فضیلة الشیخ ابو اسحاق الحوينى وفات پا گئے
مشہور مصری سلفی عالم دین ابو اسحاق الحوینی کوئے بقا کو روانہ ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
ولادت:
١٩٥٦ مصر
وفات:
٢٠٢٥ء قطر
ابا حج کرکے آئے اور نام حجازی رکھ دیا۔ پورا نام حجازی محمد یوسف شریف ہے مگر دنیا نے انہیں محدث ابو اسحاق الحوینی کے نام سے پکارا۔ آپ کی کنیت کی کہانی بھی قابل التفات ہے۔ شروع میں علامہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی کتابیں پڑھ کر اپنی کنیت ان کے ان کنیت پر ابو الفضل رکھ لیا، پھر دوستی ابو اسحاق الشاطبی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے ہوئی، ایسی دوستی ہوئی کہ کنیت بدلنے کی سوچنے لگے، اسی دوران صحابی جلیل سعد بن ابی وقاص کا نام سامنے آیا، ان کنیت بھی ابو اسحاق تھی، سو شیخ بھی محبت میں ابو اسحاق بن گئے۔
آپ کی پرورش دیندار گھرانے میں ہوئی، آپ کے ابا بہت روزے رکھا کرتے تھے اور نیک و پرہیزگار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد جامعہ عین شمس، قاہرہ کے شعبہ ہسپانوی زبان میں داخل ہوئے۔ آپ بڑے ذہین و فطین تھے۔ کلیہ کے تینوں سال آپ ٹاپ تھری میں شامل رہے۔ آپ اسپین بھی گئے مگر وہاں کے حیا سوز ماحول سے اکتا کر جلد ہی دیارِ من لوٹ گئے۔
آپ کے اساتذہ میں شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین، شیخ عبد اللہ بن جبرین اور علامہ البانی رحمہم اللہ کا نام سر فہرست ہے۔ خاص کر شیخ البانی سے آپ کا تعلق خاصا گہرا تھا۔ علامہ البانی کی طرف شیخ موصوف کے دو سفر بڑے مشہور ہیں۔ ان علمی اسفار میں آپ نے علامہ البانی رحمہ اللہ سے کئی سارے سوالات کیے جو علوم حدیث اور عصر حاضر کے مسائل سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ البانی کو ان سے اس قدر انسیت تھی کہ آپ کو دیکھتے ہی خوش ہو جاتے تھے۔ آپ نے اس قدر علمی تفوق حاصل کیا کہ استاذ مکرم یعنی علامہ البانی نے کئی جگہوں پہ آپ کی تعریف و تحسین کی۔ دوسرے استاذہ نے بھی آپ کی تعریف کی بلکہ شیخ ابن جبرین انہیں محدث مصر کے لقب سے ملقب کرتے تھے سو شیخ موصوف ان کے درس میں حاضر ہونے سے شرمانے لگے۔ آمدم بر سر مطلب کہ علامہ ابو اسحاق الحوینی رحمۃ اللہ علیہ عصرِ حاضر کے بہت بڑے عالم دین تھے اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے حقیقی معنوں اپنی زندگی دین کے نام پر وقف کردیا تھا۔ آپ نے بہت ساری کتابیں بھی لکھیں جن کی تفصیل کبھی پھر سہی۔ بس اتنا کہ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الذنوب والخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم جازه بالإحسان احسنا وبالاساءه عفوا وغفران اللهم عامله بما انت أهل له ولا تعامله بما هو أهل له اللهم واحشره مع النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقا اللهم امين يارب العرش العظيم وجميع موتى المسلمين اجمعين
محمد ملک
محدثِ وقت شیخ ابو اسحاق الحوینیؒ ایک شمع جو بجھ گئی!
یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ اہلِ علم کے قافلے کا وہ چراغ، جو صفحۂ گیتی پر حدیثِ رسول ﷺ کی روشنی بانٹتا رہا، آج خود عدم کے اندھیروں میں چھپ گیا!
