شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کامختصر تعارف

ما رأيت تحت أديم السماء عالما بالحديث في العصر الحديث مثل العلامة محمد ناصر الدين الألباني۔
میں نے عصر حاضر میں آسمان کے نیچے محمدناصرالدین البانی(رحمہ اللہ)جیسا فن حدیث کاعلم رکھنے والا نہیں دیکھا۔

محدث العصر محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی شخصیت اہل علم کے حلقہ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے،آپ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ آپ اپنی دینی خدمات بے نظیر،تالیفات، مقالات، تحقیقات، تخریجات اوردروس کی بنا پر عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں معروف ہیں۔ آپ کو حدیث نبوی، رجال اور اسانید پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ نے جس انداز پر دین کی بے لوث خدمات انجام دی ہے وہ لائق تحسین ہے۔ ماضی قریب میں علم حدیث کے فنون میں آپ کا کوئی ہمسر اور ثانی نظر نہیں آتا کہ جنہوں نے علمی تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا ہو۔

محدث العصر علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کامختصر تعارف

نسب نامہ

محمدناصرالدین البانی بن نوح بن آدم بن نجاتی البانی

ولادت 

شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی ولادت 1914ءبمطابق 1332ھ میں البانیہ کےدارالسلطنت’’اشقودرہ،،میں ہوئی۔زندگی کی تو منزلیں آپ نے البانیہ ہی میں طے کیں اور اسی کی طرف منسوب ہوکر البانی کہلائے، آپ کے والد صاحب ذی علم شخصیت کے مالک تھے اور مسلک حنفی کے معروف فقہا میں سے تھے۔

ارض شام کی ہجرت

شیخ البانی رحمہ اللہ جس وقت پیدا ہوئے اس وقت البانیہ میں شاہ احمد زوغ نامی شخص کی حکومت تھی۔ اس شخص نے البانیہ میں مغربی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھانا چاہا تو البانیہ میں دینی طبقے کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئیں۔ ان حالات کو دیکھ کر آپ کے والد محترم نے اپنے بچوں کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے دمشق کی طرف ہجرت کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔
اس لیے علامہ البانی رحمہ اللہ اپنے والد محترم کے لیے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ میرے والد محترم کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے شام کی طرف ہجرت کر لی۔ اگر میں البانیہ میں رہتا تو بہت بڑا جاہل انسان بن جاتا۔
ہجرت کے لیے ارض شام کا انتخاب کیا کیونکہ احادیث میں وہاں سکونت اختیار کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ چنانچہ بحری راستے سے بیروت ہوتے ہوئے آپ مع اہل خانہ دمشق پہنچے ، اس امید کے ساتھ کہ ہوسکتا ہے کہ قیام شام سے دنیا و آخرت میں ان کی قسمت چمک اٹھے انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ارض شام کی قسمت کو چمکانے والا بچہ خود انہی کی گود میں پل رہا ہے۔

تعلیم و تربیت

دمشق پہنچے تو شیخ البانی رحمہ اللہ کی عمر نو سال تھی نو سال کی اس عمر تک آپ مطلق عربی زبان نہ جانتے تھے لیکن آپ کو فطری طور پر عربی زبان سے لگاؤ تھا اور تعلق تھا اس لیے بہت جلدی عربی زبان سیکھ لی اور آگے چل کر عربی زبان میں اتنا ملکہ پیدا کر لیا کہ بڑے بڑے عربی داں بھی آپ کی زبان اور انداز بیان سے مسحور ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔

