شیخ المشائخ مفتی عبیداللہ خان عفیفؒ کی بھولی بسری یادیں!
تحریر: رانا عبداللہ مرتضی السلفی
14 اگست 2025 بوقت عصر
استاذِ محترم مفتی مبشر احمد ربانیؒ سے جب بھی ان کے محبوب استاذ حضرة العلام مفتی عبیداللہ خان عفیف نور اللہ مرقدہ کا ذکر سنتے تو حضرت عفیفؒ کی شخصیت دل کے نہاں خانوں میں جگہ بنانے لگتی۔
دل میں یہ شوق موجزن ہوا کہ کیوں نہ اس مردِ درویش کی زیارت کی جائے، جن کی زندگی کا ہر پہلو علم، عمل، فراست، بصیرت، اور زہد و تقویٰ ایسی صفات کا آئینہ دار ہے۔ کسی وسیلے سے ان کا نمبر حاصل کیا، اور جب اُن سے پہلی بار فون پر رابطہ ہوا، تو لہجے کی نرمی نے دل موہ لیا۔ نہ صرف ملاقات کی اجازت مرحمت فرمائی، بلکہ جامعہ اہل حدیث چوک دالگراں کا مکمل پتہ بھی سمجھایا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب استاذ محترم مفتی مبشر احمد ربانی صاحب فراش تھے۔ ایک روز میں جامعہ اھل حدیث چوک دالگراں پہنچا، دروازے پر کھڑے سیکورٹی گارڈ سے مفتی عبیداللہ خان عفیف مرحوم بارے پوچھا، تو اس نے مسجد کے صحن کی طرف اشارہ کیا۔ نگاہ اُدھر کو پھیر کر دیکھا، تو ایک نورانی شخصیت، سفید قمیص، رنگین تہبند (جس کو پنجابی زبان میں دھوتی کہا جاتا ہے )، سر پر لال رومال کی دستار سجائے، کتاب کھولے مطالعہ میں محو ہے، یہ تھے ہمارے محبوب حضرة العلام مفتی عبیداللہ خان عفیف نور اللہ مرقدہ۔ رسمی سلام دعا کے بعد
تعارف کرایا تو چہرہ مسکراہٹ سے کھل اٹھا۔ محبت کے ساتھ پاس بٹھایا، قریب بیٹھے ایک طالب علم کو آواز لگا کر جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر اس کو تھماتے ہوئے چائے لانے کا حکم دیا اور فرمایا:”ٹیٹ جئی چا ہووے” — یعنی چائے اعلیٰ قسم کی ہونی چاہیے! پھر کچھ دیر گفت و شنید رہی، نام عبداللہ مرتضی میں ” مرتضی ” صیغہ حل کرنے کا حکم دیا اور حل کرنے پر شاباش دی۔
اس ملاقات کے بعد یہ معمول بن گیا کہ ہفتے میں ایک آدھ دن ان کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ان کے پاؤں دابتا علمی و روحانی ملفوظات سے محظوظ ہوتا۔ ان دنوں مفتی صاحب شدید علیل تھے، عمر بھی اسی سال سے تجاوز کرچکی تھی، مگر اس پیرانہ سالی میں بھی تعلیم و تعلم اور فتوی نویسی کے شغل میں تعطل نہ آنے دیا۔ آپ جامعہ اھل حدیث چوک دالگراں میں درس بخاری ارشاد فرماتے اور ہفت روزہ الاعتصام اور تنظیم اھل حدیث کے لیے فتوی نوسی کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔
مسجد سے متصل ایک سادہ سا کمرہ ان کی قیام گاہ تھی جس کو نمازی حضرات بھی پنج وقتہ نمازوں کے لیے بہ طور گزر گاہ استعمال کر لیا کرتے تھے۔ پیشاب کی نالی لگی ہوئی تھی اس لیے اکثر نمازیں ادھر بیٹھے بیٹھے چارپائی پر ہی پڑھ لیتے، طبیعت ذرا بہتر ہوتی تو طلبہ کے سہارے مسجد بھی چلے جاتے، کھانے میں طلبہ والی دال روٹی لیکن کوئی شکوہ شکایت نہیں، زبان ذکر الہٰی سے تر، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرتے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھتے تھے۔