محدث ابو اسحاق الحوینی— وہ نام جسے علماے حدیث میں امتیاز حاصل تھا، وہ ہستی جس نے قال اللّٰہ و قال الرسول کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنایا، وہ محقق جس کی نگاہ روایت کی باریکیوں کو یوں پرکھتی تھی جیسے جوہری نگینے کو پرکھتا ہے۔ حدیث کی سند ہو یا متن، رجال کی جرح ہو یا تعدیل، شیخ الحوینی کی زبان جب کسی مسئلے پر کھلتی تو گویا قرونِ اولیٰ کے محدثین کا لہجہ سنائی دیتا۔ عرب کے علمی حلقے ان کے درس میں کھنچے چلے آتے، اور ان کی مجلس گویا علمِ حدیث کی ایک زندہ بزم ہوتی۔
شیخ ابو اسحاق الحوینی کا اصلی نام حجازی محمد یوسف شریف تھا۔ وہ صرف محدث نہ تھے بل کہ ایک داعی، ایک مجاہدِ اصلاح بھی تھے۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر جملہ، ہر وعظ، گویا دلوں پر ضرب لگانے والا تیر تھا— بہ راہِ راست، بے کم و کاست، بغیر کسی مصلحت کے! قرآن و حدیث کی روشنی میں وہ امت کو جھنجھوڑتے، بدعات کے حجاب چاک کرتے، اور لوگوں کو اصل دین کی طرف بلاتے۔ ان کے خطبات میں وہی جلال تھا جو سلف کے خطبوں میں ہوتا تھا؛ وہی سادگی جو اکابر محدثین کا طرۂ امتیاز تھی۔ ان کی دعوت کی برکت سے بے شمار دلوں میں دین کی شمع روشن ہوئی، بے شمار بھٹکے ہوؤں نے راہِ راست پائی۔
شیخ الحوینی نے علامہ ناصر الدین البانیؒ جیسے محدثِ وقت کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا اور ان سے بہت مستفید ہوئے؛ صرف علل سے متعلق دو سو سوالات ان سے پوچھے۔ محدث البانی بھی انھیں بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کی علمی تحقیقات کو سراہتے تھے۔ شیخ ابن بازؒ، ابن عثیمینؒ، ابن جبرینؒ، اور محمد نجیب المطیعیؒ جیسے اساتذہ نے بھی ان کے علمی ذوق کی آب یاری کی اور یوں وہ فنِ حدیث کے درخشندہ ستارے بن کر ابھرے۔
ان کی تحقیقاتِ حدیث میں غوث المكدود بتخريج منتقى ابن الجارود اور بذل الإحسان بتقريب سنن النسائي بہت ممتاز ہیں۔ نکاح سے متعلق شیخ کی تصنیف الانشراح في آداب النكاح بھی بڑی ہی مفید ہے اور نکاح کے احکام و آداب پر مستند دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے ضعیف احادیث کی نشان دہی پر مشتمل کتاب النافلة في الأحاديث الضعيفة والباطلة بھی تحریر کی۔ إقامة الدلائل على عموم المسائل کے نام سے دینی مسائل پر ان کے فتاویٰ کا مجموعہ بھی شایع ہو چکا ہے۔ ابن ابی الدنیا کی کتاب الصمت اور تفسیر ابن کثیر کی تحقیق و تخریج بھی ان کے نمایاں علمی کارناموں میں شامل ہیں۔ ان کی تصنیفات و تالیفات اور تحقیقات کی تعداد درجنوں میں ہے۔
آہ! وہ ہاتھ جو صحاح ستہ کے اوراق پلٹتے نہ تھکتے تھے، آج مٹی تلے جا دَبے؛ وہ زبان جس پر حدیث کے نکات رواں رہتے تھے، آج خاموش ہو گئی۔ پر کیا کیجیے، یہی دنیا کا دستور ہے۔ شیخ کی موت حقیقتاً اک جہان کی موت ہے کہ ہر ایک نوحہ کناں ہے:
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
آج شیخ چلے گئے، مگر ان کی صداے حق گونجتی رہے گی؛ ان کے علوم زندہ رہیں گے؛ اور ان کی محنتوں کا ثمر قیامت تک امت چکھتی رہے گی۔
اللّٰہ شیخ کی قبر کو اپنے نور سے بھر دے، اور ان کے علم سے آنے والی نسلوں کو سیراب کرتا رہے! آمین۔
(١٨ مارچ، ٢٠٢٥ء / ١٧ رمضان المبارک، ١٤٤٦ھ)
طاہر اسلام عسکری
خبر غم
محدث کبیر، محدث دیار مصر فضیلة الشیخ ابواسحق الحوینی کچھ دیر پہلے وفات پا گئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
شیخ ابواسحق، شیخ الالبانی کے بعد علوم حدیث میں ایک بلند مقام رکھنے والے متبحر سلفی عالم دین تھے۔
اس کے علاوہ شیخ کو فتاوی، فقہیات، تفسیر، لغت، وعظ و ارشاد میں کمال حاصل تھا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
بہت بڑا ستون علم آج دنیا سے رخصت ہو گیا۔
اللھم اغفر لہ و ارحمہ اللھم ادخلہ جنة الفردوس
اللھم الحقہ بالنبیین و الصدیقین والشھداء و الصالحین وحسن اولئک رفیقا
الصدیقی
دور مصر کے محدث کبیر شیخ ابو اسحاق الحوینی انتقال کر گئے، پورا عالم اسلام اس پر غمزدہ ہے،کبھی یوں ہوتا ہے، ہمسائے میں کوئی وفات پاتا ہے اور دل اس کے غم سے اجنبی رہتے ہیں، یہ کیا چیز ہے جو دور دیس کے اجنبی زبان والوں کے غم ہمارے دلوں میں انڈیل دیتی ہے اور اپنے دیس کے ہم زبانوں کے غم سے ہم بے بہرہ رہتے ہیں، یہ علم کی محبت ہے، یہ علما کی عزت افزائی ہے۔ چلنا ہو تو اس راستے پر چلو، جہاں مخلوق ہی نہیں، آسمان و زمیں بھی تمھارے جانے پر روئیں، یہ شان کسی اور کی نہیں کہ وہ جئے تو فرشتے اس کے لئے پر پھیلائیں ، مچھلیاں سمندروں میں اور چیونٹیاں اپنے بلوں میں ان کے لئے دعا کریں اور وہ جائیں تو زمانہ اشکبار ہو اٹھے۔ یہ راستہ علم کا راستہ ہے، یہ شان اس راستے کے مسافروں کی شان ہے۔
يوسف سراج