ابتدائی تعلیم

عربی ابتدائی تعلیم دمشق ہی کے کسی سرکاری سکول میں حاصل کی اور بہت تھوڑی مدت میں اپنا لوہا منوالیا۔ اساتذہ کو آپ کی تعلیمی لیاقت پر اتنا اعتماد تھا کہ سوال وجواب میں ہمیشہ آپ کی باری اس وقت آیا کرتی تھی جب سارے طلبہ جواب دینے سے عاجز اور قاصر ہوتے۔
سرکاری تعلیم کے علاوہ گھر میں خود والد صاحب بھی آپ کی تعلیم و تربیت کا بڑا اہتمام کرتے اور ابتدا ہی سے آپ کو فقہ حنفیہ کی تعلیم دیا کرتے تھے ، ادھر شیخ کا اپنا ذاتی مطالعہ بھی جاری رہتا جہاں کہیں کوئی مسئلہ حدیث کے خلاف پاتے تو اپنے والد سے مناقشہ کرنے لگتے اور اطمینان بخش جواب نہ ملنے کی صورت میں حدیث پر عمل کرنے سے کوئی چیز نہیں روک نہی سکتی۔

ابتدائی تعلیم کے بارے میں سنے شیخ محترم کی زبان سے

شیخ خود بیان کرتے ہیں کہ دمشق جانے کے بعد میں نے ایک پرائیویٹ مدرسہ میں داخلہ لے لیا، جس کا نام “جمعیۃ الاسعاف الخیری” تھا اور تعلیم شروع کردی، عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے میں نے پرائمری کا پہلا اور دوسرا سال ایک سال میں ہی ختم کر دیا اور 6 سال کا کورس 4 سال میں ہی مکمل کرکے پرائمری کی سرٹیفکیٹ لے لی۔ اور لگتا ہے اللہ تعالی نے شروع ہی سے میرے اندر عربی زبان کی محبت پیدا کردی تھی، جس کی وجہ سے بفصل اللہ میں شامی ساتھیوں پر عربی وغیرہ کے مضامین میں ہمیشہ ممتاز رہا اور مجھے یاد آتا ہے کہ نحو کے استاذ کوئی جملہ یا شعر بلیک بورڈ پر لکھ کر طلبہ سے اس کی ترکیب پوچھتے مگر جب وہ نہیں جواب دے پاتے تو مجھے کلاس کے بیچ سے اٹھا کر کہتے” کہ اے ارناؤوطی تم اس جملے کے بارے میں کیا کہتے ہو؟” (سربیا، بوسنیا اور البانیا وغیرہ سے ہجرت کرکے بلاد عریبہ میں آنے والوں کو ارناؤوطی کہا جاتا تھا)۔ اور جب میں پہلی ہی کوشش میں صحیح جواب دے دیتا تو وہ شامی عرب طلبہ کو کوستے تھے کہ عرب ہوکر جواب دینے سے قاصر رہے اور یہ ارناؤوطی ہوکر صحیح جواب دے گیا۔
وہاں سے تعلیم چھوڑنے کی بعد میرے والد نے فیصلہ کیا کہ میں بیک وقت مشائخ سے سے پڑھا کروں اور کام بھی کیا کروں، چنانچہ میں نے والد صاحب سے قرآن تجوید کے ساتھ پڑھا اور اور فقہ حنفی اور صرف بھی انھیں سے پڑھی۔ شیخ سعید صاحب سے بھی فقہ حنفی، بلاغت، نحو اور خاص طور پر نور الایضاح کی شرح مراقی الایضاح پڑھی۔ چنانچہ میں ان لوگوں سے پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے ماموں اسماعیل اور ایک دوسرے شامی آدمی ابو محمد کے ساتھ کارپینٹر (بڑھئی) کا کام کیا کرتا تھا۔ جو 2 سال تک جاری رہا۔ اور میرا کام یہ تھا کہ میں بارش اور برف باری سے متاثرہ لکڑی اور اینٹ سے بنے ہوئے بوسیدہ گھروں کی مرمت کیا کرتا تھا۔ ایک دن بارش کی وجہ سے میں کام پر نہیں گیا اور والد صاحب کے پاس چلا گیا جوگھڑی سازی کا کام کیا کرتے تھے، انھوں نے مجھے دیکھ کر پوچھا کیا کام نہیں ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، پھر پوچھا: کیا خیال ہے میرے ساتھ کام کرو گے، کیونکہ کارپینٹر کا کام مناسب نہیں ہے؟ میں نے کہا: جیسے آپ کی رائے، پھر انھوں نے مجھے کمائی کرنے کے لیے اپنی دکان میں بلالیا۔

