شاید ہم ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے
کسی آنگن میں اتری مانوس سی خوشبوؤں کی طرح، فہم ودانش میں گُندھی ہوئی باتیں دلوں میں مَحبّتوں کی جوت جگا دیتی ہیں۔ شعور و آگہی کی آبشاروں سے فراست اور متانت ہی کے موتی جھڑتے ہیں اور آپ جانیں کہ اگر انسان فہمایش کے ساتھ ساتھ لب ولہجے کی زیبایش کا مالک بھی ہو تو پھر اس کا لفظ لفظ شہرِ دل میں آرزوؤں کے گلاب کِھلا دیتا ہے۔ عقل، شعور، آگہی اور ادراک اللہ ربّ العزت کی ایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ جن کی بنا پر انسان اشرف المخلوقات ٹھہرایا گیا ہے۔ عقل و فہم سے عاری انسان انتہائی خطرناک بن جاتا ہے۔
برطانیہ میں مخبوط الحواس یا مستقل ذہنی فتور میں مبتلا افراد کے محققین کے مطابق 2050 ء تک دنیا میں ڈیمنشیا کے شکار مخبوط الحواس افراد کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو جائے گا۔ ایسے لوگوں کے امراض پر تحقیق کرنے والے ادارے الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں اس بیماری کے شکار افراد چار کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکے ہیں جو آیندہ تیس سالوں میں 13 کروڑ 50 لاکھ ہو جائیں گے۔ برطانیہ میں مخبوط الحواس یا مستقل ذہنی بیماریوں میں مبتلا لوگوں پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کو کینسر کے محققین کی نسبت 1/8 حکومتی امداد ملتی ہے جو ناکافی ہے۔ ان سائنس دانوں کے مطابق مخبوط الحواس لوگوں میں زیادہ کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔ ترقی پذیر ملکوں میں اس مرض کا پھیلاؤ تین سے چار گنا زیادہ ہے۔ محققین کی اصل پریشانی یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ان مخبوط الحواس لوگوں کی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ الزائمر ڈیزیز انٹرنیشنل کے سابق ڈائریکٹر” مارک وورٹمین“ اسے ایک عالمی وبا کہتے ہیں جو روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ اس کے سابق چیف ایگزیکٹو ” جیریمی ہیوز “ کے بہ قول یہ مرض تیزی سے نئی نسل کے لیے صحت اور سماجی دیکھ بھال کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے، اس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
ذہنی بیماری میں مبتلا لوگوں کی مختلف حالتیں اور اقسام ہوتی ہیں۔ کچھ مریض تو نالیوں میں پڑی ہوئی چیزیں تک اٹھا کر کھا لیتے ہیں اور گلیوں میں بھی برہنہ یا نیم برہنہ پھرتے رہتے ہیں۔ ایسے پاگل، غبی اور مجنون قسم کے لوگ اپنے ماحول کے لیے بڑے بڑے مسائل پیدا کرتے ہیں نہ معاشرے میں جرائم کا سبب بنتے ہیں، میرا رُوئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو پڑھے لکھے بے وقوف ہوتے ہیں، انھیں باقاعدہ پاگل نہیں سمجھا جاتا، ایسے لوگ بعض اوقات اعلا عہدوں پر بھی فائز ہو جاتے ہیں مگر اپنی کم عقلی کی بنا پر مسائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔
مَیں ایسے پاگلوں اور ذہنی معذوروں کی بات نہیں کر رہا جن کا مقیاسِ ذہانت مشہور ماہر نفسیات ٹرامن نے 50 تا 59 بتایا ہے۔ مَیں ایسے ضعیف العقل لوگوں کی بات بھی نہیں کر رہا جن کا مقیاسِ ذہانت 60 تا 69 مقرر کیا گیا ہے۔ مَیں تو ایسے لوگوں کی بات کرنے چلا ہوں جو ہمارے معاشرے میں بڑے جلد باز ہوتے ہیں، جو کسی بھی معاملے میں غوروفکر کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے اور ان کی ایسی ہی عادتوں کی بنا پر ہم انھیں مخبوط الحواس کہ دیتے ہیں۔ پاگل، غبی اور ضعیف العقل لوگوں سے معاشرے کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا مگر ایسے نیم پاگل اور نیم بے وقوف لوگ خوش پوش بھی ہوتے ہیں اور تعلیم یافتہ بھی۔ جو نارمل لوگوں کی طرح زندگی بھی گزار رہے ہوتے ہیں مگر اپنے چڑچڑے پن، سخت گیری اور ہر کام میں عجلت کے باعث مخبوط الحواس سمجھے جاتے ہیں۔ ایسے عقل کے موٹے جتنے بھی بڑے عہدے پر فائز ہو جائیں، اتنا ہی زیادہ نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست اپنی بہن کا رشتہ طے کرنے گئے، لڑکے نے بڑے عامیانہ انداز میں موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور انتہائی بے ڈھنگے انداز میں رَیس دے کر موٹر سائیکل دوڑا کر لے گیا، محض اسی حرکت کی وجہ سے میرے دوست نے اسے اپنی بہن کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا کہ لڑکے کی حرکات و سکنات بڑی اوچھی تھیں۔ انسان کی حرکتوں اور عادات ہی کی وجہ سے انسان اپنا مقام اور مرتبہ متعیّن کرتا ہے۔ کاشف حسین غائر کا شعر ہے۔
