فضیلة الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کا مختصر تعارف
فضیلتہ الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کا شمار عصر حاضر کے ممتاز علماء اور محققین میں ہوتا ہے۔ آپ علمی و دینی میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں، خصوصاً قرآن و حدیث کی تدریس اور اسلامی علوم کی تحقیق میں آپ کی مہارت نمایاں ہے۔
تصنیفی خدمات
شیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ علمی و تحقیقی میدان میں بھی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی تصنیفی اور تحقیقی خدمات دینِ اسلام کی ترویج اور علمی ورثے کی حفاظت میں نہایت اہم ہیں۔
🔘 شیخ نے کئی موضوعات پر کتب اور رسائل تحریر کیے ہیں، جن میں خاص طور پر قرآن و سنت کی تشریح، فقہی مسائل، اور عقیدہ کے موضوعات شامل ہیں۔ ان کی تحریریں علمی گہرائی اور سادہ انداز بیان کا حسین امتزاج پیش کرتی ہیں۔
🔘 حدیث کی خدمت:
آپ نے احادیث کے مختلف مجموعوں پر تحقیق کی ہے، ان کی تشریح اور تخریج کا کام کیا ہے، اور حدیث کی صحت و ضعف پر مفصل بحث کی ہے۔
مدیری کے فرائض اور خدمات
فضیلتہ الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ ایک علمی و تحقیقی مجلے کے مدیر بھی ہیں۔ وہ اپنی اس خدمت کے ذریعے علمی و دینی حلقوں میں ایک مضبوط کردار ادا کر رہے ہیں۔
1️⃣ مجلے کی اشاعت:
شیخ زیر ادارت مجلہ اعلیٰ معیار کے علمی و تحقیقی مقالات اور مضامین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ مجلہ علمی حلقوں میں خصوصی مقام رکھتا ہے اور اسلام کے مختلف پہلوؤں کو قرآن و سنت کی روشنی میں اجاگر کرتا ہے۔
2️⃣. تحقیقی معیار کا تحفظ:
شیخ نے بطور مدیر اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ مجلے میں شائع ہونے والے مضامین اور مقالات علمی معیار پر پورا اتریں۔ وہ ہر تحریر کی تصدیق، تدوین، اور اس کے دلائل کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
نام ونسب
محمد ارشد کمال بن شیر محمد بن رحیم بخش بن محمد یوسف بن خدا بخش کالس گجر۔
پیدائش
شیخ محترم 16نومبر 1979ء کو چک نمبر 18 تحصیل چونیاں ضلع قصور میں دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔
خاندانی پس منظر
⤵️سنیں شیخ محترم کی زبانی:
میرے آباء ہندوستان ضلع ہوشیار پور تحصیل گڑھ شنکر گاؤں آسروں میں آباد تھے، بلکہ پڑدادا جان محمد یوسف نمبردار تھے۔ گرد و نواح میں ان کا بڑا شہرہ تھا۔ آسروں ضلع انبالہ اور ضلع ہوشیار پور کی حدود پر واقع تھا۔ دریا کے ایک طرف ضلع انبالہ اور دوسری طرف ضلع ہوشیار پور تھا۔ آسروں کے قریب تر شہر روپڑ تھا اس لیے آسروں کے لوگ وہیں سے سامان خود و نوش خرید کر لایا کرتے تھے۔ والد محترم روزانہ دودھ لے کر روپڑ جایا کرتے۔ اس وقت روپڑ میں مجتہد العصر حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی ہے، ان کے بھتیجے مناظر اسلام حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ اور خطیب اسلام حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمہ اللہ توحید کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔ انہی بزرگوں کی بدولت اللہ تعالی نے میرے آباء و اجداد پر مہربانی فرمائی کہ انھیں توحید کی دولت سے مالا مال کیا۔
