سوال (4016)
کیا شیخ ابو اسحاق حوینی کا ایسا ہی عقیدہ تھا؟ جیسا کہ مندرجہ ذیل تحریر میں ہے؟
ابو اسحاق الحوینی
مصیبت یہ ہے کہ ہمارے برصغیر کے طلبہ اور اہل علم کسی بھی شخصیت کی کتابیں اور دروس ومحاضرات کی مقدار دیکھ کر اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسے امام، محدث، فقیہ اور داعی ومجتہد سمجھنے لگتے ہیں، یہی معاملہ حوینی صاحب کے ساتھ ہے، ابتدا میں میں خود بکثرت ان کے دروس ومحاضرات سنتا تھا، بالخصوص حدیث اور علم حدیث سے متعلق ان کے دروس کا تو میں دلدادہ تھا، میں نے عالمیت کے مرحلے میں جامعہ سلفیہ بنارس میں ہی اختصار علوم الحدیث پر ان کے سارے محاضرات سن لیا تھا اور انہیں بہت بڑا محدث سمجھتا تھا، لیکن پھر ان کے منہج وفکر کا علم ہوا کہ یہ تکفیری ہیں، خوارج کی طرح شراب نوشی وغیرہ کبیرہ گناہوں کو موجب تکفیر سمجھتے ہیں، ہمیشہ بدعتیوں کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں، معروف اہل بدعت وضلالت اور منحرفین کی صحبت ومجالست اختیار کرتے ہیں، ان کے دوست واحباب اور واقف کاروں کی اکثریت منحرفین اور اخوانیوں وقطبیوں کی ہے، انہوں نے خود سید قطب کی بڑی تعریفیں کر رکھی ہیں اور ناقدین پر طنز و تعریض اور طعن و تشنیع کے نشتر چلائے ہیں، ان کا موقف ہے کہ اس دنیا میں ایک بھی شرعی حاکم وسلطان نہیں ہے اور نہ ہے کوئی مسلم حکومت ہے، اخوانیوں کی طرح توحید حاکمیت پر خوب زور دیتے ہیں اور اسے سب سے اہم واخص توحید قرار دیتے ہیں، کبار علماء پر طعن کرتے ہیں اور حزبیوں اور تحریکیوں کی طرح کہتے ہیں کہ انہیں حالات حاضرہ کا کچھ بھی علم نہیں ہے، شیخ ربیع المدخلی کے بارے میں کہتے ہیں “یہ احمق ہے”، خود کش حملہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور عدم جواز کے قائلین کو حقائق سے ناواقف اور بلا علم فتویٰ بازی کے مرتکب قرار دیتے ہیں، حماس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ایک سنی تنظیم ہے اور اللّٰہ کی راہ میں جہاد کر رہی ہے روافض سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ہاں یہ ایران سے تعاون ضرور لیتی ہے کیونکہ عرب ممالک اس کا تعاون نہیں کرتی ہے لہٰذا جو لوگ ان پر نقد کرتے ہیں وہ واضح غلطی کے شکار ہیں، کہتے ہیں آج روئے زمین پر کوئی بھی ایسا فرد نہیں ہے جو بتوں کی پرستش کرتا ہو! رد وتنقید کو درست نہیں سمجھتے ہیں بلکہ معاملات کو اللّٰہ کے سپرد کر دینے پر ابھارتے ہیں، اور منہج الموازنات کی طرف دعوت دیتے ہیں غیرہ وغیرہ ۔۔۔!!!
نیز یہ بھی علم ہوا کہ امام مقبل الوادعی نے بیسیوں سال قبل انہیں بدعتی اور گمراہ قرار دیا ہے، اسی طرح شیخ احمد النجمی، ربیع المدخلی، محمد بن ہادی المدخلی، عبید الجابری اور محمد سعید رسلان وغیرہم نے انہیں منحرف وزائغ اور بدعتی قرار دیا ہے تو ان سے کنارہ کر لیا، اس کے باوجود کسی حد تک علم حدیث میں ان کے دسترس کا معترف رہا لیکن پھر بعض جزائری اور یمنی ساتھیوں سے اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے میرے اس تصور کی نفی کی اور مجھے چند سوالات کئے:
اول: حوینی صاحب کے اساتذہ کون ہیں؟ چند ایک مشہور اساتذہ وشیوخ کے نام بتاؤ!
