیکن جو اہلِ علم سے علم حاصل کرتا ہے تو وہ اس کے آداب وأخلاق سے آراستہ ہوتا ہے۔
اسے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں سے کون سی بات کرنی ہے، اسے علم ہوتا ہے کہ حکمران سے کیا بات کرنی ہے اور عوام کے سامنے کیا بات کرنی ہے۔ بڑے کو کیا بیان کرنا ہے اور چھوٹے کو کیا، عورت کے سامنے کون سا علم رکھنا ہے اور مرد کے سامنے کونسا علمی انداز اپنانا ہے؟ اور جو صرف کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے وہ اِن تمام چیزوں سے بالکل کورا رہتا ہے۔ اسی لیے ایسے لوگ اصلاح سے زیادہ خرابی وفساد کرتے ہیں، لہذا اگر تو آپ ایسی کتب چاہتے ہیں کہ انہیں شیوخ اور اساتذہ سے پڑھیں تو میں آپ کے دست بازو کو مضبوط کرتا ہوں لیکن اگر آپ یہ سمجھ کر خود سے پڑھنا چاہتے ہیں کہ آپ تفسیر خود ہی جان لیں گے تو میں اپنے ہاتھ کو آپ سے ہاتھ سے ابھی نکالتا ہوں.
حافظ محمد طاھر