🔘 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت والد محترم ہجرت کر کے چک نمبر 18 تحصیل چونیاں ضلع قصور میں آکر آباد ہوئے۔ والد محترم کی داستان ہجرت بڑی دردناک و المناک ہے۔ وہ آگ اور خون کا دریا عبور کر کے پاکستان آئے تھے۔ وہ روپڑی خاندان کا تذکرہ ہمیشہ عزت اور احترام سے کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بھی اس خاندان سے لوجہ اللہ محبت ہے۔ میں جب بھی روپڑ ہاؤس جامع مسجد القدس چوک دالگراں لاہور جاتا ہوں تو آنکھوں کے سامنے تاریخ آ جاتی ہے اور اپنے آباء یاد آنے لگتے ہیں۔
ابتدائی تعلیم
شیخ محترم کے والد صاحب اگرچہ تعلیم کے میدان میں زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے، لیکن دین داری میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ نماز اور روزے کے ساتھ ساتھ، وہ اپنی اولاد کو بھی ان عبادات کی اہمیت سے روشناس کراتے تھے۔ جب ممدوح بچپن میں تھے، تو والد صاحب انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ ممدوح کو بچپن میں نماز کے دوران ادھر ادھر دیکھنے کی عادت تھی۔ ایک دن نماز مغرب میں حسبِ معمول وہ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، تو والد صاحب نے ان کے پیچھے آ کر اچانک ایک تھپڑ رسید کیا اور سختی سے کہا: “نماز میں ادھر ادھر نہیں دیکھتے!” اس موقع پر ممدوح نے دل میں یہ عہد کیا کہ اب وہ نماز کو دھیان اور توجہ کے ساتھ پڑھیں گے۔
🔘 والد صاحب ممدوح کو جمعہ کی نماز میں بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ جب گاؤں میں کوئی دینی جلسہ یا محفل ہوتی، تو وہ ممدوح کو اپنے ساتھ لے کر جاتے اور اس طرح نیکی کے کاموں میں ہمیشہ شریک رکھتے۔ والد صاحب علمائے کرام کے واقعات سنایا کرتے، جو ممدوح کے دل میں دین کی محبت اور مولوی بننے کا جذبہ پیدا کرنے کا سبب بنے۔
🔘 جب شیخ محترم چوتھی جماعت میں تھے، ان کا ایک کلاس فیلو پیار سے انہیں “ہاؤ!” کہہ کر بلاتا تھا، اور آج بھی گاؤں کے لوگ انہیں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی والدہ محترمہ ہمیشہ یہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا حافظ قرآن بنے، اور ان کی دعائیں ہمیشہ اسی خواہش کی متمنی رہیں کہ اللہ تعالیٰ ممدوح کو دین کے کاموں کے لیے منتخب کرے۔ ایک دن شیخ محترم نے اپنی والدہ سے اس بارے میں سوال کیا، تو والدہ نے مسکرا کر جواب دیا: “ہاں، ہم چاہتے ہیں کہ تم قرآن مجید حفظ کرو اور ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ تمہیں دین کی خدمت کے لیے منتخب کرے۔”
