شیخ عطاء اللہ ساجد صاحب وفات پاگئے

استاذی المکرم المحترم شیخ عطاء اللہ ساجد جنہیں حفظہ اللہ کہتے کہتے رحمہ اللہ کہہ رہا ہوں۔ درست کہ بقاء صرف اللہ کو ہے باقی سب فنا ہو جائیں گے۔
کل من علیھا فان و یبقی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔۔۔۔۔
ڈرتے ڈرتے شیخ صاحب سے کہا کہ آپ سے مختارات من ادب العرب پڑھنی ہے کچھ سمجھ میں نہیں ا رہی تو کہنے لگے کتاب نکالو، میں حیران کہ کچھ پڑھانے کے لیے تیاری کی جاتی ہے اور یہ ادب کی خشک تعبیر بغیر تیاری کے کیسے پڑھائی جائے گی۔
میں نے کتاب نکالی اور کہنے لگے پڑھو، میری قراءت میں غلطیاں تھیں مرفوع منصوب مجرور سب مختلط کر دیا کہیں تنوین تو کہیں کچھ، کہنے لگے بیٹا جی ادبی تحریر سمجھنے کے لیے پہلا سبق سمجھ لو جب تک صحیح پڑھو گے نہیں سمجھ نہیں آئے گی۔ لیکن نیپا چورنگی تا ملیر کالا بورڈ تک منی بس ڈی سیون میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھے شیخ رحمہ اللہ نے مجھے خطبہ طارق بن زیاد پڑھا دیا تھا سمجھا دیا اور ان کے لہجے میں کچھ الفاظ بتیس سال بعد بھی یاد ہیں ( این الفرار۔۔۔۔۔)
یہ تھے میرے نہیں بلکہ ہمارے محبوب استاذ جن کی وفات کی خبر جیسے ہی ملی یوں لگا جیسے سانس بند سا ہو گیا ہو۔
بلا مبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں طلباء کے روحانی مرشد۔
جن کی شخصیت سے روحانیت ملتی تھی جب ان کے پاس بیٹھا تزکیہ نفس خود بخود ہوتا تھا۔ اللہ کے ولی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر اللہ اور اس کے رسول یاد ا جائیں۔
انتہائی سادہ مزاج، کوئی تصنع بناوٹ نہیں ، علم کا پہاڑ لیکن عاجزی و انکساری ایسی کہ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے بعد ان میں دیکھی۔ جس فن کے بارے میں پوچھا ایسا استحضار تھا کہ حیران کر دیتے تھے گویا شیخ رحمہ اللہ علوم و فنون کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔
کچھ عرصہ قبل جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں ابناء الجامعۃ کا پروگرام ہوا ماضی کی سنہری یادوں کو تازہ کرنے کی غرض سے شیخ رحمہ اللہ سے کہا کہ ہمیں نحو کا بنیادی سبق پڑھا دیں تو بس ۔۔۔ ایک لمحہ میں تیس سال قبل کا زمانہ آنکھوں میں پھر گیا تھا۔
علم و عمل و تقوی میں اپنی مثال آپ کبار مشائخ ان کے لیے رطب اللسان رہا کرتے تھے اور عاجزی و انکساری ایسی کہ اپنے طلباء کے دروس ایسے سنتے تھے جیسے ان سے استفادہ کر رہے ہوں اور اصلاح ایسی خوبی سے کرتے تھے کہ جس کی اصلاح کرتے تھے اسے اپنا آپ بڑا لگنے لگتا تھا۔
جمعہ ہمارے ایک محبوب شیخ حافظ ارشد محمود بشیر حفظہ اللہ کے پاس پڑھا کرتے تھے۔ وہ ان کی باتیں اکثر کرتے تھے اور کل سے رو رہے ہیں اپنے روحانی باپ کے الوادع ہونے پر۔
صرف حافظ ارشد محمود ہی نہیں بلکہ ہزاروں طلباء کے روحانی باپ اللہ اللہ کر گئے ہیں۔

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمْ نُزُلَهُ وَوَسِّعْ مُدْخَلَهُ وَاغْسِلْهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّهِ مِنْ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَأَبْدِلْهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ وَأَهْلًا خَيْرًا مِنْ أَهْلِهِ وَزَوْجًا خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ أَوْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ۔ اَللّٰهُمَّ إِنَّ استاذنا فِي ذِمَّتِكَ، وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ وَالْحَقِّ، فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ۔ اللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبُّهَ، وَأَنْتَ خَلَقْتَهَ، وَأَنْتَ هَدَيْتَهَ لِلْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهَ، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسِرِّهَ وَعَلَانِيَتِهَ، جِئْنَاكَ شُفَعَاءَ فَاغْفِرْ لَهُ

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبد العزیز علوی رحمہ اللہ وفات پا گئے