دوم: حوینی صاحب کا تزکیہ و تعریف کن بڑے علماء نے کی ہے اور کس نے علم حدیث میں ان کے تبحر علمی کی توثیق وتصدیق کی ہے چند مثالیں پیش کرو؟! کیا محض علم حدیث پر چند کتابیں لکھ دینا کسی کے محدث اور معتبر ہونے کی سند ہے؟!
سوم: حوینی صاحب کے چند قابل ذکر خدمات کا تذکرہ کرو جنہیں کبار علمائے امت نے سراہا ہو اور جن سے استفادہ کی دعوت دی ہو؟! پھر کہا کہ تنبیہ الہاجد اور التریاق جیسی کتابیں جنہیں ان کے کارہائے نمایاں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے دراصل ائمہ متقدمین کے خلاف جرآت کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دیتی ہیں لہذا یہ کتابیں نفع بخش ہونے کے بجائے ضرر رساں ہیں جو متقدمین کی کتابوں میں غلطیاں نکالنے اور معروف محدثین کے خلاف جا کر صحیح احادیث کو ضعیف قرار دینے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔
چنانچہ میں نے ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن تشفی بخش جوابات نہ ملے یہاں تک کہ میں کنوینس ہو گیا کہ صرف ضخیم کتابوں کو دیکھ کر کسی کی علمیت وقابلیت تسلیم کر لینا اور انہیں بطور علامہ ومحدث سند اعتبار فراہم کرنا درست طریقہ نہیں ہے۔
حوینی صاحب کے بارے میں اہل علم کے اقوال و آراء
١- مجدد یمن مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:
“مثل عبد الرحمن عبد الخالق، وأبي إسحاق الحويني، فهذان يُعتبران من المبتدعة، أينعم، وكذا مثل أيضًا سَفَر، وكذلك سلمان، يُعتبران من المبتدعة، وكذا أيضًا مجلّة “السنّة” التي هي لائقة بالبدعة، وهي التابعة لمحمد سرور، فهذه أيضًا وأهلها القائمون عليها، تُعتبرُ مجلة بدعة”
“مثال کے طور پر عبد الرحمن عبد الخالق اور ابو اسحاق الحوینی؛ یہ دونوں بدعتی شمار کئے جاتے ہیں، اسی طرح سفر (الحوالی) اور سلمان (العودہ) بھی بدعتی مانے جاتے ہیں۔ نیز مجلہ”السنہ” جو محمد سرور کے زیر سرپرستی ہے اور جو “مجلۃ البدعہ” کہے جانے کے زیادہ لائق ہے، وہ بھی بدعتی ہے، اور اس کے منتظمین بھی بدعتی شمار ہیں۔
٢- علامہ احمد بن یحییٰ النجمی فرماتے ہیں:
“الذي أعرفه عن محمد المغراوي أنه تكفيري، وأبو إسحاق الحويني كذلك، وهو من أصدقاء أبي الحسن ومناصريه، أما حسين يعقوب فأنا لا أعرف حال”
میرے علم کے مطابق، محمد المغراوی تکفیری ہے، اور ابو اسحاق الحوینی بھی اسی نظریے کا حامل ہے۔ وہ ابو الحسن (السلیمانی المأربی) کے دوستوں اور حامیوں میں سے ہے۔ جہاں تک حسین یعقوب کا تعلق ہے، تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔
٣ـ فضیلۃ الشیخ ربیع المدخلی فرماتے ہیں:
“أنا من سنوات ما أجيب، أريد أن أتريث في أمره، أريد أن أناقشه، أرسلت له مناصحات، لكن كما هو، ما يزداد إلا بعدا عن المنهج السلفي وتلاحمًا مع القطبيين، فهذا حاله، هذا حاله الآن، هو يدعي أنه من أهل السنّة ويقترب من أهل البدع، ويعاشرهم، ويتلاحم معهم”
