شیخ عبدالعزيز بن عبدالله آل الشيخ رحمہ اللہ عصر حاضر کے ان جلیل القدر علما میں سے تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی دینِ اسلام کی خدمت، شریعت کی ترویج، اور امت کی رہنمائی کے لیے وقف کر دی۔ آپ نہ صرف ایک ممتاز عالم دین تھے بلکہ سعودی عرب کے منصبِ افتاء پر فائز رہ کر امت کی علمی و فقہی ضرورتوں کو پورا کرنے والے رہنما بھی تھے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

شیخ رحمہ اللہ کی ولادت 1943ء میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ کم سنی میں ہی آپ نے غیر معمولی ذہانت اور دینی شغف کا ثبوت دیا اور محض دس برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ بعد ازاں آپ نے باقاعدہ دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور 1964ء میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ (کلیۃ الشریعۃ) ریاض سے فارغ التحصیل ہوئے۔

آزمائش اور صبر

شیخ عبدالعزيز آل الشيخ رحمہ اللہ کو جوانی ہی میں ایک کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا۔ زندگی کی دوسری دہائی ہی میں آپ کی بینائی مکمل طور پر ضائع ہو گئی۔ مگر یہ محرومی آپ کے عزم اور دینی خدمت کے جذبے کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکی۔ نابینا ہونے کے باوجود آپ نے تدریس، خطابت اور فقہ و فتویٰ کے میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دیں۔

تدریسی و علمی خدمات

تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1965ء میں آپ نے معہد امام الدعوۃ العلمی ریاض میں تدریس کا آغاز کیا۔ وہاں سے ہزاروں طلبہ نے آپ سے فیض پایا۔ ساتھ ہی ساتھ آپ نے علمی مباحث اور دینی تحقیقات میں اپنی خدمات پیش کیں۔

منصبِ امامت اور خطابت

1982ء میں آپ کو مسجدِ نمرہ عرفات میں امامت اور خطابت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ عرفات کے مقام پر خطبۂ حج دینا ایک عظیم منصب ہے، جس کے ذریعے لاکھوں حجاج کو براہِ راست نصیحت اور رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔ یہ خدمت آپ کی علمی و دینی وجاہت کی ایک بڑی دلیل ہے۔

علمی و دینی مناصب

1987ء میں آپ کو ہیئۃ کبار العلماء کا رکن بنایا گیا۔

1995ء میں ایک شاہی فرمان کے تحت آپ کو نائب مفتی عام مقرر کیا گیا۔

1999ء میں آپ کو مفتی عام مملکت سعودی عرب اور ہیئۃ کبار العلماء کے صدر کے عہدے پر فائز کیا گیا۔
یوں آپ سعودی عرب کی تاریخ میں تیسرے مفتی اعظم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

اثرات اور علمی میراث

شیخ عبدالعزيز آل الشيخ رحمہ اللہ نے نصف صدی سے زیادہ دین کی خدمت میں گزاری۔ آپ کے فتاویٰ، خطبات اور علمی آراء نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پوری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کی رہنمائی کی۔ آپ کے اندر دینی غیرت، بصیرت، اور امت کے مسائل کا درد نمایاں تھا۔

آپ نے ہمیشہ اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو بیان کیا اور عصری مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا۔ بینائی سے محرومی کے باوجود اپنے مضبوط حافظے اور گہرے علمی شعور کی وجہ سے ممتاز حیثیت کے حامل رہے۔

شیخ عبدالعزيز بن عبدالله آل الشيخ رحمہ اللہ اپنی زندگی میں امت کے لیے ایک مینارۂ نور اور بعد از وفات ایک تابندہ یادگار ہیں۔ آپ کی شخصیت صبر، تقویٰ، علم اور اخلاص کا حسین امتزاج تھی۔ سعودی عرب کی دینی تاریخ میں آپ ہمیشہ تیسرے مفتی اعظم اور ایک عظیم عالم دین کی حیثیت سے یاد رکھے جائیں گے۔

(عمران صارم)

https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=24872533315698772&id=100001063416628&rdid=kh1lmiNoiba37L0Y#

