محدث العصر شیخ البانی: ہر کس وناکس کے لیے تختۂ مشق
علامہ البانی اور ان کی تحقیقات پر بے جا تنقید ہر کس و ناکس کا مشغلہ بن چکا ہے اور سستی شہرت پانے کا ذریعہ بھی۔ گویا شیخ البانی احادیث کی تصحیح و تضعیف کی وضاحت کے “جرم” میں تنہاء ملوث ہیں اور ان سے پہلے کوئی محدث اس “جرم” کا مرتکب نہیں ہوا۔ ہر دور میں محدثین نے اپنی اجتہادی بصیرت کے تحت احادیث کی تصحیح و تضعیف کی ہے۔ نہ جانے ہر بار شیخ البانی ہی کیوں مورد الزام ٹہرتے ہیں۔ پھر یہ دعوی بھی کسی کا نہیں کہ البانی صاحب کی تحقیقات حرف آخر ہیں جن سے اختلاف کی کوئی صورت ہی نہ ہو!
شیخ البانی صاحب یا ان کے معتقدین پر وارد یہ اعتراضات بے جا اور محض اعتراض برائے اعتراض کی مثال ہیں۔ مختصر بات اتنی سی ہے کہ شیخ البانی نے اپنی تحقیق اور اجتہادی بصیرت کی بناء پر احادیث کی صحت اور ضعف کے اعتبار سے فنی حیثیت متعین کی تا کہ صحیح اور سقیم کی پہچان ہو سکے۔ یہ کوئی منفرد کام تو ہے نہیں، اس سے پہلے بھی اہل علم ایسی کاوشیں قلم بند کرتے رہے ہیں۔ متاخرین میں امام ابن الجوزی، علامہ علی قاری، علامہ طاہر پٹنی وغیرہم کی موضوع روایات پر کتابیں اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
بہرحال، کسی کے “صححه الألباني” کہنے کا مطلب فقط اتنا ہوتا ہے کہ البانی صاحب نے کسی حدیث کو صحیح کہا ہے اور ان سے اس حدیث کی صحت کا حکم نقل کیا جارہا ہے۔ جن سے شیخ صاحب کی تصحیح و تضعیف ہضم نہیں ہوتی تو ان کی کتابوں سے دور رہیں، ایسی کتابیں جو احادیث پر ان کے احکام نقل کرتی ہیں نہ پڑھیں۔ آپ کی کن پٹی پر کوئی بندوق تانے تو ہے نہیں کہ پڑھے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ آپ کو اگر ان کے لگائے حکم سے اختلاف ہے تو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان کی غلطی واضح کر دیں۔ آخر بلاوجہ شور مچانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟
موجودہ دور میں احادیث کی تصحیح و تضعیف میں البانی صاحب تنہا نہیں ہیں۔ شیخ احمد شاکر، شیخ شعیب ارناووط، شیخ عبد القادر ارناووط سمیت دیگر کئی اہل فن ایسا کام کر چکے ہیں۔ پھر صرف شیخ البانی ہی کیوں مجرموں کی صف میں کھڑے کئے جاتے ہیں؟ کچھ مثالوں سے ان اعتراضات کی سطحیت اور لا یعنیت ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
آپ حافظ الدنیا امام ابن حجر العسقلانی کی بعض کتب کی سرسری ورق گردانی کیجئے، آپ کو تصحیح اور تضعیف سے متعلق عبارات بکثرت ملیں گی۔ بطور استشہاد امام ابن حجر کی “تغلیق التعلیق” اٹھائے اور پڑھیے، فرماتے ہیں:
-وهذا موقوف صحيح
-وهذا الإسناد ضعيف أيضاً
-وفي اسناده انقطاع ومقال.