گھڑی سازی کا پیشہ

گزر معاش کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے پہلے تو چند دن تک کے لیے بڑھئی کا پیشہ اختیار کیا مگر بعد میں آپ کے والد صاحب نے آپ کو گھڑی سازی سکھادی اور یہی پیشہ زندگی بھر گزر معاش کا ذریعہ تھا ، شیخ البانی رحمہ اللہ ماہر گھڑی ساز تھے اور اس پیشے کی بہت زیادہ تعریف کیا کرتے تھے کیونکہ یہ آزاد پیشہ تھا جو آپ کی علمی مصروفیتوں میں بھی رکاوٹ نہ بنتا تھا اس لیے آپ کہا کرتے تھے کہ میرے والد صاحب کے مجھ پر دو بڑے احسان ہیں پہلا یہ کہ آپ مجھے البانیہ کے لادینی ماحول سے بچا کر ارض شام کی طرف لے آئے ، دوسرا یہ کہ آپ نے مجھے گھڑی سازی جیساآزادہنر سکھایا۔

علم حدیث کی طرف توجہ

شیخ کی علم حدیث کی طرف توجہ کا اصل محرک علامہ رشید رضا کا مجلہ “المنار” تھا (واقعہ مشہور ہونے کی وجہ سے تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔بعد میں شیخ کی ذاتی دلچسپی نے اس میدان میں آپ کے قدم جمادیے ۔ جب بھی کوئی حدیث آپ کی نظر سے گزرتی تو خود اس کی تخریج کرتے اور اس کا درجہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے، شیخ کے شاگرد محمد بن بدیع موسی کہتے ہیں شیخ نے مجھ سے کہا پہلی حدیث جس کی تخریج انہوں نے کی تھی وہ یہ تھی

” دعوا الناس في غفلاتهم يرزق بعضهم من بعض”.

شیخ کے والد کو شیخ کا حدیث کی طرف یہ رجحان پسند نہ تھا، شیخ کو کتب حدیث میں مشغول دیکھ کر یہ کہا کرتے تھے کہ “علم حدیث مفلسوں کا پیشہ ہے تاہم شیخ کی ثابت قدمی میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ آئی کیونکہ آگے چل کر اللہ تعالی کو آپ سے بہت بڑا کام لینا تھا۔

شیخ کی استقامت اورگھر سے جدائی

علم حدیث کی طرف توجہ کا لازمی نتیجہ تھا کہ آپ کے علمی رجحان کا اثر آپ کی عملی زندگی پر ضرور پڑتا، چنانچہ عنفوان شباب ہی سے شیخ کے اندر عمل بالا حادیث کا عجیب و غریب جذبہ تھا ، حتی کے اس بنیاد پر گھر سے جدا بھی ہوگئے، ہوا یہ کہ دمشق کی جامع التوبہ نامی ایک مسجد تھی جس میں ہرنماز میں دو دو جماعتیں ہوا کرتی تھیں، پہلے اول وقت میں شوافع اپنے شافعی امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے تھے، پھر تھوڑی دیر بعد احناف اپنےحنفی امام کی اقتداءمیں باجماعت نماز ادا کرتے، اور یہ حنفی امام خود شیخ البانی رحمہ اللہ کے والد نوح نجاتی تھے۔ ایک ہی مسجد میں دو جماعتیں ، یہ بات البانی صاحب کو اچھی نہیں لگی آپ نے مسئلہ کا علمی جائزہ لینے کے بعد شوافع کے ساتھ نماز پڑھنے کا فیصلہ لیا، جو کہ حدیث کے مطابق اول وقت میں نماز پڑھا کرتے تھے، شیخ کے اس موقف سے آپ کے والد صاحب پرقیامت گزرتی تھی لیکن صبر کرتے ہوئے خاموش رہ جاتے ۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ کے والد صاحب کو کہیں سفر در پیش ہوا انھوں نے البانی صاحب سے کہا کہ میرے واپس آنے تک میری غیر حاضری میں امامت کے فرائض انجام دیتے رہو ، البانی صاحب نے معذرت پیش کر دی، والد صاحب سمجھ گئے کہ البانی نے کیوں معذرت پیش کی آخر کار مجبور ہو کر ایک مرتبہ البانی صاحب کو بلوا بھیجا اور فیصلہ کن گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہوا کہ تم نے اپنا مسلک بدل لیا ہے لہٰذا بہتر ہے کہ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرو ورنہ میرے گھر میں رہنے کی ضرورت نہیں ۔ البانی رحمہ اللہ نے حق کی خاطر گھر سے جدائی اختیار کر لی، جس کی قسمت میں تحقیق کی بلندیاں لکھی ہوئی ہوں وہ تقلید جامد کی پستیوں سے کب اور کیوں راضی ہوتا نبونی بعلم ان کنتم صدقین۔