میں کئی سالوں سے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دے رہا ہوں، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں غور و فکر اور انتظار کروں اور اس سے بات چیت کروں، میں نے اسے نصیحتیں بھیجی ہیں، لیکن وہ اپنی حالت پر قائم ہے اور سلفی منہج سے مزید دور ہو کر قطبیوں کے قریب ہوتا جا رہا ہے، یہی اس کا حال ہے، یہی اس کی موجودہ حالت ہے، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اہلِ سنت میں سے ہے، لیکن بدعتیوں کے قریب ہوتا جا رہا ہے، ان کے ساتھ میل جول رکھتا ہے اور ان سے گہرا تعلق قائم کر رہا ہے۔
٤- شیخ محمد بن ہادی المدخلی فرماتے ہیں:
“لا ينصح بسماع أشرطته ولا بدروسه”
ان کے دروس اور آڈیوز سننے کی تلقین نہیں کی جائے گی۔
٥- مفتی مکہ شیخ محمد بن عمر بازمول فرماتے ہیں:”ابو إسحاق الحوینی… سے متعدد ایسے اقوال منقول ہیں جو کئی مسائل میں اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ اہل بدعت جیسا برتاؤ کرنا چاہیے، اہل سنت میں ہی ایسے کئی لوگ موجود ہیں جو تخریج میں مہارت رکھتے ہیں، اس لیے اسی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔”
٦- فضیلۃ الشیخ عبید بن عبد اللّٰہ الجابری فرماتے ہیں:
“الشَّيخ الحـُوَينِي لم أعرفه معرفة تامة، ولم أدرس منهجه دراسة وافية ، ولكن أسمع من الثقات أنه مع جمعية إحياء التراث الحركية السياسية، وغيرها من أهل الأهواء، ولا أعرف له وجهًا ونصيحة للسلفيين!، هذا قولي فيه”
“شیخ حوینی کو میں مکمل طور پر نہیں جانتا، اور نہ ہی میں نے ان کے منہج کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے، لیکن میں نے معتبر لوگوں سے سنا ہے کہ ان کا تعلق تحریکی تنظیم “احیاء التراث” اور دیگر اہل بدعت سے ہے، میں نے ان کی طرف سے سلفیوں کے حق میں کوئی واضح موقف یا نصیحت نہیں دیکھی! ان کے بارے میں یہی میری رائے ہے۔”
مامون رشید بن ہارون رشید سلفی۔
جواب
اس تحریر میں کئی ایک مغالطے ہیں، جن کی وضاحت درج ذیل ہے:
1۔ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ سے صرف برصغیر کے طلبہ ہی متاثر نہیں ہیں، بلکہ پورا عالم اسلام ان کے بارے میں کلمہ خیر کہہ رہا ہے، جب سے ان کی وفات کی خبر آئی ہے، ہر طرف سوشل میڈیا ان کی مدح و ثناء کر رہا ہے، بلکہ جب سے ان کی بیماری کی خبر منظر عام پر آئی، تب سے پوری دنیا سے اہل علم اور طلبہ ان کے لیے دعائے خیر کر رہے تھے۔
لہذا صاحب تحریر کو دیکھنا چاہیے کہ جس کے بارے میں ساری دنیا کلمہ خیر کہہ رہی ہے، اس کے بارے میں وہ خود کس جگہ پر کھڑے ہیں؟
2۔ ابو اسحاق الحوینی خارجی ہیں کیونکہ وہ خوارج کی طرح مرتکب کبیرہ کو کافر سمجھتے ہیں، اس جھوٹ کی تردید خود شیخ محترم اپنی زندگی میں کئی بار کر چکے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کی جس بات کو لے کر یہ بتنگڑ بنایا گیا ہے، ان کی اس سے کیا مراد تھی؟!
لنک یہاں ملاحظہ فرمائیں:

شیخ کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ میں الحمدللہ عقیدہ سلف صالحین کو ہی درست سمجھتا ہوں اور میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں کہ اہل بدعت کے کسی موقف کو اپناؤں اور پھر وضاحت فرمائی کہ میں نے مطلقا مرتکب کبیرہ یا مُصِر علی الکبیرۃ کو کافر نہیں کہا، بلکہ مستحل کے بارے میں یہ بات کہی ہے، اور مستحل کے بارے میں اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے جو شیخ الحوینی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا.
