شروط کلمہ توحید

انسان کو اللہ نے عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ اور سب سے بڑی اور اہم بات جس کی پاسداری کا حکم دیا وہ توحید کو بتایا۔ چنانچہ پہلا کام جس کے ذریعے انسان سے عبد (بندہ) بننے کا سفر شروع ہوتا ہے، کلمہ توحید کو قرار دیا۔
چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت شدہ حدیث میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے دین کے ارکان میں اسی کلمے کی شہادت کو سب سے پہلا رکن قرار دیا۔ مگر بعض اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ کچھ احادیث کے کچھ ٹکڑوں کو بیان کرتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ صرف کلمہ پڑھ ہی لینے والا ہر طرح کی فکر سے آزاد ہے۔ اسے کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں۔ کہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ قولوا “لا إله إلا اللہ، تفلحون” کہ کلمہ کہہ دو کامیاب ہوجاو گے۔
مگر یہ بات صحیح نہیں۔ بلکہ نصوص کا نامکمل فہم ہے۔ اسی غلط فہمی کا ازالہ مراد ہے:
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح کی کتاب الجنائز میں تمہیدا لکھتے ہیں کہ:

بَاب: فِي الْجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
وَقِيلَ لِوَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ: أَلَيْسَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مِفْتَاحُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: بَلَى، وَلَكِنْ لَيْسَ مِفْتَاحٌ إِلَّا لَهُ أَسْنَانٌ، فَإِنْ جِئْتَ بِمِفْتَاحٍ لَهُ أَسْنَانٌ فُتِحَ لك، وإلا لم يفتح لك.

کہ جنائز اور اس کے بیان کا باب کہ جس کا آخری کلام لا إله إلا اللہ ہو۔
وہب بن منبہ رحمہ اللہ کو کہا گیا کہ کیا لا إله إلا اللہ جنت کی کنجی نہیں؟ فرمایا بے شک ہے مگر کوئی کنجی بغیر دندانوں کے نہیں ہوتی۔ اگر تو تم دندانے والی چابی لاو گے تو دروازہ کھل جائے گا۔ اگر نہیں تو نہیں کھلے گا۔
یعنی سلف کے ہاں یہ بات معروف تھی کہ صرف کلمہ توحید کو قولا زبان سے ادا کرلینا بندے کی نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔
تو وہ کیا چیزیں ہیں جن کا کلمے کے ساتھ ساتھ موجود ہونا ضروری ہے؟؟
حافظ الحکمی رحمہ اللہ نے سلم الوصول میں ایک ہی جگہ انہیں بیان کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

وَبِشُرُوطٍ سَبْعَةٍ قَدْ قُيِّدَتْ *** وَفِي نُصُوصِ الْوَحْيِ حَقًّا وَرَدَتْ
فَإِنَّهُ لَمْ يَنْتَفِعْ قَائِلُهَا *** بِالنُّطْقِ إِلَّا حَيْثُ يَسْتَكْمِلُهَا
الْعِلْمُ وَالْيَقِينُ وَالْقَبُولُ *** وَالِانْقِيَادُ فَادْرِ مَا أَقُولُ
وَالصِّدْقُ وَالْإِخْلَاصُ وَالْمَحَبَّهْ *** وَفَّقَكَ اللهُ لِمَا أَحَبَّهْ

کہ کلمہ(کا اقرار) سات شروط کے ساتھ مقید ہے۔ جو کہ وحی کی نصوص میں وارد ہوئی ہیں۔
تو بے شک کلمہ کے قائل(کہنے والے) کو اس کا فائدہ نہیں۔ حتی کہ وہ ان چیزوں کے ذریعے اس مکمل نا کرلے
(وہ چیزیں) علم، یقین، قبول ہیں۔ اور بجاآوری، چنانچہ میں جو کہہ رہا ہوں سے سمجھنے کی کوشش کرو
صدق، اخلاص اور محبت بھی(شامل ہیں)۔ اللہ تمہیں اس کے پسندیدہ اعمال کرنے کی توفیق عطاء فرمائے
یہ سات چیزیں شروط لا إله إلا اللہ کہلاتی ہیں جنہیں سلف کے کلام میں کنجی کے دندانے کہا گیا ہے۔ انہیں نصوص کے استقراء کی بنیاد پر جمع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان کی ادلہ ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:
> العلم:
کلمے کا علم ہونے سے مراد یہ ہے کہ بندے کو اس کے مقتضی کا پتا ہو اور اس سے لازم آنے والے امور کو جانے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابو جہل اور ابو لہب تو یہ کلمہ پڑھنے سے ڈریں، مگر آج کے لوگ دھڑادھڑ کلمہ پڑھتے بھی جائیں شرک و بدعت میں بھی لت پت رہیں۔ فرق کہاں ہے؟ فرق علم میں ہے کہ جاہلیت کے کفار جانتے تھے کہ اس کے پڑھنے سے کیا کیا کچھ لازم آئے گا؟ اسی لیے وہ کلمہ نہیں پڑھتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
سورۃ محمد
آیت نمبر: 19