یہ باتیں ممدوح کے دل میں ایک ایسا شوق پیدا کر گئیں کہ وہ راتوں کو خوابوں میں مدرسے کی تعلیم حاصل کرتے دکھائی دینے لگے۔ مگر ان کے بڑے بھائی اس فیصلے کے مخالف تھے اور ہمیشہ کہتے تھے کہ ممدوح جتنی چاہے عصری تعلیم حاصل کرے، لیکن وہ مولوی نہیں بن سکتا۔ اللہ انہیں جنت نصیب کرے، ان کی دعائیں ممدوح کے لیے خیر و برکت کی تھیں، لیکن وہ مولوی بننے کے حق میں نہ تھے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ایک حادثے کے نتیجے میں وہ جیل چلے گئے، اور ممدوح کے سامنے اب کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی۔
اس واقعے کے بعد شیخ محترم نے آٹھویں جماعت میں سکول کو خیرآباد کہا اور والدین سے درخواست کی کہ وہ اسے مدرسے میں داخل کروا دیں۔ والدہ محترمہ نے اس کی خواہش کو پورا کیا اور اسے جامعہ ابی ہریرہ اسلامیہ، رینالہ خورد، ضلع اوکاڑہ میں داخل کروا دیا، جہاں سے اس کی دینی تعلیم کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے ممدوح نے اپنے گاؤں کی مسجد میں ناظرہ قرآن مجید اور تین پارے حفظ کر لیے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب ممدوح نے اپنے دل کی آواز کو پہچانا اور اپنے مقدر کو دین کے راستے پر چلا دیا۔ اس کے اندر دین کے علم کی جستجو اور قرآن کی تلاوت کا شوق اتنی شدت سے جاگا کہ اس نے اپنی دنیا و مافیہا کو ترک کر کے صرف اللہ کی رضا کی خاطر علم کا راستہ اختیار کیا۔
مزید دینی تعلیم کے لیے سفر
شیخ محترم نے ابتدائی طور پر ناظرہ قرآن مجید اور قرآن کے آخری تین پارے اپنے گاؤں کی مسجد میں حفظ کیے، مگر اس وقت ان کے پاس مکمل حفظ کرنے کے لیے مناسب رہنمائی نہ تھی، اس لیے وہ مکمل حفظ نہ کر سکے۔ جب انہوں نے دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا تو ان کی عمر تقریباً سولہ یا سترہ سال تھی۔ اس عمر میں جب وہ مدرسے میں داخل ہوئے، تو معزز اساتذہ کرام نے انہیں مشورہ دیا کہ اس عمر میں حفظ کے بجائے درسِ نظامی کی تعلیم حاصل کرنا زیادہ مفید اور مناسب رہے گا۔ اس مشورے کو انہوں نے دل و جان سے قبول کیا اور درسِ نظامی کی تعلیم میں قدم رکھا۔
🔘 پہلے پانچ سال انہوں نے جامعہ ابی ہریرہ اسلامیہ رینالہ خورد، ضلع اوکاڑہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے دو سال جامعہ لاہور الاسلامیہ گارڈن ٹاؤن لاہور میں گزارے، جہاں دینی علوم کے مختلف شعبوں میں مہارت حاصل کی۔ اپنے تعلیمی سفر کا آخری سال انہوں نے جامعہ محمدیہ لوکو ورکشاپ مغل پورہ لاہور میں مکمل کیا۔ یہاں سے 2003ء میں انہوں نے سندِ فراغت حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے دین کی خدمت کے لیے اپنی تمام توانائیاں وقف کر دیں۔
🔘 شیخ محترم کا یہ تعلیمی سفر نہ صرف ان کی دینی بصیرت کا آئینہ دار ہے بلکہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے علم کا راستہ ہمیشہ رہنمائی، مشورے اور محنت سے متعین کیا، اور یوں دین کے علم میں اپنی جگہ مستحکم کی۔
جن مشائخ کرام سے کسب فیض کیا
(1) شیخ الحدیث حافظ شفیق الرحمان لکھوی حفظہ اللہ
(2) حافظ حفظ الرحمن لکھوی حفظہ اللہ
(3) فضیلة الشیخ مولانا عبد اللہ فاروق صاحب
(4) شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ
(5) قاری المقری حمزه المدنی حفظہ اللہ