درس وتدریس

فراغت کےبعد جب مدینہ منورہ میں الجامعہ الاسلامیہ (مدینہ منورہ)کی تاسیس ہوئی توچانسلرمدینہ یونیورسٹی اورمفتی عام برائے سعودی عرب شیخ علامہ محمدابراہیم آل شیخ نےحدیث اورفقہ الحدیث کوجامعہ میں پڑھانے کےلیے علامہ البانی کومقررکیا۔یہاں آپ 3سال تک فریضہ تدریس سرانجام دیتےرہے۔شیخ جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی سےفارغ ہوکردمشق پہنچےاورپھرمکتبہ اظاہریہ میں خودکوقیمتی تالیفات اورنفع بخش مؤلفات کےلیے وقف کردیاتھا۔
شیخ کاہفتہ واری علمی پروگرام بھی ہواکرتاتھا جس میں یونیورسٹیوں کے اساتذہ تک حاضرہواکرتےتھےان پروگراموں میں شیخ نےدرج ذیل کتابوں کادرس دیا۔

1۔الروضة القدية۔۔۔ صدیق حسن خان ۔

2۔منهاج السلام فی الحکم ۔۔۔ محمداسد۔

3۔اصول فقہ۔۔۔ عبدالوہاب کےخلاف۔

4۔مصطلح التاریخ ۔۔۔ اسدرستم۔

5۔فقہ السنہ ۔۔۔ سیدسابق.

6۔ الحلال والحرام ۔۔۔ یوسف قرضاوی۔

7۔الترغیب والترهیب ۔۔۔ حافظ مندہ

8۔فتح المجید شرح کتاب التوحید۔۔۔ عبدالرحمن بن حسن۔

9۔الباحث الحشیب شرح اختصارعلوم الحدیث ۔۔۔ احمدشاکر۔

10۔ریاض الصالحین۔۔۔ امام نووی۔

11۔الامام فی احادیث الاحکام ۔۔۔ ابن دقیق العید۔

12۔الادب المفرد۔۔۔ امام بخاری۔

13۔اقتضاء الصراط المستقیم ۔۔۔ ابن تیمیہ۔
شیخ کی مقبولیت کو دیکھ کر جامعہ کے بعص استاذہ آپ سے حسد کرنے لگے، بالآخر شیخ علیہ الرحمہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل کہتے ہوئے قضاء و قدر سے ہر حال میں راضی بہ رضا ہوکر ایمان و یقین کے ساتھ وہاں سے کوچ کر گئے۔

” حیثما کنت تقوم بواجب الدعوۃ لا فرق عندک”

جہاں بھی آپ رہیں گے دعوت کا کام کرتے رہیں کے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

