سوال (4810)

آج کل بعض لوگ بیرونِ ملک پڑھائی کے لیے (Study Visa پر) جانا چاہتے ہیں، ویزا کے لیے ایک بینک اسٹیٹمنٹ دکھانا لازمی ہوتا ہے جس میں خاصی بڑی رقم موجود ہو، بہت سے طلبہ ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اتنی نقد رقم (cash) نہیں ہوتی، البتہ ان کے پاس جائیداد (property) وغیرہ ضرور ہوتی ہے، مگر وہ جائیداد کو بینک اسٹیٹمنٹ میں دکھا نہیں سکتے، ایسے میں بعض افراد ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں: وہ شخص جو “اسٹیٹمنٹ” کی سہولت دے رہا ہوتا ہے، وہ اپنے 60 لاکھ روپے میرے نام سے کھولے گئے بینک اکاؤنٹ میں رکھ دیتا ہے، اکاؤنٹ بظاہر میرے نام سے کھلتا ہے، مگر اس کا مکمل اختیار، یوزر نیم، پاسورڈ، اے ٹی ایم کارڈ وغیرہ اسی شخص کے پاس ہوتے ہیں۔ میں اس رقم کو استعمال نہیں کر سکتا، یہ رقم اسٹیٹمنٹ دکھانے کے لیے میرے اکاؤنٹ میں رکھی جاتی ہے، اس کے بدلے میں وہ شخص مجھ سے ماہانہ 1,80,000 روپے چارج کرتا ہے، یعنی یہ ایک طے شدہ فیس ہے جو وہ اسٹیٹمنٹ میں رقم دکھانے کے بدلے لیتا ہے۔
اس حوالے سے میرے سوالات یہ ہیں:
1: کیا شریعت کی رو سے اس طرح کا بینک اسٹیٹمنٹ بنوانا جائز ہے؟
2: اگر رقم میری نہیں، مگر میرے اکاؤنٹ میں رکھی جا رہی ہے، اور میں صرف نام کا مالک ہوں، تو کیا یہ دھوکہ (fraud) شمار ہو گا؟
3: کیا اس کام کے بدلے ماہانہ 1,80,000 روپے دینا یا لینا جائز ہے؟

جواب

بیک اسٹیٹمنٹ بذات خود کوئی چیز نہیں ہوتی، لیکن یہ اصل میں اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ شخص مالی اعتبار سے اتنا صاحب حیثیت ہے، جتنی کسی ملک کے ویزے کے لیے انہوں نے ریکوائرمنٹ رکھی ہوتی ہے.
جو شخص خود صاحب حیثیت نہیں ہے، وہ کسی دوسرے کی رقم کو اپنا دکھا رہا ہے تو سیدھی سی بات ہے کہ یہ غلط بیانی، دھوکہ دہی اور فراڈ ہے، جو کہ جائز نہیں۔
دوسرا اس کی یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ اس نے کسی شخص سے ادھارے پیسے لیکر اپنے اکاؤنٹ میں شو کروائے ہیں، لیکن ایک تو حقیقت میں اس طرح ہے نہیں، دوسرا ادھار لیکر پھر اس پر اس شخص کو فیس ادا کرنا ( جیسا کہ یہاں بتایا گیا ہے کہ جو شخص آپ کے اکاؤنٹ میں رقم شو کرواتا ہے، وہ اس کے بدلے ایک لاکھ اسی ہزار روپے لیتا ہے) یہ سود کی ہی ایک قسم ہے۔
لہذا اس قسم کی متعدد قباحتوں کی وجہ سے یہ کام کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم.

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