(6) فضیلة الشيخ مولانا شفیق الرحمن المدنی حفظہ اللہ
(7) شیخ الحدیث حافظ عبداللہ رفیق حفظہ اللہ
(8) فضیلة الشيخ مولانا خاور رشید بٹ حفظہ اللہ
(9) مناظر اسلام مولانا یحیی عارفی حفظہ اللہ
(10) فضیلة الشیخ مفتی عطاء الرحمان علوی حفظہ اللہ وغیرہ۔
ان کے علاوہ چار عالی قدر استاذ ایسے تھے ممدوح کے جن سے کسی مدرسے میں تو باقاعدہ تعلیم نہیں لی، البتہ ان سے استفادہ خوب کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ ہیں:
(11) مناظر اسلام مفتی مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ
(12) محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ
(13) مجاہد اسلام حافظ ابراہیم سلفی صاحب
(14) قاطع فرق باطلہ ڈاکٹر ابو جابر عبد اللہ دامانوی صاحب
سند اجازہ
(15) شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ
(16) مفتی اسلام شیخ الحدیث مفتی محمد عبید اللہ خاں عفیف رحمہ اللہ
(17) شیخ الحدیث مولانا محمد رفیق اثری جلال پوری رحمہ اللہ
سے سند اجازہ حاصل ہے۔
تخصص کا کورس
2003ء میں صحیح البخاری شیخ الحدیث حافظ عبداللہ رفیق حفظہ اللہ سے پڑھی۔ اسی سال تخصص فی الحديث والعقیدہ مرکز امام بخاری کوٹ لکھپت میں کیا ۔
2013ء میں شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے حیدر آباد سندھ میں دورہ مصطلح الحدیث و التخریج کروایا تو اس میں بھی شرکت کا موقع ملا۔
فارغ التحصیل کے بعد تدریس کا آغاز
شیخ محترم نے ایک سال حافظ عبدالوحید صاحب کے قائم کردہ ادارہ دار الفلاح میں ٹیچنگ کی۔
ایک سال فضیلتہ الشیخ مفتی مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ کے مرکز الحسن میں پڑھایا اور 2009ء سے تا حال الہدی ایجو کیشنل انسٹیٹیوٹ سبزہ زار لاہور میں پڑھا رہے ہیں۔
2003ء سے تا حال جامع مسجد ابوبکر صدیق اہل حدیث سکیم موڑ میں امامت کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
خطابت کے فرائض سرانجام دیے
جامع مسجد مکی کاہنہ نو لاہور، مرکز امام محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ اور جامع مسجد الکوثر اہل حدیث گلبرگ لاہور میں مختلف ادوار میں خطابت کی ہے۔ 2016ء سے تاحال مرکز امیر حمزہ بھینی روڈ شریف پورہ لاہور میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
شیخ محترم کے ہم مکتب احباب
(1) مولانا ابو عمر اشتیاق اصغر آف لاہور
(2) مولانا ابن بشیر الحسینوی آف قصور
(3) محترم جناب قاری عبد الرؤف آف بونگہ بلوچاں
(4) پروفیسر بلال احمد صاحب لاہور
(5) پروفیسر محمود احمد آف رینالہ خوردوغیرہ شامل ہیں۔
کتابوں سے محبت: شیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کی علمی زندگی کا سفر
شیخ محترم محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کو مطالعے اور کتابوں سے محبت بچپن ہی سے تھی۔ جب وہ سکول کی چوتھی جماعت میں تھے، تو اس وقت بچوں کی کہانیوں میں خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ “عمرو عیار” اور “ٹرزن” جیسے مشہور کرداروں کی کہانیاں شوق سے پڑھتے۔ اسی طرح “ہمدرد” کے رسالے کو بھی باقاعدگی سے مطالعے میں رکھتے اور اس کے بہت سے شمارے جمع کر چکے تھے۔