بلکہ شیخ الحوینی رحمہ اللہ کے بعض رفقاء و معاصرین (جیسا کہ شیخ مصطفی العدوی حفظہ اللہ) بھی اس تہمت کی تردید کر چکے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ ابو اسحاق الحوینی سلفی المنہج ہیں اور ان میں ارجاء یا خارجیت میں سے کوئی شی نہیں پائی جاتی۔
3۔ اخوانیوں کی تعریف کرنا یا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کویت کی احیاء التراث وغیرہ سے تعلق رکھنا، اس قسم کے لایعنی اسباب کی بنیاد پر ابو اسحاق الحوینی کیا، کئی اور کبار علمائے کرام اور عباقرہ کو منہج سلف سے باہر کرنے کی کوشش کی گئی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بنیاد پر لوگوں کو منہج سے باہر کرنے والوں کا اپنا منہج درست نہیں ہے۔ اس حوالے سے متوازن اور درست موقف فضیلۃ الشیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ وشفاہ ومتعہ بالصحۃ والعافیہ وغیرہ نے بیان کیا ہے، اور یہی سلفی منہج ہے۔
شیخ ابن باز، شیخ البانی، شیخ بکر ابو زید وغیرہ اکابرین کا بھی یہی منہج تھا، یہی وجہ ہے کہ بعض اہل غلو نے انہیں بھی منہج سے باہر نکالنے کی سعی لاحاصل کی۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس احیاء التراث کے ساتھ تعلق کی بنیاد پر لوگوں کو منہج بدر کیا جاتا ہے، ہند و پاک کے درجنوں بلکہ سیکڑوں علمائے کرام اور سلفی ادارے آج بھی اسی احیاء التراث سے منسلک ہیں، بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو خود احیاء التراث سے مستفید ہو رہے ہیں جبکہ دوسروں کو اس بنیاد پر بدعتی ثابت کر رہے ہیں۔ واللہ المستعان۔
4۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ ابو اسحاق الحوینی کبار علمائے کرام پر طعن کرتے ہیں، تو دیکھنا یہ ہے کہ کبار سے مراد کون ہے؟ کیا اس سے مراد ابن باز، ابن عثیمین، عبد المحسن العباد جیسے اکابرین ہیں؟ یا پھر اس سے مراد وہ علمائے کرام ہیں، جن کا ذکر اوپر صاحب تحریر نے کیا ہے، تو یہ لوگ ان کے معاصرین ہیں، جب ان پر طعن کریں گے یا ان کے کسی موقف پر تنقید کریں گے تو کیا انہیں اپنا موقف بیان کرنے کی اجازت نہیں؟! بہر صورت معاصرت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے بارے میں سخت الفاظ ادا ہو جاتے ہیں، یہ بات سب کے لیے واضح ہے کہ ابو اسحاق الحوینی مخالف کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے پیش آتے تھے، اور اگر انہوں نے کہیں سختی کی بھی ہے تو مخالفین اس سختی میں ان سے چار ہاتھ آگے ہی ہیں۔
5۔ حماس کے بارے میں جو موقف شیخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ نے اپنایا ہے، یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، اور اس میں وہ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ مزید بے شمار علمائے کرام کا موقف ان کے ساتھ ہمدردی کا ہی ہے، جیسا کہ اردن، جزائر، مصر، کویت وغیرہ کے کئی علمائے کرام بھی یہودیوں کے مقابلے میں حماس وغیرہ مجاہدین کے حامی ہیں۔
بہر صورت اگر کسی کو یہ موقف پسند نہیں اور وہ اس بنیاد پر شیخ کو رافضیوں کے ساتھ ملاتا ہے، تو کیا ان سب لوگوں کو جو حماس کی مخالفت میں یہودیوں اور اسرائیل کی بولی بول رہے ہیں، کیا انہیں یہودیوں کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے؟
جب ساری دنیا اس عظیم عالم اور محدث کے لیے دعائے خیر میں مصروف ہے، اس وقت ان پر تنقید کرنے والے غلاۃ جرح و تجریح کو ان بے دین لبرلز اور ملحدین کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے جو شیخ الحوینی جیسے علمائے کرام پر تنقید کرتے ہیں!
خلاصہ یہ ہے کہ معصوم کوئی بھی نہیں ہوتا، شیخ الحوینی سے بھی غلطیاں ہوئی ہوں گی، رجال، جرح و تعدیل، حدیث وغیرہ کا خاص میدان تھا، اس میں بھی ان کے موقف سے اتفاق یا اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ وہ عالم اسلام کے ایک عظیم عالم، محدث، مبلغ تھے، ہزاروں، لاکھوں لوگ جن سے مستفید ہوئے اور مزید ہو رہے ہیں، اور حدیث و سنت کی خدمت میں انہوں نے تحقیق و تصنیف میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے، ان عظیم کاوشوں نے انہیں اسی مبارک سلسلے کی ایک کڑی بنا دیا ہے، جس میں ان سے پہلے شیخ البانی، شیخ احمد شاکر، عبد الرحمن المعلمی جیسے اکابرین تھے اور جو سلسلہ سیوطی، سخاوی، ابن حجر، عراقی سے ہوتا ہوا اوائل محدثین تک پہنچ جاتا ہے۔ رحم اللہ الجمیع۔
شیخ مشہور حسن آل سلمان حفظہ اللہ کا ایک کلپ سنا، فرما رہے تھے شیخ الحوینی کے ناقدین کے پاس کوئی مضبوط دلیل اور معقول وجہ نہیں ہے، پھر بیان کرنے لگے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ اپنے کسی شاگرد کے آنے پر اتنا خوش نہیں ہوئے تھے، جتنا مصر سے آنے والے ابو اسحاق الحوینی کے آنے پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا.
