سوال (4865)
مشائخ حدیث شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے سے کیا مراد ہے؟
جواب
حدیث میں اس چیز کی وضاحت آئی ہوئی ہے کہ یہ شہری دیہاتی کے لیے اور دیہاتی شہری کے لیے سودہ نہ کرے، اس کا مطلب ہے کہ کمیشن کا کام نہ کرے، یعنی ان دیہاتیوں کے لیے شہری ایجنٹ نہ بنے، یہ اس لیے کہ باہر سے آنے والے قافلوں کو مارکیٹ کی ویلیو کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا، اس میں بنیادی بات یہ تھی کہ دھوکہ ہو سکتا تھا، اس لیے اس چیز کا دروازہ ہی بند کردیا ہے، علاقائی سطح پر کمیشن کا کام ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ قیمتوں کو جانتے ہیں، اتار چڑھاؤ کو جانتے ہونگے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
آپ کا جو سوال ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان نہ بیچے، اس کی بنیاد صحیح البخاری کی روایت ہے۔
“نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يبيع حاضر لباد”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے کہ شہری دیہاتی یعنی غیر مقیم کے لیے سامان نہ بیچے، حاضر سے مراد وہ شخص ہے، جو مارکیٹ کی قیمتوں سے اچھی طرح واقف ہو، “باد” سے مراد جو غیر مقیم ہے، باہر سے آ رہا ہے، اس کو مارکیٹ کے بہاؤ کا علم نہیں ہے، منع کرنے کی وجہ سے یہ ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے ایجنٹ بنے اور اس میں ضرر اور خسارے والا پہلو ہو، اس ممانعت میں دونوں کے لیے فائدہ ہے، دیہاتی چونکہ اس کو قیمتوں کا علم نہیں ہوتا ہے، شہری کو علم ہوتا ہے، ہو سکتا ہے کہ شہری اس کے ذریعے ناجائز نفع حاصل کرے، بازار میں دھوکہ دہی اور ذخیرہ اندوزی کا ایک معاملہ شروع ہوجاتا ہے، خریداروں کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ ایک مصنوعی قیمت پیدا ہو جاتی ہے، جیسا کہ آج ہمارے مارکیٹوں میں ہے، چینی ایک سو ستر کی تھی، اب ایک سو نوے تک پہنچ گئی ہے، اس میں امام شافعی اور امام احمد کا قول یہ ہے کہ یہ ممانعت اس وقت تک ہے، جب شہری دیہاتی کو مارکیٹ سے روک دے کہ تم نہ بیچو، میں تمہارا سامان بیچتا ہوں، تمہیں فائدہ ہوگا، اگر دیہاتی اجازت دے دے کہ شہری میرا مال بیچے اور دونوں قیمت پر راضی ہوں تو بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے، جیسا کہ بعض شوافع اور حنابلہ کا اس حوالے سے فتویٰ بھی موجود ہے، احناف کا موقف یہ ہے کہ شہری دیہاتی کا مال بیچ رہا ہے، اس میں کوئی دھوکہ دہی نہیں ہے، ذخیرہ اندوزی نہیں ہے، قیمت کا مصنوعی اتار چڑھاؤ اس میں نہیں آ رہا ہے، ایک نارمل پراسیس ہے، شہری دیہاتی کی مدد کر رہا ہے، کیونکہ دیہاتی مارکیٹ کو نہیں جانتا ہے، مارکیٹ کی قیمتوں کو نہیں جانتا ہے، خریداروں کو نہیں جانتا ہے، شہری معاوضہ بتا کر لیتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، مجھے بھی احناف کا قول پسند ہے، باقی فقہاء اس کو حرمت تحریمی میں لیتے ہیں، احناف نے اس کو سبب کے ساتھ اٹیچ کیا ہے، اگر اس کو حرمت والے پہلو پر لیں، فصلیں تو گاؤں دیہات میں ہوتی ہیں، گاؤں دیہات والے مارکیٹ آ کر ان کو بیچیں تو یہ بالکل رکنے والی پوزیشن ہے، اگر ممنوع پہلو نہیں ہے تو شہری ایجنٹ دیہاتی کا مال بیچ سکتا ہے، دھوکہ دہی نہ ہو، قیمتوں میں بگاڑ نہ ہو، صارفین کا استہزال نہ ہو، ایسی کیفیت میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اگر شہری ایسے کرتا ہے کہ بولتا ہے کہ مال مجھے دے دو، میں بیچ دوں گا، آپ گاؤں چلے جائیں، پھر شہری ڈبل منافع پر بیچتا ہے، یہ تو صراحتاً حدیث کی مخالفت ہے، بعض اوقات شہری بیچ میں ایجنٹ بن کر کام کرتا ہے، قیمتیں چھپا کر خود فائدہ اٹھتا ہے، یہ بھی حرام ہے، اگر دیہاتی کو قیمتوں کا علم ہے، شہری ایجنٹ جو معاوضہ لیتا ہے، اس کا علم ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی مشروط اجازت دی ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