🔘 ایک واقعہ ان کی مطالعے کی دلچسپی کا رخ بدلنے میں اہم ثابت ہوا۔ ان کے ایک دوست نے انہیں مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی کتاب “تاریخ اسلام” پڑھنے کے لیے دی۔ یہ کتاب ملنے کے پیچھے بھی ایک کہانی تھی، لیکن جب انہوں نے اس کا مطالعہ کیا تو مکمل کتاب پڑھ ڈالی۔ اس کے بعد ان کی دل چسپی عام کہانیوں سے دینی اور تاریخی کتابوں کی طرف منتقل ہو گئی۔
کتابوں کی خریداری کا شوق
شیخ محترم کا تعلق ایک قصبے سے تھا جو کوٹ رادہ کشن کے قریب واقع تھا۔ وہ اکثر قریبی شہر جاتے اور کتابوں کی دکانوں سے چھوٹی چھوٹی کتابیں خریدتے رہتے۔ مثال کے طور پر “جنت کی کنجی”، “قبر کی پہلی رات” اور دیگر چھوٹے رسائل۔ اگر کسی کتاب کا اشتہار نظر آتا تو اسے بھی خریدنے کی کوشش کرتے۔ اس طرح ان کا کتابیں خریدنے اور مطالعہ کرنے کا شوق بڑھتا گیا۔
مدرسے کا دور اور کتابوں کی محبت
جب وہ مدرسے میں داخل ہوئے تو ان کا جیب خرچ، جو تقریباً 100 یا 150 روپے ماہانہ تھا، زیادہ تر کتابوں کی خریداری میں خرچ ہوتا۔ وہ دکان داروں کے ساتھ واقفیت پیدا کر لیتے اور کتابیں ادھار پر خرید کر ہر ماہ قسطوں میں رقم ادا کرتے۔ اس طرح ان کا شوق پورا ہوتا رہا۔
فراغت کے بعد کا زمانہ
مدرسے سے فراغت کے بعد، جب وہ لاہور سکیم موڈ منتقل ہوئے، تو وہاں بھی ان کا کتابوں کے ساتھ تعلق مضبوط رہا۔ جو بھی وظیفہ یا رقم انہیں ملتی، اس کا ایک خاص حصہ کتابوں کے لیے مختص کر دیتے۔ شیخ محترم نے جو کتب تصنیف یا ترجمہ کیں، ان سے حاصل ہونے والی رقم بھی اکثر مزید کتابیں خریدنے میں خرچ ہوتی۔
کتب خانہ (لائبریری) کی تعمیر
یہ شوق اور محنت آہستہ آہستہ ایک مضبوط لائبریری کی بنیاد رکھنے کا ذریعہ بنے۔ ان کی ذاتی لائبریری آج ایک ضخیم علمی ذخیرہ بن چکی ہے، جس میں مختلف علوم و فنون کی قیمتی کتب شامل ہیں۔ یہ لائبریری ان کے مطالعے کے شوق، علمی جدوجہد، اور تحقیق کی گواہی دیتی ہے۔
شیخ محترم کی کتابوں کے ساتھ یہ محبت ان کی شخصیت کا وہ پہلو ہے جس نے نہ صرف ان کی علمی صلاحیتوں کو جلا بخشی بلکہ دین کی خدمت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
قرآن مجید کے متعلق کتب
1۔ قرآن مجید (ترجمہ) غیر مطبوع۔
2۔ تفسیر سورۃ الکہف غیر مطبوع۔
3۔ تفسیر سورۃ الحجرات (سوالا جوابا) مطبوع۔
4۔ تخریج تفسیر تسیر القرآن از مولاناعبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ- مطبوع
5۔ تفسیر معارف البیان (نظر ثانی) مطبوع
6۔ سجدہ تلاوت کے احکام (نظر ثانی) مطبوع
احادیث کے متعلق کتب
7۔ الأدب المفرد للبخاری (ترجمہ) مطبوع
8۔ مسند الشہاب (ترجمہ تحقیق و تخریج اور تشریح) مطبوع
9۔ أمثال الحدیث لابی الشیخ الاصبہانی (ترجمہ و تخریج و تحقیق اور شرح) مطبوع
10۔ کنز العمال مختصر (ترجمہ و تخریج و تحقیق) غیر مطبوع
11۔ معجم إبن الاعرابی (ترجمہ و تخریج و تحقیق اور فوائد) غیر مطبوع
12۔ تخریج مشکاہ المصابيح مطبوع
