سوال (5238)
عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه قال قال رسول الله ﷺ إن مما أخوف عليهم منكم رجلٌ قَرَأ القرآن، حتى إذا رئيث بهجته عليه، وكان رِدْءًا للإسلام، غَيَّرَهُ إلى ما شاء الله، فانسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وسعى على جاره بالسيف، ورماه بالشرك قلت: يا نبي الله، أيهما أحق بالشرك، المَرْمِي أم الرَّامِي؟ قال: بل الرامي،
یہ حدیث شیخ عبد الوہاب کے خلاف پیش کرتے ہیں؟
جواب
اس روایت کو اکثر اہل علم نے قبول کیا ہے، امام البانی رحمہ اللہ کی صحیحہ وغیرہ دیکھی جا سکتی ہے۔ ہمارے بڑے مشائخ بھی بیان کرتے ہیں، سمجھنے والی بات یہ ہے کہ “رماہ بالشرک” وہ اس پر ناجائز تہمت لگائے گا، کسی پر جائز فتویٰ لگانا مراد نہیں ہے، ورنہ کسی بھی فتویٰ دے نہیں سکتے ہیں، پھر تو یہ دروازہ بند کرنا چاہیے، پھر تو قادیانی پر بھی فتویٰ نہیں لگا سکتے ہیں، عالمی سطح پر یہی کوششیں چل رہی ہیں، غامدی ازم کی بھی یہی کوشش ہے، تو جہالت ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ خود ناہل ہے، اور دوسروں پر فتوے دینا ہے، اس سے شیخ الاسلام بری ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ حدیث صحت کے اعتبار سے محل نظر ہے، اگر علی الاقل حسن بھی ہو تو مراد اس سے کسی پر بلا دلیل کے شرک کا فتویٰ صادر کرنا ہے، سو ایسا کوئی اہل حدیث ثقہ عالم نہیں کرتا ہے۔ ہاں جب نہ تاویل ہو اور نہ ہی کوئی موانع ہو اور دلائل وقرائن سے کفر اکبر،شرک اکبر ثابت ہو جائے تو معین حکم لگایا جائے گا۔
بہرحال اس روایت پر میری تحقیق وتوضیح موجود ہے، جو محترم ومکرم دکتور قدرت الله فوق صاحب آف لاہور کے استفسار پر پیش کی تھی مولوی جلالی کے ایک بیان پر.
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