میں جاتا، تو محبت سے اپنے پاس بٹھاتے، جو کچھ کھانے کو میسر ہوتا آگے رکھ دیتے، اصرار کرکے چائے پلاتے ہر بار استاذِ محترم مفتی ربانیؒ کی خیریت دریافت کرتے۔ ایک باراستاذ مکرم مفتی مبشر احمد ربانی رحمہ اللہ اور حضرت مفتی صاحب کی فون پر بات کرائی، تو سلام و دعا کے بعد دونوں استاذ و شاگرد زار و قطار رو دیے اور ایک دوسرے کو بہت دیر تک دعائیں دیتے رہے۔
جب جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں احناف دوستوں کی جانب سے فتاوی عالمگیری کو ملکی قانون بنانے کا مطالبہ شروع ہوا، تو ان کی دینی غیرت و حمیت نے جوش مارا۔ ’’فتاوی عالمگیری پر ایک نظر‘‘ جیسی جاندار کتاب تصنیف کی، جس نے مقلدینِ احناف کو لاجواب کر دیا۔ آج تک کسی حنفی اھل قلم کو جرات نہیں ہوئی کہ اس کتاب کا رد لکھ سکے۔
ایک بار میں دہلی سے شائع شدہ نسخے لے کر حاضر ہوا جو مجھے محترم و مکرم ابوالوفاء عبداللہ رئیس مکتبہ دارالسلف ٹنڈو آدم سندھ کی وساطت سے موصول ہوا، تو ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں اور کتنی دیر دعاوں سے نوازتے رہے۔
فرمایا کرتے تھے:
میں ایسے شخص کو عالم نہیں سمجھتا جس کے مطالعے میں یہ پانچ کتابیں مستقل طور پر شامل نہ ہوں: فتح الباری لابن حجر، السنن الکبری للبیہقی، المحلی لابن حزم، نیل الأوطار للشوکانی اور سبل السلام شرح بلوغ المرام۔
ان کا خودداری کا عالم یہ تھا کہ ایک مالدار سیٹھ نے بلا بھیجاو فرمایا: ’’کام ہے تو خود آ جائے۔‘‘ سیٹھ نے جب سنا تو مفتی صاحب کے علم و وقار کا گرویدہ ہو گیا۔
ایک بار ایک آسودہ حال، مگر بے نماز شخص کاروبار میں خسارے کے سںبب دعا اور کشادگی رزق کے وظیفے کا طلب گار ہوا تو مفتی صاحب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ فرمایا: ساری زندگی نماز کے قریب نہیں جاتے اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہو، اور جب اللہ کا کوڑا برستا ہے، تو مولوی یاد آجاتے ہیں؟ جاو جا کر نماز کی پابندی کرو اور اللہ تعالیٰ سے کثرت سے استغفار کرو۔
مفتی صاحب ایک عظیم انسان تھے۔ سادہ، مگر اصول پرست۔ خوددار، مگر شفقت شعار۔ ان کے علم کا دائرہ وسیع، مطالعہ گہرا، دلائل پر مکمل دسترس تھی، تقوی للہیت اور اتباع سنت ایسی صفات سے متصف تھے۔
مفتی صاحب مرحوم سے راقم کی آخری ملاقات ان کے گھر رحمت ٹاون فیصل آباد ہوئی ان کی وفات سے ہفتہ دس دن قبل، اس وقت مفتی صاحب علالت طبع کے سبب درس و تدریس کا سلسلہ منقطع کرکے الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں زیر علاج تھے۔ میں ان گھر سے لاہور جامعہ واپس جاتے ہوئے ان کی زیارت و عیادت کے لیے فیصل آباد ان کے ہاں حاضر ہوا، اس دن مفتی صاحب کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی تھی اور وہ اپنے گھر موجود تھے۔ صحت اگرچہ اچھی نہ تھی لیکن پہلے سے افاقہ محسوس ہورہا تھا۔ سردیوں کے ایام تھے راقم عشاء کے قریب مفتی صاحب کے گھر پہنچا اور گھنٹہ بھر ان کی خدمت میں بیٹھ کر لاہور کے لیے روانہ ہوگیا، مفتی صاحب کے اصرار کے باوجود ان کے ہاں قیام نہیں کیا، کیا معلوم تھا کہ ان سے یہ ملاقات آخری ہوگی۔
