سوال (1372)
ایک عورت کے رمضان کے پانچ روزے رہتے ہیں تو کیا وہ ان روزوں سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتی ہے ؟
شوال کے چھ روزوں کی بہت فضیلت ہے، جن کے فرضی روزے شرعی عذر کی وجہ سے رہ جائیں وہ پہلے فرضی روزوں کی قضاء کرکے شوال کے روزے رکھے یا پہلے شوال کے رکھ لے اور بعد میں سال میں فرضی روزوں کی قضاء آسانی سے دے لے؟
جواب
اگرچہ اس بارے اہل علم کا اختلاف ہے، لیکن ہمارا رحجان اس طرف ہے کہ جس کے رمضان کے روزے شرعی عذر کی وجہ سے رہ گئے ہوں وہ فرضی روزے پہلے مکمل کر کے پھر شوال کے روزے رکھتا ہے تو اس بارے کوئی اختلاف نہیں، یہ بہتر طریقہ ہے۔
لیکن بصورت دیگر وہ پہلے شوال کے روزے رکھ لے، کیونکہ شوال کا وقت محدود ہے اور فرضی روزوں کی قضاء کا وقت وسیع یعنی پورا سال ہے۔
جن کے فرضی روزے رہ گئے ہیں وہ شرعی عذر کی وجہ سے رہے ہیں نہ کہ ان کی اپنی مرضی سے۔
بوجہ ازیں جو اسے سارا سال میں قضاء کی رخصت اللہ تعالیٰ نے دی ہے اسے احتمالی دلیل سے محدود نہیں کیا جا سکتا ہے ۔
پہلے ہی رمضان کے روزے اس کے شرعی عذر کی وجہ سے روزے رہ گئے ہیں اور اب اس پر ترتیب فرض کر دی جائے تو مزید مشکل میں پڑ جائے گا یا پھر شوال کی فضیلت سے محروم ہو جائے گا۔
جن احادیث سے پہلے فرضی روزے رکھنے کی شرط اخذ کی جاتی ہے وہ بات عمومی بیان ہوئی ہے نہ کہ بطور شرط ، ورنہ تو بعد میں قضاء دینے والے بھی اس میں شامل نہیں ہوتے۔
الشنقيطي رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“پھر ہم کہتے ہیں کہ اگر معاملہ اس طرح ہے جیسا آپ کہتے ہیں تو پھر یہ حدیث اس شخص کو بھی شامل نہیں ہو گی جو رمضان میں کسی ایک دن کا بھی روزہ چھوڑ دے؟ کیونکہ اگر وہ شوال میں اس کی قضاء بھی کرلے تو بھی اس پر یہ بات صادق نہیں آئے گی کہ اس نے حقیقت میں رمضان کے روزے رکھے ہیں، کیونکہ اس نے قضاء روزہ رکھا نہ کہ ادا” [شرح زاد المستقنع للشنقيطي 11/ 21]
فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ
بہتر ہے کہ پہلے قضاء پھر شوال رکھے ، قضاء نہ رکھ سکنے کی صورت میں شوال کے رکھ لے جیسا کہ حدیث عائشہ سے واضح ہے کہ اگلے رمضان سے قبل قضاء کرتیں ، شوال کے شوال میں ہی رکھے جا سکتے اس لیے ان کو مکمل کر لے یہ سببی ہیں ، یاد رہے کہ قضاء اور شوال جمع نہیں ہو سکتے ہیں ، جیسا کہ بعض لوگ کر گزرتے ہیں۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