-هذا الإسناد حسن
-وهذا اسناد حسن
فرماتے ہیں “یہ حدیث موقوف صحیح ہے” تو کیا معترض یہ کہہ سکتا ہے کہ کیا پہلے مرفوع تھی جسے اب امام نے موقوف کردیا؟
دوسری عبارت کو اگر میں میں اسناد کی حیثیت بیان کرنے کے لئے امام ابن حجر سے نقل کروں اور کہوں “ضعفه الإمام ابن حجر..” تو کیا اس سے آپ یہ مراد لیں گے کہ حدیث صحیح تھی اور اب امام ابن حجر نے ضعیف کردی؟ یہ پوری کتاب ہی امام ابن حجر عسقلانی نے صحیح بخاری میں مذکور معلق احادیث کو موصولاً بیان کرنے کے لئے لکھی ہے۔ تو کیا امام بخاری ان روایات کی متصل اسانید سے واقف نہیں تھے؟ کیا آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام ابن حجر نے کئی صدیوں بعد گھر سے ان معلق احادیث کو متصل بیان کردیا؟ کیا آپ امام ابن حجر کے خلاف امام بخاری پر ‘استدراک’ کرنے کا مقدمہ دائر کر سکتے ہیں؟
باقی عبارات کو بھی اسی پر قیاس کرلیں۔
ہندوستان کے فاضلِ جلیل، ماہر علم حدیث، مولانا ظہیر احسن نیموی اپنی کتاب “آثار السنن” میں لگ بھگ ہر حدیث کے بعد صحت اور ضعف کے اعتبار سے اس پر حکم لگاتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث “عن ابن عباس رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بمكة نحو بيت المقدس والكعبة بين يديه..” نقل کرنے کے بعد علامہ نیموی حکم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں “واسنادہ صحیح”. اب یہ حدیث نقل کرنے کے بعد میں کہوں “صححه الشيخ النيموي” تو کیا وہ اعتراضات وارد کیے جاسکتے ہیں جو بعض جہلاء شیخ البانی کی تصحیح و تضعیف پر وارد کرتے ہیں؟
معروف محقق اور عالِم، علامہ محمد عوامہ صاحب کی مصنف ابن ابی شیبہ کا تحقیق شدہ ایڈیشن دیکھئے۔
حدیث ١١٤٥- «فصح السند» یعنی پس سند صحیح ہوگئی. اب شیخ البانی پر کار گر اپنے پیمانے یہاں استعمال کیجئے اور بتائے کیا سند تیڑھی تھی جسے عوامہ صاحب نے ہتھوڑا مار کر سیدھا کردیا؟ کیا انہوں نے چودہ سو سال بعد کوئی ایسا راوی دریافت کرلیا جس سے سند صحیح ہوگئی؟ نہیں! بلکہ اس کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ نقل حدیث میں پہلے سے موجود صحت اور ضعف کی علامات پہچان کر اس پر ایک فنی اصطلاح کا اطلاق کیا گیا ہے۔
حدیث۱۴۲۴- إسناد المصنف صحيح. (مصنف کی بیان کردہ سند صحیح ہے). اب اسناد حدیث نقل کرنے کے بعد میں علامہ محمد عوامہ صاحب کا حکم میں یوں نقل کردوں “صححه الشیخ عوامة” تو کیا مذکورہ تمام اعتراضات یہاں موزون اور بر محل ہوں گے؟
حدیث ١٦٦٢- فالحديث ضعيف وإن صحح إسناده الشيخ أحمد شاكر. “پس حدیث ضعیف ہے گرچہ علامہ احمد شاکر نے اس کی تصحیح کی ہے”۔
اب اگر “ضعفه الشيخ عوامة” کہا جائے تو کیا اس سے مراد یہ ہوگی کہ حدیث صحیح تھی اور عوامہ صاحب نے اسے ضعیف کردیا؟ ہرگز نہیں۔ ایسے کہنے والے کی علم حدیث سے بے اعتنائی اور بے خبری میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔
اخیرا عرض ہے مسئلہ اتنا ہے کہ شیخ البانی صاحب کے تلامذہ نے شیخ صاحب کے احادیث پر لگائے احکام کی تدوین اور نشر و اشاعت کی اور وہ مقبول ہوگئیں۔ آپ کو پورا حق ہے آپ ان سے استفادہ کریں یا نظر انداز کر دیں۔ پیش کردہ چند مثالوں کی روشنی میں کئے گئے اعتراضات بالکل سطحی اور مبنی بر تعصب معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے اعتراضات نقل کرنے سے بہتر ہے کہ معترضین کمر بستہ ہوں اور محدثین کے اصولوں پر احادیث کی صحت و سقم بیان کرکے امت کو البانی صاحب کی تحقیقات سے بے نیاز کردیں۔ لیکن عبد الرشید داؤدی صاحب اور فیاض رضوی صاحب کو علامہ کہنے والے اس کام کے متحمل ہو سکتے ہیں ہا نہیں، وہ سوالِ دیگر ہے۔
آنکھیں اگر بند ہوں تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور کیا ہے آفتاب کا۔۔۔
تحریر از: سہیل خالق