ذرا سی دیر میں دل میں اترنے والے لوگ
ذرا سی دیر میں دل سے اتر بھی جاتے ہیں
اللہ ربّ العزت نے غصّہ بھی اسی لیے حرام ٹھہرایا ہے کہ اس کیفیت میں انسان مخبوط الحواس ہو جاتا ہے مگر کچھ لوگ مستقل طور پر غصے میں رہتے ہیں، جو اپنے گھر اور معاشرے کے لیے سوہانِ روح بن جاتے ہیں۔ دیکھ لیں! محض 30 روپے کے لیے ایک ریہڑی والے دو نوجوانوں کو بڑے بھیانک انداز میں قتل کر دیا۔روز ہی ایسے وحشیانہ تشدد کا قتل و غارت گری کی ویڈیوز دیکھنے میں آتی ہیں۔ایسے جرائم کوئی مجنون، مخبوط الحواس یا پاگل لوگ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جنھیں معاشرے میں معزز بھی سمجھا جا رہا ہوتا ہے۔
صحابہ ء کرامؓ نے کتبِ احادیث میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فہم و فراست، اندازِ گفتگو اور عاداتِ مبارکہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے جو ساری امّت کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ صحابہ ء کرامؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ کی گفتگو میں چاشنی ہوتی، بات واضح اور دوٹوک ہوتی تھی، نہ مختصر نہ فضول، اندز ایسا کہ ہوتا کہ گویا موتی جھڑ رہے ہیں، مسکراتے تو دانت اولے کی طرح چمتے، شمائل ترمذی میں ہے کہ نبیِ مکرّمؐ ہر امر میں اعتدال اور توازن اختیار فرماتے، تَلوّن اور بے ہنگم پن نہیں تھا، نہ چیختے چلّاتے، نہ زیادہ عتاب فرماتے اور نہ بہت زیادہ تعریف کرتے تھے۔
کسی دانا کا قول ہے کہ ذہین آدمی کے مرنے سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ایک بے وقوف کے اقتدار میں آنے سے ہوتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ایسے بے وقوف لوگوں کو بے وقوف سمجھا ہی نہیں جاتا حالاں کہ ڈیمنشیا کے مریضوں کی نسبت ایسے بے وقوف اور احمق لوگ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ آپ آج بھی غور کر لیجیے! باقاعدہ ذہنی مریضوں اور پاگلوں سے دنیا کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اصل نقصان کا باعث یہ عقل کے موٹے لوگ ہوتے ہیں۔
انسان کی طبیعت میں ٹھہراؤ، سکون اور ترتیب و تنظیم نہ ہو تو انسان کی طبیعت میں چڑچڑا پَن، جذباتیت اور لاابالی دَر آتی ہے۔ کسی بھی انسان میں صرف پاگل پن نہ ہونا ہی کافی نہیں ہوتا، کسی بھی انسان کا محض غبی اور ضعیف العقل نہ ہونا ہی اس کی عقل ودانش کا معیار متعیّن نہیں کرتا، طبیعت میں سکون اسی انسان کے ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کر سلیقے اور قرینے سے بات کرتا ہے۔ کرداروعمل کا یہ منفرد انداز لوگوں کے دلوں میں گھر کر کے اس کی شخصیت کو اعلا وارفع مقام عطا کرتا ہے۔
ہم رنگوں کو پسند کرتے ہیں، ہم روشنیوں اور اجالوں کا ذوق رکھتے ہیں کیوں نہ ہم اپنی باتوں اور کرداروعمل میں عقل و دانش کے ایسے دل آویز رنگ بھریں کہ لوگ ہماری شخصیت کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ضیا جالندھری کا بہت عمدہ شعر ہے۔
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تُو آئے
کیوں نہ ہم اپنے لب و لہجے میں ایسے اجلے اور خوش نما رنگ بھر لیں کہ لوگ ہم سے مَحبّت کرنے لگیں، ہم تحمّل اختیار کریں، بردبار بنیں، سوچ سمجھ کر بولیں، جلد بازی نہ کریں، فضول اور یاوہ گوئی سے پرہیز کریں، ایسا کرنا ناممکن ہرگز نہیں ہے، ہم آسانی سے ایسا کر سکتے ہیں مگر شاید ہم ایسا کرنا ہی نہیں چاہتے۔
(انگارے.. حیات عبداللہ)