13۔ الزہد لوکیع بن الجراح (نظر ثانی) مطبوع
14۔ الزہد لابی داود (تحقیق و تخریج) غیر مطبوع
15۔ بلوغ المرام (تحقیق و تخریج) غیر مطبوع
16۔ الرد علی الجہمیہ للدارمی (تحقیق و تخریج) مطبوع
17۔ مباحث اصول حدیث مطبوع
دیگر موضوعات پر کتب
18۔ صحیح سیرت خلفاء راشدین،مطبوع
19۔ المسند فی عذاب القبر مطبوع
20۔ عذاب قبر قرآن و حدیث کی روشنی میں مطبوع
21۔ عذاب قبر قرآن مجید کی روشنی میں
22۔ گناہوں کو مٹانے والے اعمال مطبوع
23۔ نیکیوں کو برباد کرنے والے اعمال مطبوع
24۔ اسلامی مہینے اور ان کا تعارف مطبوع
25۔ ہفتے کے دن اور ان کا تعارف مطبوع
26۔ سیدنا ثعلبہ بن حاطب در عدالت انصاف مطبوع
27۔ تحفة السائلین مطبوع
28۔ تحفة مسلم مطبوع
29۔ پیارے نبیﷺکی پیاری نماز مطبوع
30۔ علمی مقالات جلد 1 مطبوع
31۔ فتاوی افکار اسلامی ( نظر ثانی) مطبوع
32۔ مقام رسالت (نظر ثانی و تخریج) مطبوع
33۔ منکرین حدیث کی مغالطہ انگیزیوں کے جواب (تحقیق و تخریج) مطبوع
34۔ جہنم کا منظر (تحقیق و تخریج) مطبوع
35۔ جنت کا منظر (تحقیق و تخریج) مطبوع
36۔ آیت الکرسی اور عظمت الہی (تحقیق و تخریج) مطبوع
37۔ سورہ الاخلاص کا پیغام (تحقیق و تخریج) مطبوع
38۔ احکام شریعت میں حدیث و سنت کا مقام (تخریج )مطبوع
39۔ اللہ کی دس نصیحتیں (تحقیق) مطبوع
40۔ گناہوں کی معافی کے دس اسباب (تحقیق و تخریج) مطبوع
41۔ دین کے دو نشان قرآن اور صاحب قرآن (تحقیق و تخریج) مطبوع
42۔ اسلامی نظام معاشرت کی بنیادی اکائیاں (تحقیق و تخریج) مطبوع
43۔ محبت یا عشق؟ (تحقیق و تخریج) مطبوع
44۔ جنت کی آرزو (اضافہ و ترمیم) مطبوع
45۔ ریاض الایمان (تخریج )مطبوع
46۔ شوق جہاد (نظر ثانی) مطبوع
47۔ راہنمائے حج و عمرہ (تحقیق و تخریج) مطبوع
48۔ بچوں کی حاضری نماز مطبوع
49۔ مسنون دعائیں اور اذکار (تحقیق) مطبوع
50۔ تقلید کی شرعی حیثیت (تحقیق) مطبوع
51۔ پریشانیوں کا حل (تحقیق) مطبوع
52۔ دو مسلمانوں کا مکالمہ (تحقیق و تخریج) مطبوع
53۔ نماز عصر (تخریج)مطبوع
54۔ دعوت قرآن و حدیث (تحقیق و تخریج) مطبوع
55۔ استقامت دین، مطبوع
56۔ نبیﷺاور صحابہ کے مشترکہ اوصاف (تحقیق)
57۔ کیا امت مسلمہ شرک اکبر کی مرتکب نہیں ہوسکتی؟(نظر ثانی مطبوع)
58۔ غسل وضو اور نماز کا طریقہ (نظر ثانی) مطبوع
59۔ شام کے فضائل (نظر ثانی) مطبوع
60۔ القول القوی فی نقد الرجال للشیخ زبیر علی زئی
61۔ مجلہ نور الحدیث ماہانہ (مدیر)
مزید جاننے کے لیے
شیخ محمد ارشد کمال صاحب حفظہ اللہ کے متعلق مزید جاننے کے لیے” علمائے اہل حدیث کی کہانی ان کی اپنی زبانی”حکیم محمد یحیی عزیز ڈاھروی حفظہ اللہ کا ملاحظہ کیا جاسکتا ہے
جس میں آپ کی زندگی کے مختلف گوشوں کو قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
🔘 اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ محترم محمد ارشد کمال صاحب حفظہ اللہ کی دینی، دعوتی، تصنیفی، تعمیری، تدریسی، تبلیغی اور ملی خدماتِ جلیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے۔ آمین!
🔆ناشر: حــافظ امجـد ربـــانی