شیخ عبدالعزیز آل الشیخ اور فکری انحرافات

شیخ عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ امت اسلامیہ کے ان عظیم علماء میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت اور امت کی رہنمائی میں گزاری۔ دہائیوں تک آپ نے عرفات میں خطبہ دیا، جس میں حکمرانوں اور عوام دونوں کو دین کے بنیادی اصولوں کی یاد دہانی کرائی۔ آپ نے ہمیشہ امت کو وحدت، تقویٰ اور شریعت کی طرف دعوت دی۔ آپ کے بارے میں یہ بھی معروف ہے کہ آپ نے بڑے علماء جیسے ابن عبدالبر اور امام نووی رحمہم اللہ کی طرف سے حج کیا، جو خود حج پر نہ جا سکے لیکن جن کا اسلام میں عظیم علمی مقام ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ بعض لوگ محض اس بنیاد پر آپ پر تنقید کرتے ہیں کہ آپ سعودی عرب کے مفتی تھے، تو گویا آپ نے حکمرانوں کو نصیحت نہیں کی یا منکرات پر راضی رہے۔ حالانکہ اس بارے میں یقینی فیصلہ کرنا ممکن نہیں، اور اگر اس پہلو میں کوئی کمی اگر رہی بھی ہو تو یہ آپ کی عظیم خدمات کو کم نہیں کرتی۔
دوسری طرف تضاد یہ ہے کہ بعض حلقے حسن نصر اللہ اور قاسم سلیمانی جیسے افراد کو اولیاء اللہ اور شہداء کا درجہ دیتے ہیں، حالانکہ ان کا طریقہ مسلمانوں کو اذیت دینے اور ظلم کرنے پر مبنی تھا۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنی تقریروں میں امریکہ اور اسرائیل کو برا بھلا کہتے تھے، انہیں اہل ایمان کے مقام پر فائز کر دیا گیا۔
یہ طرزِ فکر دراصل گمراہ کن منہج اور غیر متوازن نفسیات کا نتیجہ ہے، جو امت کو حق سے دور اور باطل کے قریب کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے علماء کی خدمات کا اعتراف کریں، ان کے لیے دعا کریں، اور امت کو ایسے فکری تضادات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔
عبد الرحمن راضی العماری کی فیس بک پوسٹ کا مفہومی ترجمہ

(عمران صارم)

مفتی اعظم کی عظیم والدہ کی مثالی قربانیاں

جب سماحة المفتي شیخ عبد العزیز آل الشیخ رحمہ اللہ کے والد شیخ عبداللہ وفات پا گئے تو اس وقت شیخ عبد العزیز بہت چھوٹے تھے، اس لیے انھیں والد کے ساتھ گزاری زندگی یاد نہ رہی، گویا وہ سب خواب کی طرح تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ان کی والدہ سارہ بنت ابراہیم الجهيمي رحمہا اللہ نے، جو نیک اور پرہیزگار خاتون تھیں، ان کی پرورش اور دیکھ بھال نہایت اہتمام سے کی۔

ابتدائی عمر میں شیخ عبد العزیز صرف اپنی دائیں آنکھ سے نہایت کمزور نظر رکھتے تھے۔ والدہ ان کی مسلسل نگرانی کرتیں، ان کے ساتھ رہتیں اور روزانہ نماز کے لیے انھیں مسجد لے جاتیں، خصوصاً فجر کی نماز پر۔ نماز کے بعد انتظار کرتیں اور پھر انھیں ساتھ لے کر گھر واپس آتیں۔

جب 1381ھ / 1961ء میں شیخ نے اس آنکھ کا آپریشن کرایا جس سے وہ دیکھتے تھے، تو ان کی والدہ رحمہا اللہ اسپتال میں ہمراہ رہیں۔ اس وقت شیخ پانچ مریضوں کے ساتھ ایک مشترکہ کمرے میں تھے۔ والدہ کثرتِ ملاقات کنندگان کی وجہ سے شرمندہ ہوتیں اور کمرے سے باہر راہداری میں رات گزار دیتیں۔ بعد میں جب شیخ کو الگ کمرہ مل گیا تو وہ ان کے ساتھ اسی کمرے میں رہنے لگیں۔

جب آپریشن کامیاب نہ ہوا تو وہ سخت رنجیدہ ہوئیں اور ایک سوئس ڈاکٹر سے کہا: “اگر ممکن ہو تو میری ایک آنکھ نکال کر انہیں لگا دیجیے!”

اس موقع پر سابق مفتیٔ عام سعودی عرب، شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
“اے میری بہن! یہ تو اللہ کا فیصلہ اور تقدیر ہے۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہو، ہم سب اندھے ہی کی طرح ہیں۔”

اس پر انھوں نے کہا:
“شیخ! اگر مجھے یقین ہوتا کہ میری آنکھ لی جا سکتی ہے تو میں فوراً اسے ان کے لیے دے دیتی۔”

والدہ رحمہا اللہ ہر سال حج میں شیخ عبد العزیز کے ساتھ شریک ہوتیں۔ ان کے ساتھ انھوں نے چالیس حج کیے۔

وہ سنہ 1436ھ / 2015ء میں تقریباً سو برس کی عمر میں وفات پا گئیں۔
اللہ تعالیٰ ان پر اپنی وسیع رحمت نازل فرمائے۔ آمین

مترجم پوسٹ: عمران صارم

https://www.facebook.com/story.php?story_fbid=24878603921758378&id=100001063416628&rdid=jrLhJVpmMSIAOhbW#

یہ بھی پڑھیں:کانپ اٹھا ہوں گلی کوچوں میں پانی دیکھ کر