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ

ترجمہ:
سو (اے نبی!) آپ جان لیں(علم حاصل کر لیں) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی اللہ تم لوگوں کے آمد ورفت کی اور رہنے سہنے کی جگہ کو خوب جانتا ہے۔
سورۃ الزخرف
آیت نمبر: 86

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

ترجمہ:
جنہیں یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے. ہاں (مستحق شفاعت وہ ہیں) جو حق بات کا اقرار کریں اور انہیں علم بھی ہو.

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ كِلَاهُمَا، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ حُمْرَانَ ، عَنْ عُثْمَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ “.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنِ الْوَلِيدِ أَبِي بِشْرٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُمْرَانَ يَقُولُ : سَمِعْتُ عُثْمَانَ يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ، مِثْلَهُ سَوَاءً.

کہ جو اس حالت میں فوت ہوا کہ جانتا تھا(علم رکھتا تھا) کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے تو وہ جنت میں داخل ہو گیا۔
أخرجه مسلم في “صحيحه”، كتاب : الإيمان باب من مات على التوحيد دخل الجنة (1/ 41) رقم (26).
چنانچہ جس نے منہ سے تو کلمہ پڑھ لیا مگر دل میں یہ خیال رکھا کہ عبادت کسی اور کی بھی کی جا سکتی ہے تو اس کے کلمے کا کوئی اعتبار نہیں۔ کیونکہ اس نے کلمے کے بارے علم ہی پورا حاصل نہیں کیا۔
> الإخلاص:
یعنی کلمے کو منہ سے ادا کرتے ہوئے اور اس کے بارے میں جانکاری لیتے ہوئے اور بعد میں تمام زندگی، انسان اخلاص کو لازم پکڑے۔ اخلاص کا ضد شرک ہے۔ یعنی انسان کلمہ، علم، عمل غرض ہر چیز خالصتا اللہ کے لیے ہی کرے۔ نا اس میں ریا(شرک اصغر) ہو اور نا ہی کسی غیر اللہ کی عبادت(شرک اکبر) ہو۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
سورۃ الزمر
آیت نمبر: 3

أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ

ترجمہ:
خبر دار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور جن لوگوں نے اس کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا سچا فیصلہ اللہ خود کرے گا جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں کو اللہ تعالیٰ راہ نہیں دکھاتا.
سورۃ الزمر
آیت نمبر: 11

قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ

ترجمہ:
آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لئے عبادت خالص کرلوں۔
سورۃ الزمر
آیت نمبر: 14

قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهُ دِينِي

ترجمہ:
کہہ دیجئے! کہ میں تو خالص کرکے صرف اپنے رب ہی کی عبادت کرتا ہوں۔
سورۃ البینۃ
آیت نمبر: 5

وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ

ترجمہ:
انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَالَ : قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” لَقَدْ ظَنَنْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَنْ لَا يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الْحَدِيثِ، أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَالِصًا مِنْ قَلْبِهِ أَوْ نَفْسِهِ “.

کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ آپ کی شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار قیامت کے دن کون ہوگا؟ فرمایا ابو ہریرہ! مجھے یہ خیال تھا کہ تجھ سے پہلے کوئی یہ بات نہیں پوچھے گا کہ تو حدیث کا بڑے حریص ہے! میری شفاعت کا سب سے زیادہ حقدار قیامت کے دن وہ ہوگا جس نے لا إله إلا اللہ دل و جان سے خالص ہوکر پڑھا ہوگا۔

أخرجه البخاري في “صحيحه”، كتاب : العلم باب الحرص على الحديث (1/ 31) رقم (99).
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيُّ ان عتبان بن مالك…قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؛ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ “.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک جس نے خالص اللہ کی رضا کے لیے کلمہ پڑھا اللہ اس پر جہنم کی آگ حرام کردیتے ہیں۔
أخرجه البخاري في “صحيحه”، كتاب : الصلاة باب المساجد في البيوت (1/ 92) رقم (425).
> اليقين:
انسان جب کلمہ پڑھے یا اپنے آپ کو مسلمان سمجھے تو اسے کلمے کے معنی، اس کے ملزوم، اس کے تمام مقتضیات پر اسے یقین ہو۔ یقین کی ضد شک ہے لہذا انسان اللہ کے ایک اکیلے الہ ہونے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کے بندے اور رسول ہونے اور وحی کی تمام اخبار پر اپنے دل سے اعتقاد اور یقین رکھے نا کہ عقل کی موشگافیاں لڑائے اور اپنی سمجھ کو مقدم کرے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:
سورۃ الحجرات
آیت نمبر: 15