فیصل اوارڈ

شیخ البانی رحمہ اللہ انہی عظیم خدمات کو دیکھتے ہوئے 1419ھ مطابق 1999ء میں آپ کو فیصل اوارڈ دیا گیا تھا اور آپ کی خدمات کو بہت سراہا گیا تھا۔ شیخ بنفس نفیس حاضر نہ ہو سکے تو اپنے شاگرد کو اپنی نیابت میں بھیج دیا تھا اور شیخ کی نیابت کرتے ہوئے آپ کے شاگرد نے وہ انعام حاصل کیا تھا۔

تصنیفات وتالیفات

شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ کی تصنیفی خدمات:
آپ کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ مؤلفات کی تعداد 218 سے متجاوز ہے، ہم ذیل میں صرف 123کو چار اقسام میں تقسیم کرکے مختصراً ذکر کریں گے:
○(الف) علمی تحقیقات○
«1. الكلم الطيب لإبن تيمية
2. تحقيق مشكاة المصابيح للتبريزي
3. تصحيح حديث إفطار الصائم قبل سفره بعد الفجر
4. رياض الصالحين للنووي
5. صحيح الكلم الطيب لابن تيمية
6. فضل الصلاة على النبيﷺ لإسمعيل بن إسحٰق
7. كتاب اقتضاء العلم والعمل للخطيب البغدادي
8. كتاب العلم للحافظ أبى خيثمة
9. لفتة الكبد فى تربية الولد لابن الجوزي
10. مختصر صحيح مسلم للمنذري
11. مساجلة علمية بين الإمامين الجليلين العز بن عبدالسلام و ابن الصلاح»
○(ب) التخریجات○
«12. المرأة المسلمة للشيخ حسن البناء
13. الآيات البينات فى عدم سماع الأموات عند الحنيفة السادات لمحمود الآلوسي
14. تخريج الإيمان لابن أبى شيبة
15. تخريج الإيمان لأبي عبيد القاسم بن سلام
16. تخريج فضائل الشام للربعي
17. تخريج كتاب الرد على جهمية للدارمي
18. تخريج كتاب المصطلحات الأربعة فى القرآن
19. تخريج كتاب إصلاح المساجد من البدع والعوائد لجمال الدين القاسمي
20. تخريج كلمة الإخلاص وتحقيق معناها لابن رجب الحنبلي
21. تخريج أحاديث مشكلة الفقرو كيف عالجها الإسلام للقرضاوي
22. حجاب المرأة المسلمة ولباسها فى الصلاة لشيخ الإسلام ابن تيمية
23. حقيقة الصيام لابن تيمية
24. شرح العقيدة الطحاوية لأبي جعفر الطحاوي
25. صحيح الجامع الصغير و زيادته(الفتح الكبير) للسيوطي
26. ضعيف الجامع الصغير و زيادته (الفتح الكبير) للسيوطي
27. غاية المرام فى تخريج أحاديث الحلال والحرام للقرضاوي
28. كتاب السنة و معه ظلال الجنة فى تخريج السنة لأبي عاصم الضحاك
29. ما دل عليه القرآن مما يعضد الهيئة الجديدة القوية البرهان لمحمود الآلوسي
30. إرواء الغليل فى تخريج أحاديث منار السبيل لابن ضويان»
○(ج) اختصار ؍ مراجعۃ ؍ تعلیق○
«31. التعليق على كتاب الباعث الحيثث شرح اختصار علوم الحديث لابن كثير بتحقيق أحمد شاكر
32. التعليقات على صفة الفتوي والمفتي والمستفتي لابن شبيب بن حمدان
33. صحيح ابن خزيمة بتحقيق
مصطفي الأعظمي
34. مختصر الشمائل المحمدية للترمذي
35. مختصر شرح العقيدة الطحاوية
36. مختصر كتاب العلو للعلي العظيم للحافظ الذهبي
37. مدارك النظر فى السياسة بين التطبيقات الشرعية والانفعالات الحماسية لعبد الملك الجزائري»
○(د) تالیفات○
38. التعقيب على كتاب الجواب للمودودي
39. التعليق الممجد على التعليق على موطأ الإمام محمد للكنوي
40. التعليق على كتاب سبل السلام شرح بلوغ المرام
41. التعليق على كتاب مسائل جعفر بن عثمان بن أبى شيبة
42. التعليقات الجياد على زاد المعاد
43. التعليقات الرضية على الروضة الندية
44. التوسل، أحكامه وأنواعه
45. الثمر المستطاب فى فقه السنة والكتاب
46. الجمع بين ميزان الاعتدال للذهبي و لسان الميزان لابن حجر
47. الحديث حجة بنفسه فى العقائد والأحكام
48. الحوض المورود فى زوائد منتقي ابن الجارود
49. الذب الأحمد عن مسند الإمام أحمد