اس ملاقات میں مفتی صاحب مرحوم نے طلبة العلم اور علماء کرام کے اپنی زندگی کے دو نصیحت آموز واقعات سنائے جو ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں۔
1۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا (اس کا کیا سبب تھا اور کس سن کی بات ہے مجھے یاد نہیں)۔ ایک بریگیڈیئر صاحب نے پہلے دن مفتی صاحب سے بڑے سخت لہجے میں سوالات کیے جن کے جوابات مفتی صاحب رحمہ اللہ نے نہایت متانت و سنجیدگی سے دیے، انہی سوالات میں ایک سوال تھا کہ مولوی صاحب آپ کی مولانا مودودی صاحب بارے کیا رائے ہے؟ تو آپ مے فرمایا “مولانا مودودی میں خیر کا پہلو غالب تھا” مفتی صاحب نے اس سوال کا ایسا احسن جواب دیا کہ بریگیڈیئر صاحب مفتی صاحب پر مہربان رہے تاآنکہ مفتی صاحب کو فوجی تحویل سے رہائی نصیب ہوئی گویا مفتی صاحب نے سانپ بھی مار دیا لاٹھی بھی ٹوٹنے نہ دی۔
2۔ ایک واقعہ مفتی صاحب نے اپنے عھد شباب کا سنایا کہ وہ کسی معاملے کے سلسلے میں کچہری گئے ہوئے تھے کہ وہاں اپنے سامنے سے یورپوی لباس میں ملبوس ایک داڑھی منڈھا نوجوان آتا دکھائی دیا جس کو دیکھ کر مفتی صاحب کی رگ حمیت نے جوش مارا نے دل ہی دل میں جو فسق و فجور کا فتوی لگا سکتے تھے لگا دیا لیکن جب وہ نوجوان ذرا قریب آیا تو اس کے ماتھے پر سجدوں کے نشانات دیکھ کر مفتی صاحب پشیمان ہوگئے اور اس دن کے بعد یہ عھد کر لیا کہ آئندہ کبھی کسی شخص بارے حکم لگانے میں اس طرح عجلت سے کام نہیں لوں گا۔
اسی مناسبت سے مفتی صاحب کی ایک اھل حدیث امام مسجد کو کی گئی نصیحت بھی درج کرنا خالی از فائدہ نہیں ہوگا کہ جب ایک قاری صاحب کو آپ نے رحمت ٹاون والی اپنی مسجد میں منصب امامت کے لیے منتخب کیا تو آپ نے فرمایا: امام مسجد کو چاہیے کہ وہ اپنے لنگوٹ کس کر رکھے، لوگوں کی جیب پر نظریں نہ رکھے اور کبھی کبھی بعد از نماز اجتماعی دعا بھی کروا دیا کرے۔
اس جہان ہست و بود میں کسی فرد کو حیات ابدی سے نہیں نوازا گیا۔ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ مفتی صاحب مرحوم 9 فروری سن 2022 عصر کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ موصوف نے ساری زندگی درس و تدریس، دعوت و ارشاد، افتاء جیسی عظیم خدمات محض لوجہ اللہ انجام دیتے ہوئے اپنی ساری زندگی دین حنیف کی خدمت میں بسر کی، اپنے پیچھے سینکڑوں تلامذہ اور مستفیدین کے علاوہ وقیع تصانیف اور مجموعہ ہائے فتاوی اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے جو ان شاء اللّٰہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مفتی صاحب مرحوم کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظور فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العرش العظیم۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را!