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ

ترجمہ:
مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہ=اد کرتے رہیں یہی سچے اور راست گو ہیں.
سورۃ ابراھیم
آیت نمبر: 10

قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِيدُونَ أَن تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُّبِينٍ

ترجمہ:
ان کے رسولوں نے انھیں کہا کہ کیا حق تعالیٰ کے بارے میں تمہیں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا ہے وہ تمہیں اس لئے بلا رہا ہے کہ تمہارے تمام گناہ معاف فرما دے اور ایک مقرر وقت تک تمہیں مہلت عطا فرمائے، انہوں نے کہا تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو تم چاہتے ہو کہ ہمیں ان خداؤں کی عبادت سے روک دو جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے رہے ہیں اچھا تو ہمارے سامنے کوئی کھلی دلیل پیش کرو.

حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ… أَعْطَانِي(رسول الله ﷺ) نَعْلَيْهِ، قَالَ : ” اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ، فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ، فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ “.

کہ ۔۔۔ مجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے دیے اور اور کہا کہ یہ لے جاؤ اور اس چار دیواری سے پرے جو بھی ملے جو دل کے یقین کے ساتھ کلمہ توحید کا اقرار کرتا ہو، اسے جنت کی بشارت دے دو۔
أخرجه مسلم في “صحيحه”، كتاب : الإيمان باب من مات على التوحيد دخل الجنة (1/ 44) رقم (31).

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَيَانٍ الْوَاسِطِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِلِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ، تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَرْجِعُ ذَلِكَ إِلَى قَلْبِ مُوقِنٍ إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهَا “.

کہ کوئی جان نہیں مرتی جو کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کا اقرار کرتی ہو اور یہ اقرار بڑے یقین والے دل کے ساتھ کرے مگر یہ کہ اللہ اسے بخش دیتا ہے۔

أخرجه ابن ماجه في “السنن”، كتاب الأدب باب فضل لا إله إلا الله (5/ 334) رقم (3796).
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ …قَالَ : فَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ : ” أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، لَا يَلْقَى اللَّهَ بِهِمَا عَبْدٌ غَيْرَ شَاكٍّ فِيهِمَا إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ “.

کہ۔۔۔ اس وقت کہا میں کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کی گواہی دیتا ہوں۔ بے شک ان گواہیوں اور شک نا کرنے والے دل کے ساتھ کوئی اللہ کو نہیں ملتا مگر یہ کہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔
أخرجه مسلم في “صحيحه”، كتاب : الإيمان باب من مات على التوحيد دخل الجنة (1/ 41) رقم (27).
> المحبة:
محبت سے مراد یہ کہ بندہ جس پر ایمان لا رہا ہے، اس بے اعتنائی نا برتے بلکہ اس سے دل میں محبت رکھے، زبان اور فعل سے اس محبت کا اظہار کرے۔ اور کلمے میں اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ تیسرا نام ہے ہی کونسا؟ اور ان دو ناموں کے علاوہ بندہ محبت کرے تو کس سے؟
محبت کے اظہار میں ایک بہت بڑا مظہر یہ ہے کہ بندہ اس چیز سے بھی محبت کرے جس سے اس کے محبوب کو محبت ہو۔ چنانچہ ہر وہ عمل، ہر وہ لباس، ہر وہ ہیئت جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پسند فرما دیں، بندہ بھی اس سے محبت کرے۔۔۔!
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
سورۃ البقرۃ
آیت نمبر: 165

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

ترجمہ:
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے (١) اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں (٢) کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 24

قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

ترجمہ:
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ : أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ “.