50. الرد على رسالةالشيخ التويجري فى بحوث من صفة الصلاة
51. الرد على كتاب المراجعات لعبد الحسين شرف الدين
52. الرد على رسالة التعقب الحثيث
53. الرد على رسالة أرشد السلفي
54. الروض النضير فى ترتيب و تخريج معجم الطبراني الصغير
55. السفر الموجب للقصر
56. اللحية فى نظر الدين
57. المحو والإثبات
58. المسيح الدجال و نزول عيسي عليه الصلاة والسلام
59. المنتخب من مخطوطات الحديث
60. الأحاديث الضعيفة والموضوعة التى ضعفها أوأشار إلى ضعفها ابن تيمية فى مجموع الفتاوي
61. مقدمة الأحاديث الضعيفة والموضوعة فى أمهات الكتب الفقهية
62. الأحاديث المختارة
63. الأمثال النبوية
64. بغية الحازم فى فهارس مستدرك الحاكم
65. تاريخ دمشق لأبي زرعة رواية أبى الميمون
66. تحذير الساجد من اتخاذ القبور المساجد
67. تحقيق كتاب حول أسباب الاختلاف للحميدي
68.تحقيق كتاب ديوان أسماء الضعفاء والمتروكين للذهبي
69. تحقيق كتاب مساوئ الأخلاق للخرائطي
70. تحقيق كتاب أصول السنة واعتقاد الدين
71. تسديد الإصابة إلى من زعم نصرة الخلفاء الراشدين والصحابة
72. تسهيل الانتفاع بكتاب ثقات ابن حبان
73. تعليق و تحقيق كتاب زهر الرياض فى رد ماشنعه القاضي عياض على من أوجب الصلاة على البشير النذير فى التشهد الأخير
74. تلخيص صفة صلاة النبيﷺ
75. تلخيص كتاب تحفة المودود فى أحكام المولود
76. تلخيص أحكام الجنائز
77. تمام المنة فى التعليق على كتاب فقه السنة للسيد سابق
78. حجاب المرأة المسلمة فى الكتاب والسنة
79. خطبة الحاجة
80. دفاع عن الحديث النبوي والسيرة
81. سلسلة الأحاديث الصحيحة و شيء من فقهها
82. سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيي ء فى الأمة
83. صحيح ابن ماجه
84. صحيح الترغيب والترهيب
85. صحيح الأدب المفرد
86. صحيح الإسراء والمعراج
87. صحيح سنن أبى داود
88. صفة الصلاة الكبير
89. صفة صلاة النبيﷺ لصلاة الكسوف
90. صفة صلاة النبيﷺ من التكبير إلى التسليم كأنك تراها
91. صلاة الاستسقاء
92. صلاة العيد ين فى المصلي هي السنة
93. ضعيف ابن ماجه
94. ضعيف الترغيب والترهيب
95. ضعيف سنن أبى داود
96. فهرس المخطوطات الحديثيةفي مكتبة الأوقاف بحلب
97. فهرس كتاب الكواكب الدراري
98. فهرس مخطوطات دارالكتب الظاهرية
99. فهرس مسند الإمام أحمد بن حنبل فى مقدمة المسند
100. فهرس أحاديث كتاب التاريخ الكبير
101. فهرس أحاديث كتاب الشريعة للآجري
102. فهرس أسماء الصحابة الذين أسندوا الأحاديث فى معجم الطبراني الأوسط
103. قاموس البدع
104. قيام رمضان و بحث عن الاعتكاف
105. كشف النقاب عما فى كلمات أبى غدة من الأباطيل والافتراء ات
106. ماصح من سيرة رسول اللهﷺ
107. مختصر تعليق الشيخ محمد كنعان
108. مختصر صحيح البخاري
109. مختصر صحيح مسلم
110. معجم الحديث النبوي
111. مناسك الحج و العمرة فى الكتاب والسنة و آثار السلف
112. مناظرة كتابية مسجلة مع طائفة من أتباع الطائفة القاديانية
113. منزلة السنة فى الإسلام
114. نصب المجانيق فى نسف قصة الغرانيق
115. نقد نصوص حديثية فى الثقافة العامة
116. وجوب الأخذ بحديث الأحاد فى العقيدة
117. وصف الرحلة الأولي إلى الحجاز والرياض مرشدا للجيش السعودي
118. وضع الأصار فى ترتيب أحاديث مشكل الآثار
119. آداب الزفاف فى السنة المطهرة
120. أحاديث البيوع وآثاره
121. أحكام الجنائز
122. أحكام الركاز
123. إزالة الشكوك عن حديث البروك وغيره»
اس کےعلاوہ بھی شیخ کی بےشمارکتابیں ہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کے تلامذہ

