موتُ العالِم موتُ العالَم

علما کرام وارثانِ انبیا ہیں، ان کے وجود سے زمین پر اللہ کی حجت قائم رہتی ہے، صحیح اور غلط میں تمیز پیدا ہوتی ہے، اور جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں روشنی پھیلتی ہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے:

“موتُ العالِم موتُ العالَم”

یعنی جب کوئی بڑا عالمِ دین اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو گویا پورے عالم کا ایک حصہ ختم ہو جاتا ہے۔
عالم اپنے علم کے ذریعے دین کی حفاظت کرتا ہے، شریعت کے مسائل سمجھاتا ہے اور معاشرے کو راہِ ہدایت پر ڈالتا ہے، عالم دین فتنوں کے طوفان میں امت کی کشتی کا ملاح ہوتا ہے۔
جب عالم دنیا سے جاتا ہے توعلم کا ایک دروازہ بند ہو جاتا ہے، امت ایک مشفق رہنما سے محروم ہو جاتی ہے، جہالت اور گمراہی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، معاشرہ علمی و اخلاقی رہنمائی سے خالی ہو کر فتنوں کا شکار ہونے لگتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ علم کو یکایک نہیں اٹھائے گا بلکہ علماٰء کے اٹھ جانے سے علم اٹھ جائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری مسلم)
اس لیے علماء کی موجودگی اللہ کی بڑی رحمت ہے، اور ان کی موت ایک بڑا نقصان، ہمیں چاہیے کہ علما کی قدر کریں، ان کے علم سے فائدہ اٹھائیں، ان کے جانے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے علم کو زندہ رکھیں۔
آج عالم اسلام کا ایک اور علمی چراغ گل ہوگیا یے، سماحة الشيخ عبدالعزيز آل شيخ، جو مملکت سعودی عربیہ کے مفتی اعظم تھے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، اللہ تعالٰی انکی کامل مغفرت فرمائے، اور انکی دینی اور علمی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور امت کیلئے ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

بشیر الرحمن حنیف

یہ بھی پڑھیں:صدور ایچ ایم ایس کا تعارف اور مشکلات کے حل میں کردار