شیخ ابو اسحاق الحوینی رحمہ اللہ جیسے علمائے کرام کی ایک خوبی یہ بھی جس وجہ سے ان کے موقف اور رویے میں اعتدال اور وسعت تھی کہ انہوں نے کسی خاص جغرافیائی کیفیت اور موقف کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا، حتی کہ جب اپنے ملک مصر کی زمین ان کے لیے تنگ ہو گئی تو وہ وہاں سے بھی ہجرت کر گئے۔
محض شہرت حق کے لیے معیار نہیں، لیکن معاصر سلفی علمائے کرام میں کم لوگ ہیں جنہیں اس قدر قبول عام حاصل ہوا ہے۔ حتی کہ مصر، مغرب اور دیگر عرب ممالک کے وہ لوگ جو عقیدہ وغیرہ اختلاف کے سبب ان کے سخت مخالفین میں سے تھے، آج وہ بھی تمام اختلافات کے باوصف ان کے لیے کلمہ خیر کہہ رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کر رہے ہیں۔ بہت بہتر ہوتا اگر سلفیت کے کچھ نادان دوست بھی اس بات کا خیال رکھتے۔
شیخ حوینی رحمہ اللہ کے حوالے سے کچھ لوگ اپنے خواب بیان کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہیں.. لیکن میں یہاں ایک ازہری طالبعلم کا خواب بیان کر کے، بات کو ختم کرتا ہوں، جسے دکتور حسن الحسینی نے نقل کیا ہے، وہ طالبعلم بیان کرتا ہے کہ مجھے شیخ الحوینی سے بہت نفرت تھی، ایک بارے ایسے ہوا کہ جامعہ ازہر میں ایک شیخ کے ساتھ شیخ حوینی کے متعلق میرا بحث و مباحثہ ہوا، پھر میں گھر جا کر سویا تو مجھے خواب میں نظر آیا کہ شیخ حوینی گاڑی ڈرائیو کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔
یہ ازہری طالبعلم کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے شیخ حوینی کے خلاف گفتگو کرنا چھوڑ دی…!!
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
مجھے حیرانگی ہے کہ وہ لوگ جن کا سب سے پہلا اور بڑا اعتراض شیخ حوینی رحمہ اللہ پہ مرتکب کبیرہ کی تکفیر کا ہے ، ان کو شرم اور حیا کا ذرا بھی پاس نہیں کہ شیخ حوینی نے بیسویں دروس اور محاضرات میں اس کا رد کیا اور مکمل مسئلہ واضح کیا ، لیکن یہ لوگ اپنی ضد میں یہی چھیچھڑا چبائے جا رہے ہیں۔
جن اشخاص کے نام لکھ کہ شیخ پہ جرح کی گئی ان میں سے بعض کی تحقیقات کے نمونہ یہاں پیش کئے جائیں تو اہل علم اپنی انگلیاں دانتوں میں دبا لیں کہ یہ کیا معاملہ ہے۔
اللہ المستعان
تزکیہ ایک نہیں اہل علم کی جماعت نے کیا اور حقیقت یہ کہ قد جاوز القنطرہ
فضیلۃ العالم ابو عبداللہ عدنان الطاف حفظہ اللہ
شیخ حوینی پر اللہ کا یہ بھی احسان ہوا کہ بعض مخلص شاگرد ان کو میسر آگئے، اور وہ کام جو لوگ علماء کی زندگی کے بعد ان سے متعلق سوچتے ہیں، وہ علمی خدمت ان کی حیات میں ہی سر انجام دی گئی، نثل النبال اس کی نمایاں مثال ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
جی بلکل شيخنا ابو عمرو احمد بن عطیة الوکیل شیخ کے تقریبا ہم عمر لیکن ان کے قدیم اور کثیر الملازمہ شاگرد ہیں۔
فضیلۃ العالم ابو عبداللہ عدنان الطاف حفظہ اللہ