شیخ البانی رحمہ اللہ کے ذات سے بےشمار لوگوں نےفیض حاصل کیا آپ کےتلامذہ کی شمار ممکن نہیں ہے لیکن چندایک مشہورتلامذہ کےنام درج ذیل ہیں۔

(1)۔شیخ حمدی عبدالمجید السلفی جومعروف محقق اورصاحب تحقیقات ومؤلفات وتخریجات علمیہ کثیرہ ہیں 37سےزائدکتب آپ کی مساعی جمیلہ کاثمرہ ہیں۔

(2)۔شیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق جومعروف مؤلف ہیں۔مختلف موضوعات پر24سےزائدکتب تحریرفرمائی ہیں۔

(3)ڈاکٹرعمرسلیمان الاشقر18سےزائد
کتابوں کےمؤلف ہیں۔

(4)شیخ خیرالدین وائلی 9سےزائدوقیع کتابوں کےمؤلف ہیں۔

(5)شیخ محمدعبیدعباسی شیخ کےخادم ونمایاں تلامذہ میں آپ کاشمارہوتا ہے۔

(6)شیخ محمدابراہیم شقرہ 6 سے زائد نافع مؤلف آپ کی کاوشوں کاثمرہ ہیں۔

(7)شیخ محمدبن جمیل زینو 10 سےزائدکتابیں لکھی ہیں۔

(8)شیخ مقبل بن یادی الوداعی10 سےزائدمفیدکتابوں کےمؤلف ہیں۔

(9)شیخ زہیرالشاویش 19 سےزائدکتب آپ کی مساعی کانتیجہ ہیں۔

(10)علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ
ان کےعلاوہ بہت سےمشاہیر علماء کرام جودین کی خدمت میں پیہم مصروف کار ہیں شیخ رحمہ اللہ کی ذات سےکسب فیض حاصل کرنےوالوں میں شامل ہیں۔

ابتلاء و آزمائش

یہ تو دنیا واہل دنیا کا دستور رہا ہے کہ جب بھی کوئی شخص صحیح دین کی آواز لے کر اٹھا تو اہل دنیا کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور ایسے لوگوں پر دنیا کو تنگ کرنے کی جہد میں لگ جاتے ہیں۔ کلمہ حق کہنے کی پاداش میں آپ کو بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ حکومت شام نے دو مرتبہ آپ کو جیل بھیجا۔ جیل میں بھی آپ نے اس دعوت و تبلیغ کے کام کو جاری رکھا۔ آپ کو دمشق کی القلعہ نامی جیل میں بھی ڈالا گیا۔ یہ وہ تاریخی جیل ہے کہ جس میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو بھی قید کیا گیا تھا۔