کہ تین چیزیں جس کے دل میں جمع ہو گئیں، اس نے ایمان کی حلاوت چکھ لی، 1 اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں 2 کہ بندہ پسند کرے کہ اسے اللہ کے علاوہ کوئی اور محبت نا کرے 3 ۔۔۔ الخ
أخرجه البخاري في “صحيحه”، كتاب : الإيمان باب حلاوة الإيمان (1/ 12) رقم (16).
> القبول:
قبول سے مراد انسان کا دل اور ذہن جس پر وہ ایمان لا رہا ہے اسے قبول کرے۔ اسے قبول کرنے میں اس کے احکام، طاعات، منہیات سب کی سب چیزوں کا قبول شامل ہے کہ بندہ دلی طور پر بالکل تیار ہو جائے کہ اب میرا رب جو بھی حکم کرے میں اس پر سر تسلیم خم کرنے کو تیار ہوں۔ قبول کی ضد رد ہے۔ یعنی بندہ اللہ کی کسی بات کو رد کرنے کا سوچے بھی نا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 65

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

ترجمہ:
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔
سورۃ الصافات
آیت نمبر: 35

إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ يَسْتَكْبِرُونَ

ترجمہ:
یہ وہ (لوگ) ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو یہ سرکشی کرتے تھے (١)
آیت نمبر: 36

وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ

ترجمہ:
اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی بات پر چھوڑ دیں (١)۔
اس میں ذکر ہے کہ کفار قبول ہی تو نہیں کرتے تھے۔
سورۃ الأحزاب
آیت نمبر: 36

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا

ترجمہ:
اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا۔
سورۃ النور
آیت نمبر: 51

إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ:
ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں ٰ اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا (١) یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔
> الإنقیاد:
انقیاد لفظ کا معنی ہے بجا آوری۔ یعنی بندے احکامات کو بجا لانے اور منہیات سے بچ جانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نا کریں۔ بلکہ محبت اور پیار کے ساتھ حکم کو قبول کرے اور اسے پورا کرے۔
قبول اور انقیاد میں فرق یہ ہے کہ قبول دل و دماغ کا کام ہے۔ جبکہ انقیاد باقی جسم(جوارح) کا۔ اسی طرح ایک کسوٹی یہ بھی ہے کہ بندہ قبول میں جس قدر اعلی پائے کا ہوگا، اس کا انقیاد(احکام کی بجا آوری ) اسی قدر زیادہ ہوگا۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
سورۃ لقمان
آیت نمبر: 22

وَمَن يُسْلِمْ وَجْهَهُ إِلَى اللَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ ۗ وَإِلَى اللَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

ترجمہ:
اور جو (شخص) اپنے آپ کو اللہ کے تابع کر دے اور ہو بھی نیکوکار یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔
چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم رحمہما اللہ سے عروة الوثقی کی تفسیر کلمہ لا إله إلا اللہ مروی ہے۔(1 عزاه السيوطي إلى ابن المنذر، 2 أخرجه ابن جرير ٤/٥٦٠. وعلَّقه ابن أبي حاتم ٢/٤٩٦، 3 أخرجه ابن جرير ٤/٥٦١)
اس معنی کے ساتھ کلمہ کی شرط ہوئی کہ بندہ سر سلیم خم بھی کرے۔
> الصدق:
سچائی۔۔ یعنی بندہ اپنے اس قول میں سچا بھی ہو۔
چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
سورۃ المنافقون
آیت نمبر: 1

إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ:
تیرے پاس جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اللہ کے رسول ہیں۔اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعًا جھوٹے ہیں۔
منافقین زبان سے اقرار تو کر رہے ہیں۔ مگر قول میں صدق(سچائی) مفقود ہے جس کی بنا پر ان کی شہادت قبول نہیں ہوئی۔
سورۃ الزمر
آیت نمبر: 32

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكَافِرِينَ

ترجمہ:
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے؟ (١) اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟ (٢) کیا ایسے کفار کے لئے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟
آیت نمبر: 33

وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

ترجمہ:
اور جو سچے دین کو لائے اور اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ مُعَاذٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ “. قَالَ شُعْبَةُ : لَمْ أَسْأَلْ قَتَادَةَ أَنَّهُ سَمِعَهُ عَنْ أَنَسٍ.

کہ جو اس حالت میں فوت ہوا کہ کلمہ توحید اور رسالت کی گواہی دیتا تھا، سچے دل کے ساتھ، وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
أخرجه أحمد في “المسند” (36/ 329) رقم (22003).
ان دلائل کے ذکر کے بعد جو بات دراصل سامنے آتی ہے وہ یہ کہ انسان کا مسلمان ہونا دراصل ایمان، عمل کوشش، دعاء اور محنت کا ایک مکمل مجموعہ(پیکج) ہے۔ نا کہ آج کے کم علمی کے دور میں بیان کیا جانے والا معاملہ کہ صرف یہ کرلو تو کامیاب یا صرف وہ کرلو تو کامیاب۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
سورۃ البقرۃ
آیت نمبر: 208

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

ترجمہ:
ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو (١) وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
اللهم اهدنا الى صراط مستقيم.

تحریر: حافظ نصر اللہ جاويد

یہ بھی پڑھیں: یہی عقیدہ ایک مسلمان کا ہونا چاہیے