یہ تو صاحب تحریر کا واضح بہتان ہے کہ وہ شراب نوشی کو کفر اکبر سمجھتے تھے۔ وہ ساری بحث احکامات شریعہ کے التزام و عدم التزام کی ہے کہ اگر کوی بندہ کسی فرض حکم کی فرضیت کا زبانی اقرار کر کے اس کی ادائیگی سے تکبرا وعنادا انکار کردے اور کہے کہ کون ہے جو مجھ سے زبردستی یہ کام کرواے گا یا کسی حرام کی حرمت کا زبانی اقرار کر کے تکبرا وعنادا کہے کہ میں ضرور اس حرام کا ارتکاب کروں گا کون ہے جو مجھے روکے؟ جیسے مانعین زکوٰۃ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور میں تکبرا زکوۃ کا ادائیگی سے انکار کیا تھا۔ شیخ نے اس چیز کو کفر اکبر کہا ہے اور یہ بالکل ہی الگ بحث ہے اور اس معاملے میں وہ پہلے نہیں ہیں مجموع الفتاوی کی کتاب الجہاد میں اس حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مفصل کلام مختلف جگہوں پہ موجود ہے اور اسی طرح امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی کتاب الایمان کا وہ مقام بھی لائق مطالعہ ہے جہاں انہوں نے مانعین زکوٰۃ کے کفر کی بات کی ہے ۔ہمارے بہت سارے بھائیوں کی بھی یہ مصیبت ہے کہ ان کا مطالعہ وعلم ناقص ہوتا ہے لیکن وہ بجاے علمی ترقی کے امام جرح و تعدیل بنے بیٹھے ہوتے ہیں۔
باقی رہی بات اہل بدعت کی مدح وسرای کی تو اس حوالے سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ شیخ مختلف جہادی حلقوں کی غلطیوں کے باوجود کفار کے مقابلے میں نا صرف ان کی مدح و سرائ بھی کرتے تھے بلکہ ان کا ساتھ دینے پہ امت کو ابھارتے تھے لیکن آپ نے کبھی ان کی غلطیوں کا دفاع نہیں کیا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ یہ تو عین اعتدال پہ قائم منہج ہے اور اس کی نظائر آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریروں سے بھی بہت ساری مل جاتی ہیں جہاں انہوں نے زور دیا ہے کہ اگر مسلمان بدعت میں واقع بھی ہو تو خیر کے کام میں اس کے ساتھ تعاون بھی کیا جاے گا اور اس کی وجہ سے اس کی مدح بھی کی جا سکتی ہے لہذا اس بات میں آخر کیا حرج ہے کہ جب حماس ظالم یہودیوں سے برسر پیکار ہے تو شیخ نے ان کی مدح یا دفاع میں کچھ کلمات کہ دیے۔
اسی طرح وہ ان داعیان دین کے لیے نرم تھے جن میں اگرچہ بہت سارے فکری انحرافات تھے مگر انہوں نے دین کے دفاع مسلمانوں میں دینی جذبہ کی کو پروان چڑھانے اور امت میں غیرت دینی پیدا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا ۔جیسے چند ماہ قبل ایک مجلس میں ہمارے استاذ شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ نے سید مودودی رحمہ اللہ کی مدح کی تو کیا نعوذباللہ ہم استاد محترم کے منہج پہ انگلی اٹھانا شروع کر دیں اور اس موقع پہ بھی مدخلی فکر کے حاملین نے استاد محترم کے بارے وہی زبان استعمال کی جو آج شیخ حوینی رحمہ اللہ کے بارے میں بولی جا رہی اس لیے گزارش یہی ہے کہ ان معاملات میں وسعت نظری سے کام لینا چاہیے۔پہلے ہی اہلسنت دنیا میں بہت قلیل ہیں تو یہ منہج کے نام پہ مخلص اہل ایمان اور اہلسنت علماء کو منہج سلف سے اندر باہر کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
آخر میں یہ سوال ہے کہ شیخ نے یہ کہاں کہا ہے کہ توحید کے اجزاء میں سے توحید حاکمیت سب سے اہم ہے۔ اس کا کوی حوالہ مل جاے تو ٹھیک ہے ہم یہ شیخ کی غلطی ہی شمار کریں گے کیونکہ ہمیں حق شخصیات سے زیادہ عزیز ہے لیکن اگر اس بات کا حوالہ نہیں ملتا تو دیگر بہت سارے اتہامات کے ساتھ یہ بھی ایک اتہام ہی ہو گا.
فضیلة الباحث حنین قدوسی حفظہ اللہ