وصیت نامه

شیخ البانی رحمہ اللہ نے وفات سے دس سال قبل ہی اپنی وصیت لکھ رکھی تھی۔

وصیت کا مضمون کچھ یوں تھا

میں اپنے بیوی بچوں اور دوست و احباب کو یہ وصیت کرتا ہوں کہ جب انھیں میرے انتقال کی خبر معلوم ہو تو سب سے پہلے میرے لیے دعائے مغفرت کریں اور نوحہ خوانی اور چیخ و پکار سے پر ہیزکریں۔ میری تدفین جلد از جلد کردیں، جو رشتہ دار اس بستی سے باہر ہوں جہاں میرا انتقال ہوگا، انھیں میرے انتقال کی خبر میری تدفین کے بعد دی جائے تاکہ ان کاانتظار تدفین میں تاخیر کا سبب نہ بنے ۔ مجھے میرے پڑوسی اور فاضل دوست عزت خضر ابو عبد اللہ غسل دیں، غسل کے بعد قریبی قبرستان ہی میں دفن کر دیا جائے تا کہ قبرستان کی دوری کی وجہ سے جنازہ لے جانے کے لیے گاڑیوں اور سواریوں کے لیے مجبور نہ ہونا پڑے۔ میں اپنی ساری کتابیں اور اپنا سارا مکتبہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے مکتبہ کے لیے ہدیہ کرتا ہوں۔ جہاں میری زندگی کے خوشگوار ایام گزرے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے۔
یہ آپ کی وصیت تھی جس سے آپ کا جذ بہ اتباع سنت عیاں ہے۔

ماخذ

شیخ محترم کے متعلق مزید تفصیلی معلومات کے لیےان کے بعض تلامذه
مثلاً شيخ مجذوب شیخ علی خشان اور شیخ محمد عید عباسی وغیرہ نے “موجزة عن حياة الشيخ ناصر الدین کے عنوان سے آپ کا ترجمہ لکھا ہے، ان کے علاوہ شیخ محمد بن ابراہیم شیبانی نے “حياة الألباني و آثاره و ثناء العلماء علیه نامی ترجمہ لکھا۔
جہاں سے ہم نے استفادہ کیا ہے بعض مقام پر وہ مولانا عبد العظیم عمری مدنی صاحب(استاذ جامعه دار السلام عمر آباد) نے شیخ البانی رحمہ اللہ کے سوانح حیات کو مرتب کیا ہے

وفات

اپنی زندگی کےآخری سالوں میں شیخ رحمہ اللہ کوبہت سی بیماریاں لاحق ہوگئیں تھیں آخری ایام میں علاج کی غرض سےہسپتال بھی داخل رہے۔لیکن آخر کار 3ا کتوبر 1999ءکواردن میں فکروبصیرت کایہ روشن ستارہ امت کا جلیل، مقتدرعالم، باوقارمبلغ، دوراندیش مفتی، علم وفن کاامام، تصنیف وتالیف کےمیدان کاشاہ سواراوردعوت دین وتبلیغی کی محفلوں کایہ شمع دنیا کو خیر آباد کہتا ہوا رفیق اعلیٰ سے جاملا۔ انا لله و انا اليه راجعون اللهم اجرنا في مصيبتنا وأخلفلنا خيرا منها”

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی مغفرت کرتے ہوئے آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور آخرت میں شیخ محترم کو انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین کی رفاقت عطا کرے۔ آمین ثم آمین۔
ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذين سبقونا بالايمان ولا تجعل في قلوبنا غلاللذين آمنو ربنا انك رؤف رحيم۔

●ناشر: حافظ امجد ربانی
● فاضل: جامعہ سلفیہ فیصل آباد
●مدرس: جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سندر لاہور

یہ بھی پڑھیں: مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی حفظہ اللہ کا مختصر تعارف